Columnمحمد مبشر انوار

عدلیہ کا نباض

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
پچیس کروڑ عوام کی اکثریت بالعموم پاکستانی نظام عدل سے شاکی اور شکوہ کناں نظر آتی ہے کہ انہیں یہ احساس ہمہ وقت دامن گیر رہتا ہے کہ ان پر ہونے والے مظالم کی داد رسی کماحقہ نہیں ہوتی۔ انہیں انصاف کے لئے دربدر دھکے کھانے پڑتے ہیں، معاشرے کے بااثر افراد،ان کے حقوق سلب کر لیتے ہیں،قانون نافذ کرنے والے ادارے بالعموم ظالم کے شراکت دار نظر آتے ہیں،عدالتوں میں ظالموں کے خلاف ثبوت و شواہد ناقص فراہم کرکے انصاف کو قتل کرنے میں حصہ دار بن جاتے ہیں،اس پس منظر میں بالعموم عدالتیں بے بس نظر آتی ہیں اور وہ مروجہ قانون کے مطابق ہی فیصلے کرتی دکھائی دیتی ہیں۔یوں عوامی غیض و غضب کا شکار عدالتوں میں بیٹھے ہوئے معزز جج صاحبان بن جاتے ہیں تاہم کچھ معاملات میں ججز حضرات کا اپنا رویہ بھی جانبدارانہ دکھائی دیتا ہے او ر ایسی چند ایک ویڈیوز بھی منظر عام پر آ چکی ہیں کہ جہاں وکلاء اور ججز کے درمیان صرف تلخ کلامی ہی نظر نہیں آتی بلکہ وکیل جج پرگالیوں کے علاوہ حملہ آور بھی دکھائی دئیے ہیں کہ جج صاحب نے حق حلال نہیں کیا۔علاوہ ازیں! کئی ایک مواقع پر وکلاء بھی اپنے سائلین کے ساتھ انصاف کرتے دکھائی نہیں دیتے اور بلاوجہ تاخیری حربوں کے ساتھ ساتھ فقط سائل کو پھنسائے رکھنے کی خاطر غلط مشورے بھی دیتے ہیں تا کہ ان کا ذریعہ آمدن برقرار رہے،اس ضمن میں انہیں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا بھی ناگوار نہیں گزرتا۔ بدقسمتی سے یہ تلخ حقیقت ہے،جس پرپیشگی معذرت خواہ ہوں لیکن ایسے وکلاء بھی اس پیشے سے منسلک ہیں کہ جن کے باعث اس پیشہ کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اور عوام میں ان کی عزت و تکریم پائی جاتی ہے۔یقینی بات ہے کہ عدالتوں میں لائے جانے والے مقدمات میں ایک فریق کو شکست ہونا ہے اور ایک فریق اپنے موقف کی بنا پر کامیاب ہو گا،اصل حقیقت یہ ہے کہ کس کا کیس حقائق پر مبنی ہے،کس کا وکیل جانفشانی سے کیس تیار کرتا ہے،جج کا رویہ اور عمومی شہرت کیسی ہے،ان عوامل پر ہی کسی بھی کیس کا فیصلہ ہوتا ہے۔تاہم پاکستان میں بدقسمتی سے مقدمات کے فیصلوں میں دہائیاں تک صرف ہو جاتی ہیں لیکن مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے،جس کے باعث ہماری عدلیہ کا شمار عالمی درجہ بندی میں تنزلی کا شکار ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ،اس میں مزید تنزلی دکھائی دے رہی ہے۔ اس تنزلی کے پس پردہ اگر چند سیاسی مقدمات ہیں تو دوسری طرف وسائل کی شدید کمی بھی ہے،غیر تربیت یافتہ سٹاف ہے تو بیرونی دباؤ بھی موجود ہے،جس کا اظہار اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر کیا تو قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ہی سابق جج شوکت صدیقی بھی یہ الزام لگا چکے ہیں،یوں پاکستانی عدلیہ کی عالمی درجہ بندی کو شدید زک پہنچی ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے جج صاحبان اس قدر کمزور ہیں کہ بیرونی دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں یا انہیں بھی بعینہ مرحوم ارشد ملک جیسے مسائل کا سامنا ہے یا ان کی اپنی اہلیت ہی اتنی ہے کہ وہ قانونی نشیب و فراز کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی اہلیت و قابلیت پر سوال کی خود نفی کرتا ہوں کہ ایسے کئی ایک فیصلے جنہیں عوامی پذیرائی نصیب نہیں ،ان مقدمات میں ججز کے ریمارکس کے علاوہ،جیسے جواز فیصلے میں دئیے جاتے ہیں،وہ کسی عام یا نااہل جج کے بس کی بات نہیں ہے،اس کے لئے قانون کا وسیع علم ہونا بنیادی شرط ہے،جس کا اظہار ججز اپنے فیصلوں میں کرتے ہیں،الگ بات کہ ایسے فیصلے عوامی پذیرائی حاصل نہیں کرپاتے،البتہ اسے بیرونی دبائو کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے،جس سے انکار کرناممکن نہیں۔عدلیہ و دیگر اداروں کے حوالے سے معاملات بہرطور اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ان کی بازگشت،بڑی بڑی محفلوں میں سنائی دے رہی ہے،بااثر افراد بھی اس حوالے سے قدرے کھل کر اپنے خیالات کااظہار کررہے ہیں،جس کا لب لباب بہرحال یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان افر اد میں نظام کو درست سمت لانے کی تڑپ موجود ہے ۔ انہیں انتظا ر ہے تو مٹی کے ذرا نم ہونے کا ہے کہ جیسے ہی مٹی نم ہو،وہ اس کی زرخیزی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے،ملک و قوم کو نوید سنائیں۔
