ڈاکٹر سیّد شہزاد علی نجمی
بحیثیت ایک پیدائشی صوفی، بانی روحانی سلسلہ اور مصنف کتاب
تحریر : مہتاب عالم مہتاب
نجمی شفائی توانائی کے خالق ڈاکٹر سیّد شہزاد علی نجمی مورخہ 21مئی 1964ء بروز جمعرات بمطابق 9محرم الحرام 1384ھ کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئے آپ نے اپنی ابتدائی پرائمری تعلیم گورنمنٹ مسلم سکول فیڈرل بی ایریا کراچی سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ بوائز اسٹینڈرڈ سیکنڈری اسکول نارتھ کراچی سے 1982میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر 1985میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی سے انٹر کا امتحان پاس کیا اُس کے بعد آپ نے اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے کی خاطر ایک پرائیوٹ کمپنی میں چھوٹی سی ملازمت اختیار کی جو زیادہ عرصے تک نہ چل سکی اُن دنوں میں خاص طور پر کراچی میں ملازمتوں کا کافی بحران تھا جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے باری باری کئی چھوٹی چھوٹی ملازمتیں اختیار کیں اور کافی کافی عرصہ بیروزگار بھی رہے اُنہوں نے میٹرک کے فوراََ بعد ہی سے سرکاری نوکری کے لئے بھی کوششیں شروع کردی تھیں لیکن اِس حوالے سے اُنہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا بعد میں اُنہوں نے 1993میں جناح ہومیوپیتھک میڈیکل کالج کراچی میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی انٹرنیشنل یونیورسٹی سری لنکا سے ملحقہ ایک ادارے انٹر نیشنل کالج کراچی میں داخلہ لے لیا جہاں سے اُنہوں نے کئی متبادل طریقہ علاج میں کورس بھی کئے 1997میں نیشنل کونسل فور ہومیوپیتھی کی جانب سے ڈی، ایچ، ایم، ایس کی سند حاصل کی اور اگلے سال 1998میں انٹرنیشنل یونیورسٹی سری لنکا کی جانب سے ایم، ڈی ( ڈاکٹر آف میڈیسن) کی ڈگری بھی حاصل کی اُس کے بعد ایک رفاہی ادارے میں ڈاکٹر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔
2000 میں الصحت فائونڈیشن ( رجسٹرڈ) کی بنیاد رکھی اور اُس کی زیرنگرانی الصحت ویلفیٔرکلینک کے نام سے نارتھ کراچی میں ایک کلینک قائم کیا جہاںکم فیس پر لوگوں کا علاج کیا جاتا تھا جبکہ یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کو مفت دوائی بھی دی جاتی تھی۔ 2007کی ایک شام اپنی کلینک جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا گزر نارتھ کیئر اسپتال کے مین گیٹ کے سامنے سے ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے سوچا کہ ذرا اسپتال کا اندر سے جائزہ لینا چاہئے اندر گئے تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر کی نوکری کے لئے انٹرویوز چل رہے تھے ڈاکٹر صاحب کو بھی اسپتال کے عملے نے تعارف کے بعد انٹرویو دینے والے ڈاکٹروں کی قطار میں بیٹھا دیا اور اِس طرح سے اُنہوں نے بغیر کسی نوکری کے ارادے کے انٹرویو دے دیا اور پھر اسپتال سے فارغ ہوکر معمول کے کاموں میں مشغول ہو گئے اور اسپتال کے انٹرویو کو بالکل نذر انداز کر دیا تقریباََ ایک ہفتے بعد نارتھ کیئر اسپتال کی جانب سے وہاں کے ایڈمنسٹریٹر جناب راؤ اسلم صاحب کا فون ڈاکٹر صاحب کو آیا جس میں بتایا گیا کہ اسپتال کی جانب سے آر،ایم،او ( ایمرجنسی) کے لئے اُن کا انتخاب کیا جا چکا ہے لہٰذا اِس طرح سے ڈاکٹر صاحب کو بغیر کسی گمان کے اسپتال کی نوکری مل گئی اور پھر ڈاکٹر صاحب نے 2007سے لے کر 2010تک نارتھ کیئر اسپتال میں کامیابی سے ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔
