Editorial

انسانی حقوق سے متعلق امریکی متعصبانہ رپورٹ مسترد

امریکا جب کسی مشکل میں پھنسا ہو اور پاکستان سے کوئی مفاد وابستہ ہو تو اپنا کام نکالنے کے لیے دوستی کا دم بھرتا دِکھائی دیتا ہے اور جیسے ہی مطلب پورا ہوجائے تو اجنبیت اُس کا وتیرہ ہوتی ہے۔ یہ حالیہ برسوں کی بات نہیں یہ سات عشروں سے زائد عرصے پر محیط تاریخ کی اٹل حقیقت ہے۔ یاد رہے 2001سے لے کر 2021تک امریکا کے لیے پاکستان سے اچھا کوئی نہ تھا اور یہی امریکا اب پچھلے کچھ دنوں سے متواتر پاکستان مخالف اقدامات میں مصروف ہے اور وطن عزیز کو نیچا دِکھانے کے لیے تمام تر حدود عبور کرتا نظر آتا ہے۔ پچھلے ہفتے امریکا نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے لیے سامان فراہم کرنے کے الزام میں 4کمپنیوں پر پابندی عائد کی تھی۔ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے سامان فراہم کرنے کے الزام میں 3چینی اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پابندیاں لگائی گئیں۔ اس ضمن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 3چینی اور ایک بیلاروسی کمپنی نے پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سمیت بیلسٹک میزائل بنانے میں مدد فراہم کی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو یا ان کی ترسیل کے لیے پاکستان کو مواد فراہم کرنے میں تعاون کیا ہے، جس سے پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری، حصول اور نقل و حمل کی کوششوں میں مدد ملی۔ گزشتہ روز بھی امریکا کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق نام نہاد اور تعصب پر مبنی رپورٹ کا اجرا کیا گیا، جس میں وطن عزیز سے متعلق سنگین حد تک جھوٹ گھڑا گیا، رپورٹ کی تیاری میں حقائق کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے مفروضوں اور پروپیگنڈوں کو فوقیت دی گئی۔ امریکا کے اس اقدام کا پاکستان نے مدلل اور موثر جواب دیا ہے اور اس رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے امریکا کے محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری رپورٹ کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ انسانی حقوق سے متعلق 2023کی رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کے برعکس، غیر منصفانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے جاری ہونے والی ’’متعصبانہ’’ رپورٹ مفروضوں کی بنیاد پر مبنی ہے اور
اس میں حقائق کے برعکس باتیں درج کی گئی ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکا کی جانب سے ایسی رپورٹس کا اجرا بین الاقوامی ایجنڈے کی معروضی کمی کی وجہ سے ہے، جس میں دہرے معیار کو ظاہر کیا گیا ہے، جس سے عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان نے اس بات پر حیرانی کا اظہار بھی کیا کہ امریکی رپورٹ میں غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں ترجمان نے کہا کہ غزہ میں 33 ہزار سے زائد شہریوں کے قتل عام اور نسل کشی کو ناصرف نظر انداز کیا گیا بلکہ امریکا کی ان جرائم پر خاموشی بھی انسانی حقوق سے متعلق سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان جمہوری اخلاقیات کے مطابق انسانی حقوق کے فریم ورک کو مضبوط بنانے اور بین الاقوامی قوانین کی بھرپور انداز سے پاسداری کرتا ہے اور اس کے لیے پُرعزم بھی ہے۔پاکستان نے امریکا کو ٹھیک طور پر آئینہ دِکھادیا ہے۔ غزہ میں پچھلے ساڑھے سات ماہ سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی بغل بچہ اسرائیل 33ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ شہدا میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔ 80ہزار سے زائد لوگ زخمی ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکا کو وہاں پر انسانیت کی تذلیل ہوتی دِکھائی نہیں دی۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کے خونی اقدامات نظر نہیں آئے۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں پچھلے 75سال سے جو ظلم و ستم ڈھارہا ہے، سوا لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے، وہ امریکی نظروں سے آخر محو کیسے ہوگئے۔ کیا امریکا نے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے سلسلے رُکوانے کے لیے کچھ کیا۔ بھارت اور اسرائیل پر دبائو ڈالا۔ ہرگز نہیں۔ اُسے تو ایسا کرنا چاہیے تھا کہ بے گناہوں کی نسل کشی کسی بھی طور درست نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ اب خود کو حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار کہلانے والے ’’امریکا’’ کو اپنا دوغلا رویہ ترک کردینا اور ہر کسی کو برابری کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہی اس کے حق میں بہتر ہوگا۔ دراصل امریکا پچھلے دنوں سے پاکستان مخالف ڈرامہ اس وجہ سے رچانے میں مصروف ہے کہ گزشتہ دنوں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا تین روزہ کامیاب دورہ کیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان اہم معاہدات طے پائے۔ جب اس دورے سے متعلق اطلاعات کنفرم ہوگئیں تو امریکا کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے اور وہ پاکستان اور ایران کی بڑھتی قربت پر آپے سے باہر ہوتا نظر آیا۔ امریکا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان آزاد جمہوری ملک ہے، ریاست ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے میں آزاد ہے، پاکستان ہر وہ قدم اُٹھائے گا، جو اس کے اور عوام کے مفاد میں ہوگا۔ لہٰذا امریکا کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرتے ہوئے خود کو مہذب ملک ثابت کرنا چاہیے۔
جان بچانے والی ادویہ کی قلت
پاکستان میں جان بچانے والی ادویہ جہاں ایک طرف بہت گراں ہیں، وہیں ہر کچھ عرصے بعد ان ادویہ کی قلت کی صورت حال جنم لیتی رہتی ہے، لوگ ادویہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، زمانے بھر کے میڈیکل اسٹور چھان مارتے ہیں، لیکن اُن کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوتیں، دراصل یہ مصنوعی قلت بلیک مارکیٹنگ میں ملوث عناصر پیدا کرتے ہیں، وہ اس کا بھرپور اُٹھاتے اور اپنی تجوریاں دھانوں تک بھر لیتے ہیں۔ ان ادویہ کے دُگنے، تگنے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ افسوس صحت عامہ کے معاملے میں بھی بس دولت کمانا ترجیح قرار پاتا ہے، عوام کی زندگی کوئی معنی اور حیثیت نہیں رکھتی۔ صحت کے شعبے میں انسانی جانوں سے جو کھلواڑ جاری ہیں، وہ اگر مہذب دُنیا کے سامنے آجائیں تو وہ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔ انسانی صحت سے کھیلنے والوں نے انسانیت کو پرے رکھتے ہوئے بس دولت کمانے کو ہی اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں پھر ملک میں انسولین سمیت دو درجن سے زائد اہم ادویہ کی قلت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ڈرگ انسپکٹر سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں انسولین سمیت 27 اہم ادویہ میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہیں ہیں اور سیکریٹری صوبائی ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ سید عدنان رضوی نے خط لکھ کر پورے صوبے کے ڈرگ انسپکٹرز کو عدم دستیاب ادویہ کا سروے کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکام کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور گردونواح میں بھی 30اہم ادویہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ عدم دستیاب ادویہ میں اینٹی بائیوٹکس، نفسیاتی و دماغی امراض اور دمے کی ادویہ شامل ہیں جبکہ ٹیٹنس کے انجیکشن اور مختلف اقسام کے انہیلرز کی بھی شدید قلت ہے۔ دوسری جانب ڈریپ حکام نے دعویٰ کیا کہ ملک میں ادویہ کی کوئی بڑی قلت نہیں، سپلائی چَین کے مسائل ہوسکتے ہیں۔ ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہفتہ وار بنیاد پر ادویہ کی موجودگی کا سروے کراتے ہیں، انسولین وافر مقدار میں موجود ہے اور مریضوں کو دستیاب بھی ہے، انسولین کی قلت کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ آخر ماجرا کیا ہے۔ یہ ادویہ کی مصنوعی قلت کا معاملہ لگتا ہے۔ اس حوالے سے شفاف بنیادوں پر تحقیقات ناگزیر ہے۔ دوائوں کی مصنوعی قلت پیدا کرنا شرم ناک اور ہر لحاظ سے قابلِ مذمت امر ہے۔ اس میں ملوث اور اس سے فوائد سمیٹنے والے عناصر کا تعین کیا جائے اور ان کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی یقینی بنائی جائے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ادویہ کی بلیک مارکیٹنگ کے تمام راستے مسدود ہوجائیں۔ مارکیٹوں میں جان بچانے والی ادویہ کی فروانی ہو۔ دوسری جانب ادویہ کے نرخوں میں کمی کی خاطر بھی راست کوششیں وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button