Ali HassanColumn

اپنی غلطیوں کی سزا مرے ہوئے لوگوں کو نہ دیں

تحریر : علی حسن

پاکستانی سیاست دانوں کا عجیب تماشہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اصل مسائل سے ہٹ کر ایسی گفتگو کرتے ہیں جو نان ایشو بن جاتے ہیں۔ یہ ہی بیماری دانشوروں اور صحافیوں میں بھی سرائت کر گئی ہے۔ اس وقت یا کسی بھی وقت یہ بحث کیا معنی رکھتی ہے اور بحث کرنے والے لوگ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی نام نہاد قابلیت کا جوہر دکھا رہے ہوں یا اپنی بلا وجہ کی بھڑاس نکال رہے ہوں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایوب خان کی میت نکال کر پھانسی دینے کا مطالبہ ایک بار پھر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی بات کی حمایت کرتا ہوں، آئین شکنی پر سنگین غداری کی دفعہ آرٹیکل 6لگنی چاہیے۔ ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگا کر آئین توڑا، ابتدا ایوب خان سے ہونی چاہیے۔ ان کی تقریر سے قبل حزب اختلاف کے رہنما عمر ایوب نے کہا تھا کہ آئین کو معطل کرنے والا غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان کی تقریر کے جواب میں وزیر دفاع نے سابق فیلڈ مارشل ایوب خان کی میت قبر سے نکال کر پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نی کہا کہ آئین توڑنے والوں کے خلاف آرٹیکل 6لگنا چاہیے، اس کی ابتدا ایوب خان سے کرنی چاہیے، جس نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا اور اختتام اس پر ( عمران خان کی طرف اشارہ تھا) ہونا چاہیے، جس نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے پر قومی اسمبلی توڑ دی۔ خواجہ آصف کی تقریر پر عمر ایوب نے جو ایوب خان کے پوتے ہیں، شدید احتجاج کیا جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر ارکان بھی وزیر دفاع کی تقریر پر رکاوٹ ڈالتے رہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اپوزیشن کو مرچیں لگ رہی ہیں، انھیں مرچیں لگنی چاہئیں، انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا، یہ 9مئی کی معافی مانگیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز ان کے دادا کا نام لیا اور غیر پارلیمانی الفاظ ادا کیے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر انہوں نے کہا کہ کل خواجہ آصف نے ذاتی ریمارکس دئیے تھے ۔ صدر ایوب خان تاریخ کا حصہ ہیں، مارشل لاء اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ عوام کے ووٹوں کے ساتھ ایوان میں آئے ہیں ، خواجہ آصف نے ریحانہ ڈار سے شکست کھائی ہے۔ خواجہ آصف فارم 47سے جیتے ہیں، یہ ریحانہ ڈار سے شکست سے بوکھلا گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر علی محمد خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ ان کے دادا پیر محمد خان کو ایوب خان کی کابینہ میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پیر محمد خان مردان میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں علی محمد خان نے کہا کہ میرے دادا تحریک پاکستان کے ساتھی تھے، انہیں ایوب خان کی کابینہ میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سب کو اپنی غلطیاں ماننا پڑیں گی، کوئی بروکر یا ڈیلر نہیں جو ہم سیاسی جماعتوں کو آپس میں بٹھائے بلکہ سپیکر کی کرسی کو کہتا ہوں کہ وہ شروعات کرائیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ مارشل لاء کی حمایت کرنے والوں سے بھری پڑی ہے۔ اکثر کے دادا ، نانا، والدین مارشل لاء کی حمایت کرنے والوں میں ہی ملیں گے۔ کہاں سے شروع کریں گے اور کہاں ختم کریں گے۔ اس کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ ابھی پھر کوئی مار شل لائ نافذ ہو تو بہت سارے سیاستدان بانسری بجانے لگیں گے۔ اگر مشرقی پاکستان میں کی جانے والی فوجی کارروائی کی مخالفت کرنے والے مولانا شاہ احمد نورانی، ولی خان، نوابزادہ نصر اللہ خان، اصغر خان و دیگر کی تمام سیاستدان کھل کر حمایت کرتے اور ذوالفقار علی بھٹو کی مشرقی پاکستان جانے والے پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں کی ٹانگیں توڑ دینی کی دھمکی کا کھل کر ، ڈٹ کر مخالفت کرتے تو تاریخ ہی دوسری ہوتی اور جنرل یحییٰ خان کارروائی روکنے پر مجبور ہوتے۔ اس سے قبل جنرل ایوب خان امریکی کونسل جنرل سے 1953ء کراچی میں ملاقات جس کی تفصیل امریکی سفارت کار نے اپنی حکومت کو بھیجی۔ وہ گفتگو کسی بھی طرح ایوب خان کو زیب نہیں دیتی تھی۔ ایوب خان کی محمد علی بوگرا کی کابینہ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے تقرری سیاست دانوں کو کیوں کر زیب دیتی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی رضا مندی کے بغیر ایوب خان کی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے تقرری کے پیچھے کون تھا۔ ایوب خان کی مدت ملازمت میں دوسری بار اضافہ اس وقت کے وزیر آعظم فیروز خان نون کو دبائو میں لاکر اسکندر مرزا نے دلایا۔ پاکستان کی سیاست کو آلودہ کرنے میں غلام محمد ، سکندر مرزا اور پھر ایوب خان کے ہاتھ شامل تھے۔ بعد میں ایک ایسا سلسلہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف ، چودھری شجاعت حسین ، پرویز الٰہی، وغیرہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ سب نے مار شل لاء کی چھتری تلے اقتدار کا خوب مزا لوٹا اور اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتے رہے وہ جمہوریت جس کا خمیازہ قوم نہ جانے اور کتنے سالوں بھگتے گی۔ سیاست داں یہ ہی کہتے رہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ قربانی دے رہے ہیں۔
اس کے بعد بھی جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی حمایت جن لوگوں نے کی ان میں تو خواجہ صفدر مرحوم بھی شامل تھے۔ جنرل نے انہیں اپنی نامزد کردہ مجلس شوریٰ کا چیئر مین نامزد کیا تھا۔ تجربہ کار لیگی ہونے کے باوجود خواجہ مرحوم نے عہدہ قبول کیا تھا۔ نواز شریف ضیاء کے بلدیاتی نظام میں ہی کونسلر منتخب ہو کر گورنر جنرل جیلانی کے کابینہ میں صوبائی وزیر خزانہ مقرر ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھی تمام سفر جنرل ضیاء کی سربراہی میں طے کیا۔ ضیاء کا دور ختم ہوا تو جنرل حمید گل کے بتائے ہوئے راستہ پر یہ سیاست دان چلتے رہے۔ جب سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ مارشل لاء لگانے والے پہلے جنرل کو لاش کو قبر سے نکال پر پھانسی دی جائے، تو انہیں اپنے اپنے کردار کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ برطانوی جنرل کرامویل کو بعد از مرگ پھانسی دینے والے اس وقت کی پارلیمنٹ کے کسی رکن نے جنرل کے کندھے پر سیاسی سفر نہیں کیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ حیران کن واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں نے کبھی سبق ہی نہیں لیا ہے بلکہ گیند کو کبھی ادھر اور کھبی ادھر پھینکتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند کر دینا چاہئے اور تمام سیاست دانوں کو حتمی فیصلہ کر لینا چاہئے کہ پاکستان کی جمہوری بقا کی خاطر وہ کسی حالت میں بھی فوج کے آلہ کار نہیں بنے گے بلکہ ووٹ کی طاقت اور قوت کی بنیاد پر ہی سیاست کریں گی، اقتدار حاصل کریں گے ۔ دوسری کوئی صورت انہیں قابل قبول نہیں ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button