ڈاکٹر صاحب کا میلان طبیعت بچپن ہی سے قدرتی طور پر فنون لطیفہ اور روحانیت کی طرف مبذول تھا وہ گیارہ بارہ برس کی عمر میں اپنی ذات، اللہ تعالیٰ اور کائنات کے بارے میں اکثر سوچا کرتے تھے جب آپ چھٹی جماعت میں پہنچے تو آپ کے والد نے گھر پر آکر ٹیوشن پڑھانے کے لئے محلّے ہی کے ایک بزرگ استاد کو لگا دیا کہ جن کا نام سیّد اعظم علی تھاڈاکٹر صاحب نے پہلے ہی دن سے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ جب اعظم صاحب ٹیوشن پڑھانے کے لئے آتے تھے تو ڈاکٹر صاحب پر کیف و سرور کی عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور جب تک اعظم صاحب ساتھ رہتے تھے تو اُس وقت تک ڈاکٹر صاحب پر ایسا سکون طاری رہتا تھا کہ جس کا بیان الفاظ کی گرفت سے باہر ہے رفتہ رفتہ لوگوں سے پتہ چلا کہ اعظم صاحب تو بڑی بزگ روحانی ہستی ہیں آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ کسی کے لئے اپنی زبان سے جو فرما دیتے ہیں اُس کا وہ کام پورا ہوجاتا ہے اُن سے متعلقہ بہت سی کرامتیں محلّے کے لوگوں میں مشہور تھیں۔ آہستہ آہستہ ڈاکٹر صاحب کی اعظم صاحب سے گہری دوستی ہوتی چلی گئی اعظم صاحب نے ایک دن اپنا روز کا معمول بتاتے ہوئے کہا کہ وہ بعد نماز عشاء فارغ ہو کر صرف ایک ہی نشست میں بیٹھ کر رات بھر میں اللہ تعالی کا کوئی اسم یا قرآن کی کوئی مخصوص آیت کا سوا لاکھ مرتبہ ورد ہزار دانے کی تسبیح پر کرتے ہیں اور پھر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی صرف چند گھنٹوں کے لئے سوتے ہیں ڈاکٹر صاحب کو اعظم صاحب نے اُس زمانے میں چند عملیات اور وظائف بھی بخشے تھے اور اُنہیں اپنا روحانی شاگرد بھی مانتے تھے اُن عملیات میں سے چند ایک کو ڈاکٹر صاحب نے آزما کر دیکھا تو نتیجہ حیرت انگیز پایا ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے اعظم صاحب سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کبھی خواب میں حضور اکرمؐ کی زیارت ہوئی ہے؟۔
تو اُس پر اعظم صاحب نے فرمایا کہ ہاں ہوئی ہے تو اِس پر ڈاکٹر صاحب نے پھر سوال کیا کہ آپ کو کیسا لگا؟ اُس پر اعظم صاحب نے کہا کہ میں خوف سے تھرتھر کانپ رہا تھا تو اِس پر ڈاکٹر صاحب نے پھر سوال کیا کہ کیا حضور اکرمؐ کی جب زیارت ہوتی ہے تو انسان خوف سے کانپنے لگتا ہے؟ اُس پر اعظم صاحب نے بڑے ہی شفقت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میری بات اور ہے جب تمہیں زیارت ہوگی تو تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریباََ ایک سال تک اعظم صاحب سے ٹیوشن پڑھا اور اُن سے تقریباََ تین سال تک تعلق قائم رہا اُس کے بعد ایک دن اعظم صاحب اپنے گھرانے کے ساتھ کسی اور جگہ نقل مکانی کر گئے جس کا ڈاکٹر صاحب کو بے حد رنج ہوا اُنہوں نے اعظم صاحب کا پتہ معلوم کرنے کی بھی بڑی کوشش کی لیکن مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ڈاکٹر صاحب 1981میں نویں جماعت میں تھے تو ایک رات اُنہیں خواب میں حضور اکرمؐ کی زیارت ہوئی خواب کچھ اِس طرح سے تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے دیکھا کہ دوپہر کا وقت ہے اور وہ ایک ریگستانی میدان میں ایک سمت چلے جارہے ہیں چلتے چلتے دیکھا کہ سامنے کی جانب چند گھوڑوں کے ساتھ عربی لباس میں ملبوس کچھ حضرات کھڑے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جب اُن کے کچھ نزدیک پہنچے تواُن میں سے ایک صاحب جو تقریباََ پچاس برس کی عمر کے قریب نظر آتے تھے عربی جبّہ پہنے ہوئے تھے قد درمیانہ کمر