Editorial

معیشت بحالی کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت

 

ملک میں روپے کی بے قدری جاری ہے اورجمعہ کے روز انٹر بینک میں ڈالر 264کا ہوگیامگر اوپن مارکیٹ میں ڈالر 268روپے میں فروخت ہوا۔ملک میں سونے کی قیمت میں مسلسل دوسرے روز ہزاروں روپے اضافہ ہوااور سندھ صرافہ بازار جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق سونے کی فی تولہ قیمت میں 6 ہزار 500 روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد نئی قیمت 2 لاکھ 9 ہزار روپے ہوگئی اِس کے برعکس عالمی صرافہ بازار میں سونا 2 ڈالر کم ہوکر 1928 ڈالر فی اونس ہوا۔ڈالر اور سونا کی قیمتوں کے بعد وفاقی ادارہ شماریات کے ہفتہ وار اعدادوشمار مہنگائی کی شرح میں صفر اعشاریہ چار پانچ فیصد مزید اضافے سے مہنگائی کی مجموعی شرح تین دو اعشاریہ پانچ سات فیصد تک پہنچنے کااعلان تھے۔ رپورٹ میں ہر گھر میں خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کی مہنگائی بھی بیان کی گئی ہے جو اگرچہ بازار کی حقیقی مہنگائی سے کہیں کم ظاہر کی گئی ہے لیکن دراصل اِس رپورٹ کے ذریعے مہنگی ہونے کا اعتراف کیاگیا ہے۔ مگر ایک طرف وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اسی ماہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی اُمید ظاہر کی ہے تو دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایمان افروز اور معرفت کی باتیں کرتے ہوئے بالکل صاف اور کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اللہ کے ذمے ہے، اللہ ہمت دے گا۔ پوری ٹیم دن رات کام کر رہی ہے، میرا ایمان ہے پاکستان ترقی کرے گا۔ اگر اللہ نے پاکستان کو بنایا ہے تو اس کی حفاظت، ترقی، خوشحالی اس کے ذمے ہے۔ پاکستان دنیا میں باقی رہنے کے لیے قائم ہوا ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو کلمے کی بنیاد پر بنا۔ شہباز شریف کی قیادت میں پوری کوشش کریں گے کہ پاکستان کے حالات میں بہتری لاسکیں، جو ڈرامہ پانچ سال پہلے شروع ہوا، پاکستان آج اس کے نتائج بھگت رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کی عزم مصمم، استقامت ایمانی اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے باتیں بلاشبہ اُن کی شخصیت کی عکاس ہیں مگر جہاں تک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اللہ تعالیٰ کے ذمے ڈالنے کی بات ہے تو اسلامی و قومی جذبوں سے کرہ ارض پر اپنی منفرد شناخت رکھنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ہی فرمایا ہے کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا۔ یعنی افراد ہی کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے اور بلاشبہ قائد اعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ان کے جانثار ساتھیوں نے اِس بات کو آزاد وطن کی صورت میں سچ کردکھایا جبھی آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں لیکن اُن کے بعد جن افراد کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر رہی ہے، اُنہی کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اِس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ ہمیں صرف اور صرف اللہ سے لو لگانے کا راستہ دکھایا جارہا ہے اور بلاشبہ اسحق ڈار نے بجا فرمایا ہے کہ ملک کو تباہ کرنے والوں کا محاسبہ انتہائی ضروری ہے، مگر کون اعتراف کرے گا کہ اُس نے ملک کو تباہ کیا ہے لہٰذا اُس کا محاسبہ کیا جائے۔ ہمیشہ سے سابقین پر ملک و قوم کی تباہی و بربادی کا مقدمہ پیش کیا جاتا ہے مگر آج تک اعتراف کوئی نہیں کرتا آج ہم جس سنگین بحران سے دوچار ہیں اور بحرانوں کا درحقیقت کوئی مفصل حل اور حکمت عملی بھی نظر نہیں آرہی تو آیا ملک و قوم کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے تا سبھی متحد و متفق ہوکر ان بحرانوں کا مقابلہ کریں تب اللہ تعالیٰ کی طرف غیبی مدد آنے کا بھی ہمیں یقین ہوگا کیونکہ کرہ ارض پر ہمارا ملک واحد ملک ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا ۔ وطن عزیز شدید معاشی بحران سے دوچار ہے، ڈی فالٹ سے بچنے کے لیے مہنگائی کے بیلن میں عوام کو ٹھونسا جارہا ہے، مگر ایسا کب تک چلے گا اور اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا، کیا پہلے کبھی ہم نے آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کیا اور اِس کی شرائط مان کر ہم نے مہنگائی کے شکار عوام پر مزید مہنگائی مسلط نہیں کی، کیا آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے نتیجے میں ہماری برآمدات کم سے کم تر اور درآمدات زیادہ سے زیادہ نہیں ہوئیں؟ ہر پاکستانی تو مسائل اور اُن کی وجوہات بخوبی سمجھ رہا ہے مگر بیرونی دنیا سے بھی ہمیں متنبہ کیا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اختلافات بھلاکر متحد نہ ہوئیں تو ملک سیاسی عدم استحکام کی زد میں رہے گا اور اس وجہ سے پہلے سے کمزور معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے، ان حالات میں جب پوری قوم اور قیادت کے زبان پر معیشت، چیلنجز، بحران اور اُن کے حل کی گردان ہونی چاہیے، افسوس کہ سیاسی کج بحثی موضوع بحث ہے، جو معاشی حالات اور عوام کی چیخ و پکار سے یکسر لاتعلقی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جذبہ ایمانی کے ساتھ ساتھ ایسے عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے جن سے قائدین کی سنجیدگی، فکر اور ملک و قوم کے ساتھ اخلاص بھی قوم کو محسوس ہو اور پھر اِن کے مثبت اثرات بھی نظر آئیں مگر ہر نئے دن کا سورج نئے چیلنجز ساتھ لیکر طلوع ہوتا ہے جن کی وجہ سے بحران مزید گہرے ہوتے ہیں، ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ اخلاص سے خالی جزوقتی اقدامات سے صرف وقت اور بحران کو عارضی طور پر ٹالا جاسکتا ہے مگر اِن سے مستقل جان چھڑانے کے لیے ہمیں محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑا ہونا پڑے گا ، پھر بھی ہم عارضی حل کو ہی دائمی حل تصور کیے بیٹھے ہیں۔ آئی ایم ایف کا حکم مان کر ڈالر کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، قابو میں نہ آیا تو پھر کیا کریں گے، بجلی اورگیس مہنگی ہونے سے رہی سہی انڈسٹری بند اور برآمدات نہ ہونے کے برابر پہنچ گئیں تو پھر کیا کریں گے، ہم کب محسوس کریں گے کہ ہمیں کھدیڑ کر بند گلی میں داخل کردیاگیا ہے مگر ہم پھر بھی بغلیں بجارہے ہیں کہ ہم نے متحارب کو شکست سے دوچار کردیا ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ جو جنگ لڑی جارہی ہے وہ حقیقی جنگ نہیں، اصل جنگ وہی ہے جو ملک و قوم لڑرہے ہیں جو معیشت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button