Editorial

پاکستان کیخلاف امریکا کا نیا ڈرامہ

پاکستان امن پسند اور ذمے دار ملک ہے۔ دُنیا کے بہت سے حصّوں میں امن مشن کے تحت امن و امان کے قیام کیلئے ہماری افواج اپنی خدمات سرانجام دے چکی ہیں، جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ 8عشروں پر مشتمل قومی تاریخ کو کھنگال کر دیکھا جائے تو ایک بھی ایسا موقع نہیں ملتا جب پاکستان کسی دوسرے ملک پر بلاجواز حملہ آور ہوا اور اس کے خلاف سازش میں ملوث پایا گیا ہو۔ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی قوت ہے۔ جوہری توانائی کا حصول بھی خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے یقینی بنایا گیا تھا۔ بھارت ایسے پڑوسی کی موجودگی میں ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ بھارت پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرچکا تھا۔ وطن عزیز کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروفِ عمل رہتا تھا۔ بھارت تقسیم ہند سے ہی پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے درپے رہا ہے۔ بھارت نے ایٹمی تجربہ کرکے اپنے تئیں تصور کرلیا کہ وہ اب پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹاڈالے گا،اس کے جواب میں پاکستان نے 28مئی 1998کو ایٹمی تجربات کرکے دُنیا کی ساتویں اور مسلم دُنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ بھارت کی تمام تر خوش فہمیوں کو ہوا کردیا۔ پاکستان وقت گزرنے کے ساتھ اپنی جوہری قوت میں مزید بہتری لارہا ہے۔ یہ اس کا استحقاق ہے اور اپنے دفاع کے لیے ایسا کرنا کسی طور غلط نہیں۔ وہ بھی ایسے حالات میں جب ایک سفّاک، ہٹ دھرم اور جنگی جنون میں مبتلا ملک بھارت اُس کا پڑوسی ہو اور اُس کے خلاف کوئی موقع نہ چھوڑتا ہو۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کبھی بھی غلط مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوئے۔ وطن عزیز کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور آئندہ بھی ان کا غلط مقاصد کے لیے استعمال ناممکن ہے۔ اس کے باوجود امریکا جو وقت پڑنے پر پاکستان کی دوستی کا دم بھرتا ہے اور جب وقت نکل جاتا ہے تو وطن عزیز کے خلاف اپنے دل میں چھپے بغض کو ظاہر کرنے میں چنداں دیر نہیں کرتا، وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ماضی میں بھی کچھ نہ کچھ بیان بازیاں کرکے اپنے تحفظات ظاہر کرکے پاکستان مخالف اقدامات کرچکا ہے اور اب بھی جب اسے موقع ملتا ہے اس حوالے سے قدم اُٹھانے سے گریز نہیں کرتا اور بنا ثبوت الزام دھر دیتا ہے۔ گزشتہ روز بھی اس نے ایسا ہی کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے لیے سامان فراہم کرنے کے الزام میں 4کمپنیوں پر پابندی عائد کردی۔ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے سامان فراہم کرنے کے الزام میں 3چینی اور بیلا روس کی ایک کمپنی پر پابندیاں عائد کیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 3چینی اور ایک بیلا روسی کمپنی نے پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سمیت بیلسٹک میزائل بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔ ترجمان کے مطابق ان کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو یا ان کی ترسیل کے لیے پاکستان کو مواد فراہم کرنے میں تعاون کیا ہے، جس سے
پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری، حصول اور نقل و حمل کی کوششوں میں مدد ملی۔ ان کمپنیوں نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام سمیت اس کے بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مددگار اشیا فراہم کی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا اپنے دیگر شراکت داروں کے ساتھ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو کے نیٹ ورکس کی روک تھام کا نظام مضبوط بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے امریکی اقدام پر ردعمل میں کہا ہے کہ ہتھیار کنٹرول کا دعویدار متعدد ممالک کو ملٹری ٹیکنالوجی کی فراہمی میں استثنیٰ دے چکا ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت دینے والی کمپنیوں پر پابندی کی خبروں کے بعد ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ماضی میں بھی بغیر ثبوت فراہم کیے پاکستان کے بیلسٹک میزائل سے تعلق کے الزام میں کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں امریکا کی جانب سے تازہ ترین اقدامات کا علم نہیں۔ اس وقت بھی یہ اشیاء کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھیں، لیکن انہیں حساس سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان نے کئی بار نشان دہی کی ہے کہ اس طرح کی اشیاء کے جائز تجارتی استعمال ہوتے ہیں اس لیے برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے گریز کرنا ضروری ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان برآمدی کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتا ہے۔ ہتھیاروں کے کنٹرول کے دعویدار نے متعدد ملکوں کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے لائسنس میں استثنیٰ دیا، جس سے خطے اور عالمی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے۔ امریکا کا تازہ اقدام ایران کے ساتھ پاکستان کے بہتر ہوتے تعلقات کا ردّعمل معلوم ہوتا ہے۔ امریکی اقدام یا الزام پر پاکستان نے بالکل درست ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسے الزام دھرنے والے کو آئینہ دِکھانے کی راست سعی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان نے امریکا کے لیے خود کو بارہا مشکلات میں ڈالا، لیکن افسوس سپرپاور کی جانب سے کبھی بھی پاکستانی خلوص کو سمجھا گیا اور نہ اس کی ستائش کی گئی، بلکہ ہر بار وطن عزیز کو شک کے دائرے میں رکھا گیا اور الزامات کی بھرمار جاری رہی۔ حالانکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا، اُس کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی، اس کی اس نام نہاد جنگ کے باعث وطن عزیز میں دہشت گردی کا بدترین دور شروع ہوا جو 2001میں شروع ہوکر ہماری بہادر افواج کے آپریشنز ضرب عضب اور ردُالفساد کے نتیجے میں 2015میں قابو میں آیا، ڈیڑھ عشرے تک جاری رہنے والی دہشت گردی میں ہمارے اسّی ہزار بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے، 7سال تک یہ عفریت کنٹرول میں رہ سکا، اب پھر سے پچھلے ڈیڑھ دو سال سے سر اُٹھاتا دِکھائی دے رہا ہے۔ اس دہشت گردی کے باعث پاکستان کی معیشت بے انتہا متاثر ہوئی۔ صنعتیں سُکڑ کر رہ گئیں۔ سرمایہ کاروں نے مسلسل دہشت گردی کی لہر کے باعث اپنا سرمایہ سمیٹ کر بیرونِ ممالک کی راہ لی۔ پاکستان بحران در بحران میں مبتلا رہا۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے ڈومور کے مطالبات جاری رہے۔ پاکستان کو امریکا کا ساتھ نبھانے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جس سے سنبھلنے کے لیے سالہا سال درکار ہیں۔ ایسے پُرخلوص ملک کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں۔ یہ امر محسن کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکا کو آئینے میں اپنا کردار دیکھنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ اُس نے اپنے محسن اور ہر مشکل میں ساتھ نبھانے والے ملک کے ساتھ کیا سلوک اور رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
علامہ اقبالؒ کے آفاقی نظریات
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی برسی گزشتہ روز منائی گئی۔ ہم ان کا قرض کبھی اُتار نہیں سکتے۔ اُن کی برسی کے حوالے سے تقریبات ہوئیں۔ ٹی وی چینلوں پر پروگرام نشر کیے گئے اور اخبارات میں خصوصی تحاریر دیکھنے میں آئیں۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری اور اُن کے افکار نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے، اُسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ شاعر مشرق نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، جس کو شرمندہ تعبیر قائد اعظمؒ نے کیا۔ اقبالؒ کے فلسفے اور نظریات کا ہی کمال تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا۔ اُنہوں نے اُمت مسلمہ کے لیے بے تحاشا خدمات انجام دیں۔ بلاشبہ اُن کی شاعری لازوال ہے۔ وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں، آج بھی دُنیا بھر میں اُن کے چاہنے والے بے شمار افراد موجود ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوانوں، بچّوں، بوڑھوں اور خواتین سب ہی کو زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ غرض اُن کی خدمات کا قرض یہ قوم آج تک ادا نہیں کرسکی ہے۔حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی خدمات کے اعتراف میں سال میں محض دو دن منانا اور پھر اُنہیں فراموش کردینے کی روش اختیار کرنا مناسب طرز عمل نہیں۔ اس ضمن میں ہم بہ صد احترام گزارش کریں گے کہ اقبال صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایسے لافانی فلسفے، فکر اور نظریات کا نام ہے، جس نے سوچ کے کئی دروا کیے۔ ہمیں اس عظیم شاعر کے افکار کا پرچار محض برسی اور سالگرہ کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے پیش نظر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہیے۔ افسوس کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود بھی اُن کی آفاقی فکر کا عملی اطلاق ہمارے معاشرے پر اصل روح کے ساتھ نہیں کیا جاسکا ہے، اُن سے دانستہ بے اعتنائی برتی جاتی رہی، ان کے نام کی مالا تو جپی جاتی ہے لیکن عمل ندارد۔ یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز میں ہر سُو خرابے ہی خرابے نظر آتے ہیں اور آج ہم بہ حیثیت قوم و ملک پستیوں کی جانب گامزن ہیں۔ کون سی بُرائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں عیاں نہیں اور ان میں روز بروز اضافہ نہ ہورہا ہو جب کہ اچھائیوں کا کال دن بہ دن شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے دگرگوں حالات میں ضروری ہے کہ اقبال کے فلسفے، افکار اور نظریات کا ہر سطح پر خوب پرچار کیا جائے۔ اُن سے معاشرے کے ہر فرد کو صحیح طور پر روشناس کرایا جائے۔ اُن کے تصورات کو معاشرے کا ہر فرد ناصرف سمجھتا ہو بلکہ اُن پر عمل پیرا بھی ہو۔ حکمراں بھی محض اُن سے جذباتی وابستگی کا اظہار نہ کریں بلکہ اُن کے لافانی نظریات پر عمل کرکے دِکھائیں۔ بلاشبہ ملک و قوم اقبال کے نظریات اور افکار پر عمل پیرا ہوکر ہی ترقی کی معراج کو حاصل کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button