میں چمڑے کی پیٹی بندھی ہوئی تھی جس میں تلوار لگی ہوئی تھی چہرے پر ایک مشت سے کچھ زیادہ سیاہ گھنی گھونگر والی داڑھی تھی مونچھیں بالکل صاف تھیں سر کے بال بھی سیاہ گھونگر والے اور گھنے تھے آنکھیں سیاہ کالی چمکدار اور بھویں قدرے گھنی تھیں گہری مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے بالکل سامنے روبرو آگئے اور مسکراتے ہوئے تلوار میان سے نکال کر ڈاکٹر صاحب کو دینے لگے ڈاکٹر صاحب کے کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کیا ہے اور وہ حیرت سے دیکھنے لگے اور پھر حیرت سے سوال کیا کہ آپ کون ہیں؟
تو اِس پر فرمایا گیا کہ میں رسولؐ اللہ ہوں کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں؟ بس پھر ڈاکٹر صاحب کی آنکھ کھل گئی اور وہ حیرت سے سوچنے لگے کہ آج یہ کیسا خواب نظر آیا ہے؟۔ صبح اُنہوں نے اپنی والدہ محترمہ سے خواب کا ذکر کیا والدہ صاحبہ خواب سن کر بہت خوش ہوئیں اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ یہ خواب تم اپنے نانا کو جا کر بتائو جب ڈاکٹر صاحب نے اپنے نانا کو یہ خواب سنایا تو نانا پر پہلے تو سکتہ سا طاری ہوگیا اور وہ کچھ دیر تک بت بنے بیٹھے رہے پھر بولے کہ ہماری عمر اِس وقت نوے برس کی ہوچکی ہے اور ہم بچپن ہی سے نماز روزے اور احکام شریعت کے سختی سے پابند رہے ہیں آج تک سرکارؐ نے ہمیں تو اپنا دیدار کرایا نہیں تم تو ابھی بچے ہو اور تمہاری تو ابھی عمر ہی کیا ہے؟ اور تمہارے تو اعمال بھی ابھی اتنے نہیں ہیں اور تمہیں اُنہوں نے اپنا دیدار کرا دیا خیر آپؐ کی عنایت تمہیں بہت بہت مبارک ہو انتہائی مبارک خواب ہے۔
1981 میں ہی ایک دن ایک رسالہ روحانی ڈائجسٹ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ لگا جسے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی اُس زمانے میں مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے خود جاری فرمایا کرتے تھے روحانی ڈائجسٹ پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کے دل کو کافی سکون ہوا اور خواجہ صاحب کی روحانی شخصیت کا اُن کے ذہن میں ایک خاص تصور اعظم صاحب کی طرح کا ثبت ہو گیا اور اعظم صاحب کے چلے جانے سے جو خلاء واقع ہوگیا تھا وہ بھی اب پُر ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے خواجہ صاحب سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ قائم کیا پھر خواجہ صاحب کے کہنے پر اُن سے بالمشافہ ملاقات بھی کی اور اب وہ بروز جمعہ خواجہ صاحب کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والی محفل مراقبہ میں پابندی سے شرکت کرنے لگے اور نیلی روشنی کا مراقبہ بھی کرنا شروع کردیا جس سے اُن کی روحانی صلاحیت میں اضافہ ہونے لگا پھر ایک دن اُنہوں نے آخر کار خواجہ صاحب سے بیعت ہونے کا فیصلہ کرلیا اور 14اکتوبر 1988بروز جمعہ بیعت کی درخواست جناب خواجہ صاحب کے حضور پیش کی جسے اُنہوں نے قبول فرمالی۔
بیعت ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تصور شیخ کا مراقبہ کرنا شروع کردیا چند روز بعد خواب میں امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیا ؒ کی زیارت اور اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور اُس کے بعد فیوض وبرکات کا سلسلہ شروع ہوگیا کئی نامور اولیاء اللہ صوفیائے کرام اور مقدّس ہستیوں کی زیارت نصیب ہوئی اور ایسے ایسے اسرارورموز ظاہر ہوئے کہ جسے ایک عام انسانی عقل تسلیم ہی نہیں کر سکتی۔ 