یوں تو عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن تقریبا ہر سال انسانی حقوق کے حوالے سے سیمینار منعقد کرتی ہے،جس میں ملک کے نامور افراد اظہارخیال کرتے ہیں،برسبیل تذکرہ دو برس قبل غالبا اسی تقریب میں بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ بھی کسی اہم شخصیت نے بھی اظہار خیال کیا تھا جس کی معذرت انہیں بعد ازاں کرنا پڑی تھی،جبکہ حالیہ سیمینار میں بھی ملک کی نامور شخصیات کے علاوہ عدلیہ کی اہم ترین شخصیت جسٹس سید منصور علی شاہ کا خطاب بھی تھا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ ،ممکنہ طور پر پاکستان کے اگلے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے بشرطیکہ اسلام آباد کی ہوائوں میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے،تیرنے والی چہ میگوئیوں نے حقیقت کا روپ نہ دھار لیا اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہ ہوئی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ بادی النظرمیں اداروں کے دائرہ اختیار میں انتہائی واضح ہیں اور متعدد مرتبہ اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہر ادارہ اپنے اختیارات کے مطابق روبہ کار آئے لیکن نجانے کیوں عدالت کے دائرہ نظرثانی سے ہمیشہ گریزاں دکھائی دیتے ہیںجبکہ دنیا بھر میں عدالتی نظرثانی کا اختیار مسلمہ ہے اور بالفرض اگر موجودہ حکومت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کرتی ہے تو کیا پارلیمنٹ کی یہ قانون سازی قابل قبول ہو سکتی ہے؟اس پر عدالتی نظرثانی ہو سکتی ہے یا نہیں؟گو کہ حکومتیں ماضی میں ایک مخصوص عہدے کی مدت ملازمت میں توسیع کرتی رہی ہیں جہاں کسی کو دم مارنے کی اجازت نہیں اور اسی مشق کے تحت کئی دیگر اداروں میں بھی ایسی توسیع بلاچوں و چرا کر دی جاتی تھی لیکن کیا اس مشق کو ختم نہیں ہونا چاہئے اور دیگر افراد کو مساوی مواقع نہیں ملنے چاہئے؟ جسٹس سید منصور علی شاہ کی شخصیت کا تاثر بالعموم ایک جدت پسند شخص کا ہے جو اپنے ادارے میں ہمہ وقت بہتری کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں،یہی صورتحال اس وقت بھی تھی جب وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے،تب انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو متعارف کراتے ہوئے،عدالتی نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی،تا کہ نہ صرف وکلاء بلکہ سائلین کو بھی بروقت مقدمات کے متعلق مطلع کیا جا سکے۔یہ نظام آج بھی لاہور ہائیکورٹ میں رائج ہے اور وکلاء کے ساتھ ساتھ سائلین بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں،اس نئے نظام کو رائج کرنے کا مقصد بہرطور یہی تھا کہ اس سے نہ صرف لاہور ہائیکورٹ کا معیار بہتر ہو بلکہ اس میں جدت بھی لائی جائے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ ،سپریم کورٹ میں مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہاں نہ صرف یہ کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس محدود استعمال سے آگے بڑھتے ہوئے،مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی ادارے میں کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ نظام خودکار ہو جائے گا،مصنوعی ذہانت ازخود مقدمے کے نوعیت کو دیکھتے ہوئے،جج کا تعین اس کی مہارت اور مقدمے کی نوعیت کے مطابق کرے گا،یوں شفافیت واضح نظر آئے گی، کسی پسند ناپسند کا احتمال دکھائی نہیں دے گا۔عدالتوں پر لدے غیر ضروری بوجھ بچنے کے لئے معاملات عدالتوں سے باہر نپٹانے کیا طریقہ کار اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ایسے معاملات کہ جن کا حل عدالت سے باہر ممکن نہیں رہا، انہیں عدالت میں لایا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں ہنوز معالات کو نپٹانے کے لئے پہلا قدم ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے۔ اس پر بھی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے ،کچھ اقدامات کئے تھے اور عدالتوں سے باہر معاملات نپٹانے کے لئے پہل کی تھی، جسے اب پاکستان بھر میں نافذ کرنے کے ارادے دکھائی دے رہے ہیں،یقینی طور پر خوش آئند بات ہے اگر اس کو قانونی و آئینی سہارا بھی میسرہو جائے ،جس کے لئے مقننہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اس پس منظر میں کہ جب ادارے میں نئی ٹیکنالوجی کا نفاذ ہونے جا رہا ہے،تو یقینی طور پر اداراتی سٹاف کا تربیت یافتہ ہونا بھی ازحد ضروری ہے تا کہ اس سے کما حقہ ثمرات سمیٹنے کے لئے عدلیہ کے ماتحت عملہ کی باقاعدہ تربیت کاانتظام کرکے انہیں جدید دور سے ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ( جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button