ColumnImtiaz Aasi

جمہوریت یا آمریت؟

تحریر: امتیاز عاصی
سیاسی جماعتوں کے پرامن جلسے اور جلوس جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں جلسوں کو روکنے سے آمریت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں آزادی اظہار پر قدغن ہے اپوزیشن جہاں کہیں جلسہ کرے دفعہ ایک سو چوالیس لگا دی جاتی ہے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف نہ صرف اپوزیشن کی چھ جماعتیں یکجا ہیں بلکہ پی ڈی ایم دور کے اتحادی مولانا فضل الرحمان بھی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر سیخ پا ہیں۔ مولانا نے ضمنی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے بڑی دھاندلی قرار دیا ہے وہ ملک کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار طاقت ور حلقوں کو قرار دیتے ہیں۔ عجیب تماشا ہے پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی جے یو آئی کے لئے جلسوں کے انعقاد پر پابندی نہیں حکومت کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے۔ اپوزیشن نے پشین میں جلسہ کیا تو صوبائی حکومت نے دفعہ ایک سو چوالیس لگا دیا جے یو آئی نے اسی شہر میں جلسہ کیا تو اسے جلسہ کی آزادی تھی۔ ایک طرف ملک کی سب سے بڑی جماعت جسے عوامی تائید حاصل ہے وہ جلسہ کرے تو قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں جے یو آئی جیسی علاقائی جماعت جلسہ کرے تو اسے جلسوں کی کھلی آزادی ہے۔ پی ٹی آئی نے راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسہ کرنے کی اجازت مانگی تو ضلعی انتظامیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ آج کل جے یو آئی کے امیر طاقتور حلقوں پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں حالانکہ ان کی جماعت نے ہمیشہ طاقت ور حلقوں کی اشاروں پر کام کیا ہے۔ جے یو آئی نے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کیا پی ٹی آئی نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا تو اسے عام انتخابات والے نتائج سے دوچار ہونا پڑا۔ چودھری پرویز الٰہی والے حلقے کے پریذائیڈنگ آفیسر کا سوشل میڈیا پر چلنے والا بیان ضمنی الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک عام تاثر ہے جے یو آئی، بی این پی یا اچکزائی کی جماعت تنہا کچھ نہیں کر سکتی۔ جہاں تک پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا تعلق ہے اگر ان کے ساتھ جے یو آئی مل جائے تو حکومت کے لئے مسئلہ کھڑا کر سکتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے حکومت پی ٹی آئی سے خائف ہے۔ سیاسی حلقوں کے نزدیک جے یو آئی کو طاقت ور حلقوں نے بوقت ضرورت استعمال کیا۔ عمران خان کے دور میں جے یو آئی نے وفاقی دارالحکومت میں طویل دھرنا دیاتھا۔ مولانا فضل الرحمن نے امریکہ پر الزام لگایا ہے امریکیوں نے ہمیشہ پاکستان میں آمریت کو سپورٹ کیا لیکن ظاہری طور پر امریکہ جمہوریت کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ پشین میں اپوزیشن جماعتوں کے جلسہ میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کا غماز ہے اپوزیشن کے ساتھ عوام نے بھی عام انتخابات کو مسترد کر دیا ہے۔ دراصل عوام عام انتخابات کے نتائج سے دل برداشتہ ہیں اسی لئی ضمنی الیکشن میں عوام نے سرد مہر ی کا مظاہر ہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے نام خط میں اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے جن سیاست دانوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات تھے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے جو عدلیہ کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ عوام کو ایک عجیب ماحول کا سامنا ہے نہ انہیں اپنے پسندیدہ سیاسی رہنمائوں کو منتخب کرنے کی آزادی ہے اور نہ انہیں جلسے اور جلسوں میں شرکت کی آزادی ہے اس کے باوجود ہمارا ملک جمہوری ہے۔ ضمنی الیکشن میں مبینہ گڑبڑ کے خلاف پی ٹی آئی نے جمعہ کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ دیکھتے ہیں جمہوریت کی علمبردار حکومت پی ٹی آئی کو احتجاج کرنے کی اجازت دیتی ہے یا پہلے کی طرح ان کے احتجاج کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ انتخابی دھاندلی اپنی جگہ سیاسی جماعتیں اور عوام الیکشن کمیشن پر شاقی ہیں۔ عوام کو بھٹو دور کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی یاد ہے تاہم 8فروری کو ہونے والے انتخابات نے دھاندلی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ عوام کو ایک طرف مہنگائی کا سامنا ہے دوسری طرف انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کی آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ تعجب ہے جو حکومت پی ڈی ایم دور میں ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے عام انتخابات کے نتیجہ میں انہی سیاست دانوں کو مسلط کرنا کیا ملکی مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا؟ اگر انہی سیاست دانوں کو اقتدار میں لانا مقصود تھا تو انتخابات پر اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ملک پہلے قرضوں بوجھ تلے دبا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید قرضوں تلے دبا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کے پاس ملکی مسائل حل کرنے کا شافی حل نہیں ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جب تک ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس مقصد کے لئے اقتدار ایسے سیاست دانوں کے حوالے کرنا چاہے جن کی طرف کوئی انگلی اٹھانے والا نہ ہو۔ آج ہمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقائے کار جیسے سیاسی رہنمائوں کی اشد ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے راست باز سیاست دانوں کا ہمارے ہاں فقدان ہے اگر کوئی کرپشن سے پاک ہے تو اسے اقتدار سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ دراصل ہمارا ملک اور اس کے ادارے کرپشن سے آلودہ ہیں جس کے خاتمے کے لئے یہاں کسی آیت اللہ خمینی کی ضرورت ہے جو کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو چوراہوں میں لٹکا کر سزائیں دے۔ پاکستان جیسا ملک جس میں نہ آئین اور نہ قانون کو تسلیم کیا جاتا ہو عالمی دنیا میں مذاق بن چکا ہے۔ بظاہر ہم آزاد ہیں مگر عملی طور پر امریکہ کے غلام ہیں۔ جب ہمارا ملک دوسرے ملکوں سے مرضی سے تعلقات قائم نہیں کر سکتا اس سے بڑی غلامی اور کیا ہے۔ ایران سے گیس لینے کا معاہدہ ہوا تو امریکی پابندیاں رکاوٹ بن گئیں ورنہ اگر گیس آجاتی تو بجلی کے تمام مسائل حل ہو جاتے بلکہ صنعتی ترقی میں انقلاب آسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ہمارا ملک کسی طرح اغیار کی غلامی سے نکل آئے اور قوم دیگر ملکوں کی طرح ترقی کر سکے ورنہ یہی صورت حال رہی تو ہمارا ملک کہیں کا نہیں رہے گا لہذا حکمرانوں کے لئے اب بھی وقت ہے وہ اپنا قبلہ درست کر لیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button