2001میں جب ڈاکٹر صاحب الصحت ویلفیٔرکلینک کے نام سے گزشتہ سال نارتھ کراچی میں ایک کلینک قائم کر چکے تھے تب اُسی زمانے میں اُن کے ایک پیر بھائی کہ جن کانام محمد شاہد شیخ عظیمی تھا اُن سے ایک روز اتفاقیہ ملاقات ہوگئی اور وہ اُسی محلّے میں رہتے تھے کہ جہاں ڈاکٹر صاحب نے سے اپنا کلینک قائم کیا تھا شاہد شیخ نے بتایا کہ وہ آج کل ریکی ہیلنگ سے لوگوں کا علاج کررہے ہیں اُس وقت ڈاکٹر صاحب ریکی کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر شاہد شیخ صاحب اُن کی کلینک میں بطور ریکی ہیلر کے پریکٹس کرنے لگے اور لوگوں کا بذریعہ ریکی ہیلنگ کے علاج کرنے لگے ڈاکٹر صاحب اُن کے طریقۂ کار کو غور سے دیکھتے اور پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب نے اپنی روحانی صلاحیت استعمال کرتے ہوئے ایک مریض کا علاج کیا تو اُس کو غیر معمولی فائدہ ہوا جس پر اُنہیں انتہائی حیرت ہوئی پھر اُنہوں نے اور مریضوں کا بھی اِسی طرح سے علاج کیا اور وہ بھی ٹھیک ہوگئے اب تو ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی اس معاملے میں اور بھی بڑھ گئی۔
اُن دنوں ڈاکٹر صاحب کے ایک پیربھائی کہ جن کا نام اقبال عظیمی تھا وہ اُن سے ملنے کے لئے روزانہ کلینک پر آیا کرتے تھے جب اُنہیں اِس بارے میں علم ہوا تو اُن کے اندر اِس روحانی طریقے کو سیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی اور اُن کے کہنے پر ڈاکٹر صاحب نے اُن کے ذوق وشوق کو دیکھتے ہوئے اُن کو اپنے سامنے بیٹھا کر مراقبہ کروایا اور خود بھی مراقبہ کیا اور یہ روحانی صلاحیت اُن کے اندر منتقل کردی پھر جب اقبال صاحب نے لوگوں پر اِس روحانی طریقے کا استعمال کیا تو نتیجہ انتہائی حیرت انگیز پایا اور جب یہ بات اُنہوں نے شاہد شیخ کو بتائی تو وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ یہ جو کچھ کررہے ہیں ریکی سے تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے یہ تو کوئی اور طاقت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اِس سلسلے میں 2001سے 2010تک کافی تحقیقات و تجربات کئے اِس دوران کچھ پیر بھائیوں اور دوسرے دوستوں نے اِس علم پر کتاب لکھنے کے لئے بار بار فرمائشیں بھی کیں اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اِس روحانی طریقہ علاج کو باقاعدہ علمی شکل دے کر ایک کتاب ’’ن جمی شفائی توانائی‘‘ کے عنوان سے تالیف کی جو الصحت فائونڈیشن کی جانب سے جولائی 2013رمضان المبارک کے مقدّس مہینے میں منظر عام پر آچکی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا خاندانی پس منظر کچھ اِس طرح سے ہے کہ آپ نجیب الطرفین سیّد زادے ہیں آپ کے والد گرامی جناب سیّد جواد علی صاحب اپنے والد گرامی جناب سیّد ممتاز علی والدہ محترمہ احمدالنساء بیگم اور بڑے بھائیوں کے ساتھ کانپور انڈیا سے ہجرت کرکے 1954میں کراچی پاکستان تشریف لائے اوراِسی طرح ڈاکٹر صاحب کی والدہ محترمہ سیّدہ بیگم بھی اپنے والد گرامی جناب سیّد عبداللہ صاحب والدہ محترمہ میمونہ بیگم اور بڑے بھائیوں اوردیگر افراد کے ہمرا اِلہ آباد انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان بننے کے بعد اُسی زمانے میں کراچی تشریف لائیں تھیں ڈاکٹر صاحب کے والدین کی شادی مورخہ 26اگست 1962کو کراچی میں ہوئی۔ آپ نے 2004میں رشدوہدایت اور روحانی رہنمائی کے لئے سلسلہ عالیہ خضریہ کی بنیاد بھی رکھی جس کا حقیقی مقصد انسان کے ذہن کو منجانب اللہ تعالیٰ کے موڑنا اور توحید الٰہی کا فلسفہ مضبوط و مستحکم کرنا ہے۔