Column

جہالت بھی ایک جرم ہے

تحریر : علیشبا بگٹی
ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ہوا۔۔۔ ’’شیوانا‘‘ ( قبل از اسلام ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگا۔۔ ’’ میری ماں نے فیصلہ کیا ہے کہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم بُت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے، آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں‘‘ ۔۔۔۔۔ شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پائوں رسیوں سے جکڑ لیے ہیں۔ اور چھری ہاتھ میں پکڑے آنکھ بند کئے کچھ پڑھ رہی ہے۔۔۔۔ بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے۔ اور بُت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بُت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبّت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بُت کی خوشنودی کے لئے اُس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے ۔۔۔۔ شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے؟ عورت نے جواب دیا۔۔ ’’ کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بُت کی خوشنودی کے لئے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں تاکہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں‘‘ ۔۔۔۔ شیوانا نے مسکرا کر کہا۔۔ ’’ مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے۔۔؟ اِسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ تمہاری جو ہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی معصوم بچّی کی جان لینے پر تُل گئی ہو۔ یہ بُت احمق نہیں ہے۔ وہ تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتا ہے۔ تم نے اگر کاہن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بُت تم سے مزید خفا ہوجائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے ‘‘۔۔۔۔ عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ہاتھ پائوں کھول دیئے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا۔
دنیا میں صرف آگاہی کو فضیلت حاصل ہے اور جہالت ایک گناہ ہے۔ جس دن ہم اپنے ’’ کاہنوں‘‘ کو پہچان گئے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
عام طور پر ہم ناخواندگی اور جہالت کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ناخواندہ وہ شخص ہے جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور وہ ذرا سی کوشش سے پڑھنا لکھنا سیکھ سکتا ہے۔ ناخواندہ کبھی بھی اپنی ناخواندگی کا دلیلی دفاع نہیں کرتا بلکہ اکثر سیدھے سیدھے اعتراف کر لیتا ہے کہ فلاں فلاں مجبوری یا والدین کی غفلت کے سبب وہ سکول یا مدرسے میں نہ جا سکا مگر خواہش زندہ ہے۔
جہالت کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے۔ کہ آپ کے پاس علم نہیں ہے، آپ جانتے نہیں ہیں، آپ کے پاس ڈگریاں نہیں ہیں، آپ سکول نہیں گئے، آپ کتابیں نہیں پڑھتے تو آپ جاہل ہیں۔ ایسی جہالت آپ کو والدین، ماحول یا پھر غربت کی وجہ سے ملتی ہے۔ اور ایسی جہالت اہل علم کے پاس بیٹھنے، کتابیں پڑھنے، سکول اور کالج وغیرہ جانے سے ختم ہو سکتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے اس قسم کے جاہل دنیا کے لئے نقصان دہ ہیں، مگر ایسا نہیں ہے، اس قسم کے جاہلوں نے دنیا کو سب سے کم نقصان پہنچایا ہے۔
زیادہ نقصان دوسری قسم کے جاہلوں نے دنیا کو پہنچایا ہے۔ دوسری قسم کی جہالت ذرا انوکھی ہے۔ اس قسم کے جاہل ڈاکٹر، انجینئر، ماسٹر، گریجویٹ، صحافی، دانشور، ادیب تک کہلاتے ہیں۔ یہ ڈگریاں لیتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں کتابیں پڑھتے ہیں اور یہاں تک کہ کتابیں لکھتے ہیں۔ اس قسم کی جہالت کو پکڑنا ذرا مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر آپ اس قسم کے لوگوں کے ساتھ چند دن اٹھیں بیٹھیں تو آپ کو ایک خاص قسم کی ناگوار بو آنے لگتی ہے، یہ بو ان کے جسم سے نہیں آتی، نہ ہی ان کو بد بودار سانس کا مسئلہ ہوتا ہے، یہ بد بو ان کے ذہنوں سے آتی ہے، جن کو اکڑ اور انا نے جوہڑ بنا دیتا ہوتا ہے، اس قسم کے جاہلوں کی نشاندہی کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا دعوہ ہوتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں، یہ مغرور ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کو اس حال میں ملے تو سمجھ لیں کہ یہ جہالت کی دوسری اور خطرناک قسم کا شکار ہے۔
علم آپ میں عاجزی، حلم او شکر گزاری پیدا نہیں کر رہا تو جان لیں کہ کہیں پہ کوئی نقص موجود ہے۔ عالم کی پہلی نشانی عاجزی ہے۔ عالم شخص کبھی اپنی علم پر اترائے گا نہیں۔ عالم کبھی یہ نہ سوچے گا، نہ کہے گا، نہ احساس دلائے گا کہ وہ آپ سے زیادہ جانتا ہے اور آپ سے بہتر ہے۔ ایک حقیقی عالم ہمیشہ سیکھنے کی جستجو میں ہوتا ہے، وہ انسان تو دور کی بات کتوں سے بھی کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ خداوند خاص کے بندے وہ ہیں، جو آرام سے اور بغیر کسی تکبر کے زمین پر چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ انہیں مخاطب کرتے ہیں تو وہ انہیں سلام کرتے ہیں ( اور بے پرواہی اور بے نیازی کے ساتھ گزر جاتے ہیں )‘‘۔
کہتے ہیں کہ عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں، جہالت اور افلاس ترازو کے دو ایسے پلڑے ہیں جو اگر متوازی ہو جائیں تو کفر کے نزدیک لے جا سکتے ہیں
تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button