ColumnImtiaz Aasi

قانون یا صوابدید؟

تحریر : امتیاز عاصی
انگریز کے بنائے ہوئے قوانین میں ایسے قیدی جو اپنی قید کا ایک تہائی حصہ گزار چکے ہوں اور اندرون جیل ان کا کنڈکٹ اچھا ہوا نہیں پیرول پر رہا کیا جانا چاہیے۔ دو عشروں سے زائد مدت سے اسی قانون کے مطابق قیدیوں کو پیرول پر رہائی ملتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں محکمہ پیرول کی تنظیم نو کی گئی جس میں ایک ڈائریکٹر کی بجائے ایک ڈائریکٹر جنرل اور کئی ڈائریکٹر کی اسامیاں تخلیق کی گئیں۔ دفتر کی پرانی عمارت چھوڑ کر مال روڈ پر لاکھوں روپے ماہانہ کرایہ پر ایک نئی عمارت لے کر محکمہ پیرول کے دفاتر کو منتقل کیا گیا ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے سافٹ ویئر تیار کرایا گیا ۔ تجویز تھی پیرول پر رہائی پانے والے کسی خاص بندے کے پاس مشقت کی بجائے کام کرنے میں آزاد ہوں گے۔ جہاں تک قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا معاملہ تھا اس دور میں بھی چند گنے چنے قیدیوں کو رہائی دی گئی ورنہ قیدیوں کے زیادہ تر کیسز التواء میں رکھ دیئے گئے۔ پی ڈی ایم کے دور میں کابینہ کی کمیٹی نے قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنا گنا سمجھا اور کئی سو قیدیوں کے کیسز پڑے رہے۔ پنجاب میں جب میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے پنجاب کی تاریخ میں اتنے قیدیوں کو رہائی نہیں ملی جیتنے قیدیوں کو ان کے دور میں پیرول پر رہائی دی گئی۔ایک سو سے زیادہ قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا معاملہ موجودہ کابینہ کی کمیٹی کے سامنے رکھا گیا کمیٹی جس کے سربراہ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق ہیں، نے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوءے نئی پالیسی بنائی ہے جس میں آئندہ صرف انہی قیدیوں کو پیرول پر رہائی مل سکے گی جن کی قید میں دو سال سے کم عرصہ رہ گیا ہوگا۔ سوال ہے عمر قید کاٹنے والے قیدی کو پیرول پر اس وقت رہائی ملنی ہے جب اس کی قید کو دو سال سے کم عرصہ رہ گیا ہوگا تو حکومت کا قیدیوں پر کون سا احسان ہوگا۔ جن قیدیوں نے پندرہ سال جیل میں گزار دیئے ہوں گے کیا وہ مزید دو سال نہیں جیل میں گزار سکیں گئے؟ گزشتہ ماہ پیرول کمیٹی کے اجلاس میں سو سے زیادہ قیدیوں کے کیسز رکھے گئے جن میں سے صرف دس قیدیوں کو رہائی دی گئی ہے۔ عجیب تماشا ہے انگریز کے بنائے گئے قانون میں نہ تو ایسے قیدیوں کو پیرول نہ دینے کا ذکر ہے جنہوں نے غیرت کے نام پر اپنی بیوی کو قتل کیا ہو لیکن کابینہ کی کمیٹی نے ایسے قیدیوں پر پیرول پر رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے قتل کے وہ مجرمان جنہیں عمر قید کی سزا ہوئی ہے کم از کم بیس سال تک جیل میں رہنا پڑتا ہے ورنہ 2001سے قبل عمر قید کے قیدیوں کو سات سال میں رہائی مل جاتی تھی ا س وقت قتل کے الزام میں سزائیں پانے والوں کو مذہبی تہواروں پر قیدیوں کو ملنے والی معافیاں ملا کرتی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور ایسے قیدی جنہیں قتل کی الزام میں سزا ہوئی ہو مذہبی تہواروں پر ملنے والی صدارتی معافی بند کر دی گئی۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے پیرول پر قیدیوں رہائی آزمائشی طور پر ہوتی ہے پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کو اپنے آبائی اضلاع میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ قیدیوں کی نگرانی کرنے والا محکمہ وقتا فوقتا ایسے قیدیوں کی موومنٹ پر نظر رکھتا ہے کہیں جن شہروں میں انہیں چھوڑا گیا ہے وہاں سے ادھر ادھر تو نہیںہو گئے ۔بہت کم ایسا ہوتا ہے پیرول پر رہا ہونے والے فرار ہو جائیں ورنہ ایسے قیدیوں کی پوری کوشش ہوتی ہے وہ پیرول کے دوران کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیں۔ پیرول پر رہا ہونے والوں کو ہر ماہ پیرول افسر کے روبرو پیش ہو کر حاضری لگانا پڑتی ہے۔ بسا اوقات قیدی پیرول پر رہا ہونے کے کچھ عرصہ بعد مشقت سے تنگ آکر واپس جیل جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے تو جن قیدیوں کو مشقت کے لئے جہاں بھیجا جاتا ہے ایسے لوگوں کی پاس صوبائی محکمہ داخلہ سے جاری ہونے والے لائسنس ہوتے ہیں۔ بعض حضرات قیدیوں کو کھانا تک نہیں دیتے بلکہ مشقت کرنے پر زور دیتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا آخر قیدی بھی انسان ہوتے ہیں مگر وہ پیرول کے لائسنس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم سو قیدی اب بھی ایسے ہیں جو اپنی عمر قید کے دس سال پورے کر چکے ہیں قانون انہیں پیرول پر رہائی کی اجازت دیتا ہے لیکن سیاسی رہنما قانون کا مطالعہ کئے بغیر اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ حیرت ہے پیرول کے لئے قائم کابینہ کی کمیٹی کے اجلاس میں محکمہ جیل خانہ جات اور متعلقہ محکمہ کے نمائندوں کی موجودگی کے باوجود وزراء قانون سے ہٹ کر اپنے صوابدیدی اختیارات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال ہے جب قانون میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو پیرول پر رہائی کے لئے قدغن نہیں ہے تو کابینہ کی کمیٹی کو چاہیے قانون میں ترمیم کر دے ورنہ ایسے قیدیوں کو رہائی ملنی چاہیے۔ عجیب تماشا ہے جن قیدیوں کی سزا پوری ہونے میں دو سال رہ گئے ہوں گے انہیں پیرول پر رہائی ملے گی اس سے بہتر تو یہ ہے انہیں اپنی بقیہ قید پوری کرنے دیں تاکہ وہ سکون سے اپنے اہل و عیال کے پاس رہ سکیں۔ انگریز نے پیرول پر رہائی کا قانون ایسے نہیں بنایا تھا ان کا مقصد قیدیوں کو ایک اچھا شہری بنانا مقصود تھا ساتھ وہ پیرول کے دوران کچھ کما کر اپنے اہل خانہ کی کچھ نہ کچھ مالی اعانت کر سکیں۔ پیرول پر قیدیوں کی رہائی سے خزانے پر اچھا خاصا مالی بوجھ کم ہو سکتا ہے مگر یہاں تو جنگل کا قانون ہے جس کا جی چاہیے وہ کرتا پھرے بھلا کون پوچھ سکتا ہے۔ ویسے بھی ہمارا ملک قرضوں پر چل رہا ہے مزید مقروض ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ماضی مسلم لیگ نون کی حکومت میں ہزاروں قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا گیا جو اپنی قید کے دس سال پورے کر چکے تھے جبکہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنہیں مسلم لیگ نون کے دور میں رہائی ملی تھی اب اسی جماعت کی حکومت میں قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے میں لیت و لعل کیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button