پاناما، ڈان اور اب دبئی لیکس

تحریر :محمد ناصر شریف
پاکستان 20ہزار سے زائد چوٹی کے امیر ہونے کے باوجود مقروض ملک اور اس کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں، وطن عزیز کے سیاستدان، جرنیل ، بیورو کریٹس، سرکاری افسران اور ان سے منسلک لوگ اس حد تک امیر و کبیر اور خوشحال ہیں کہ ان کے بیرون ملک جائیدادوں کی لیکس کا سلسلہ ایک کے بعد ایک کرکے منظر عام پر آنے لگا، لیکن ان لیکس کی ٹائمنگ بھی عجیب ہے یہ منتخب حکومت کے دور میں آتی ہیں عبوری یا فوجی دور میں اس طرح کی کوئی جرات نہیں کی جاتی، اگر یہ لیکس عام انتخابات سے قبل آجاتی تو یقیناً بہت سارے لوگ انتخابات کی دوڑ سے باہر ہوجاتے ۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں اکثریت کو دہائیوں سے روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہاں لوگ امیر سے امیر تر کیسے ہوتے جارہے ہیں ، جس ملک میں چودہ چودہ گھنٹے کام کرنے والے محنت کش دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر پارہے ہیں وہاں یہ اشرافیہ کس طرح املاک پر املاک بنا رہی ہے یقیناً ان کے پاس کوئی جادو کا چراغ ہوگا ۔ اس ملک کا صنعتکار اور تاجر تک جائیدادوں کے حصول کی دوڑ سے نکل کر اپنی صنعتیں بچانے، اپنا کاروبار بچانے میں لگا ہوا ہے تو سرکاری افسران، جرنیلز ، سیاستدان اور دیگر منظور نظر افراد کس طرح جائیدادوں پر جائیدادیں بنارہے ہیں۔ گزشتہ روز پاناما لیکس، ڈان لیکس کے بعد آنے والی دبئی لیکس پر نظر ڈالی جائے تو طبقاتی نظام، معاشی استحصال اور عدم مساوات کا ایک عجب عالم نظر آتا ہے۔
دبئی میں املاک کالا دھن سفید کرنے کا آسان ذریعہ ہیں، جہاں خریدار سے اس کی آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جاتا۔ دبئی لیکس میں پاکستانیوں کی 11ارب ڈالر یا 300کھرب روپے کی جائیدادوں کا انکشاف ہوا ہے۔ 17ہزار پاکستانی 23 ہزار رہائشی املاک کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے نمبر ہیں ۔یہ ہمارے حکمران اشرافیہ کا بدنما کرپٹ چہرہ ہے جنہوں نے انتہائی مشکل ملکی حالات میں سرمایہ دبئی منتقل کیا۔ اس میں سیاست دان، جرنیل، ججز اور بیوروکریٹس اور نچلے درجے کے سرکاری ملازم سب ہی شامل ہیں۔ دبئی پراپرٹی لیکس میں صدر پاکستان آصف علی زرداری ، ان کے تینوں بچے، حسین نوازشریف، وزیرداخلہ محسن نقوی کی اہلیہ، شرجیل میمن اور ان کے اہل خانہ ، سینیٹر فیصل واڈا، فرح گوگی، شیرافضل مروت، چار ارکان قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے نصف درجن ارکان، جنرل پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور ایک درجن سے زائد ریٹائرڈ جرنیلوں اور پولیس کے سربراہوں ، ایک سفیر اور ایک سائنسدان بھی شامل ہیں۔ ان سب کے پاس ان املاک کی ملکیت براہ راست ہے یا شریک حیات اور بچوں کے توسط سے ہے۔ 2014ء میں صدر آصف علی زرداری نے غیر ملکی املاک ایک تحفے کے طور پر حاصل کیں۔ 2018 ء میں انہوں نے اسے ظاہر کیا تو اس وقت تک وہ اسے کسی کو تحفتاً دے چکے تھے۔ 2014ء میں ہی زرداری کے ساتھ جعلی کھاتوں کے الزام میں شریک ملزم ایک بڑے تاجر عبدالغنی مجید نے اپنی دولت کی دستاویز میں بتایا کہ انہوں نے 32کروڑ90 لاکھ روپے کی ایک جائیداد تحفے میں دی ہے لیکن انہوں نے نہ تو جائیداد کی نوعیت بتائی اور نہ ہی یہ بتایا کہ تحفہ حاصل کرنے والا کون تھا تاہم جے آئی ٹی کو ایک یادداشت کے مطابق جو کہ مارچ 2014ء میں دبئی میں ایک پینٹ ہاؤس کی خریداری سے متعلق تھی ۔ پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا سے اب انکشاف ہوتا ہے کہ غنی نے یہ جائیداد زرداری کو تحفتاً دی تھی جو انہوں نے اپنی بیٹی کو تحفتاً دے دی۔ شعیب ڈنشا بھی دبئی میں ایک جائیداد کے مالک ہیں۔الطاف خانانی نیٹ ورک جس پر امریکا نے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر رکھی ہے ان کا نام پھر اس فہرست کے ذریعے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ان کا بیٹا، ، بیٹی، بھائی اور بھتیجا بھی دبئی میں کئی کئی املاک کے مالک نکلے ہیں۔ ایک اور قابل ذکر کردار حامد مختار شاہ ہیں جو کہ راولپنڈی کے فزیشن ہیں ان پر بھی امریکا نے پاکستانی مزدوروں کے گردے نکال کربیچنے کیلئے انہیں اغوا کرنے ، اپنی تحویل میں رکھنے اور بالآخر گردے نکالنے میں ملوث ہونے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ وہ کئی املاک کے مالک ہیں۔ وزیرداخلہ محسن نقوی کی دبئی میں املاک کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ پراپرٹی لیکس کے ڈیٹا کے مطابق نقوی کی بیوی کا پانچ خواب گاہوں کا ایک پرتعیش ولا عریبین رینچز میں 2023ء تک موجود تھا۔ انہوں نے اس ولا سے 4کروڑ 50لاکھ روپے کا کرایہ بھی حاصل کیا۔ یہ ولا اپریل 2023تک ان کی ملکیت میں رہا جسے اگست 2017میں 32کروڑ 90لاکھ روپے میں خریدا تھا اور ریکارڈ کے مطابق 34کروڑ 40لاکھ روپے میں اپریل 2023میں بیچ دیا تھا۔
سابق آرمی چیف جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ کے بیٹے سعد صدیقی باجوہ کا بھی دبئی کے انتہائی مہنگے علاقے میں دو بیڈ روم کا اپارٹمنٹ 2020سے موجود ہے۔ لیک ہونے والے ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد 18فروری 2020کو ابتدائی طور پر 2.35ملین اماراتی درہم میں خریدی گئی تھی۔ بعد میں 27دسمبر 2020کو یہ فروخت کر دی گئی۔ لیک ہونے والے ڈیٹا کے مطابق اس پراپرٹی کی قیمت 1.75ملین اماراتی درہم ظاہر کی گئی ہے۔ سعد صدیق باجوہ نے یہ املاک ایک سرمایہ کار کمپنی سے خریدی لیکن بعد میں اپنے چھوٹے بھائی علی اقبال باجوہ کے نام کر دیا جو کہ اس پراپرٹی کا موجودہ مالک ہے۔
پاکستان سے سالانہ 10ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، ہم چند ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن لیتے ہیں اور بدترین غلامی کرتے ہیں دوسری جانب پاکستان کے عوام مہنگائی، بدامنی کا شکار ہیں، عوام تعلیم و صحت کی سہولیات سے محروم ہیں اور ہمارے حکمران و اشرافیہ بیرون ملک جائیدادیں بنانے میں مصروف ہیں۔ویسے تو بیرون ملک جائیداد کا مالک ہونا کوئی جرم نہیں اور نہ ہی پاکستان سے باہر جائیداد کا مالک ہونا غیر قانونی سرگرمی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے بہت سے افراد کے پاس جائیدادیں ہیں، ان لوگوں نے جائیدادیں آمدن پر ٹیکس ادا کر کے خریدی ہیں۔ بیرون ملک جاءیدادوں کی قانونی حیثیت کا تعین کرنا متعلقہ ملک کے ٹیکس حکام کا معاملہ ہے لیکن اس ملک سے کرپشن کرکے بیرون ملک جائیداد بنانا ایک سنگین جرم ہے۔ سیاستدانوں سمیت تمام افراد کو یہ بتانا ہوگا کہ جن پیسوں سے جائیدادیں خریدی گئی ہیں وہ پیسہ کہاں سے کمایا گیا؟ اس کا ذریعہ کیا تھا ؟۔ اور وہ کون سے ذریعہ تھا جس سے یہ پیسہ پاکستان سے باہر منتقل کیا گیا۔ اب موقع ہے کہ اس پر کھلی بحث ( اوپن ڈیبیٹ) کی جائے اور اس سے نتائج اخذ کرکے ملک کیلئے ایک سمت کا تعین کیا جائے ورنہ یہ لیکس آتی رہیں گی اور ہم دنیا میں قرض کیلئے اپنی خود مختاری گروی رکھتے رہیں گے۔