ColumnImtiaz Aasi

تھینک ٹو اللہ اینڈ امریکہ

تحریر : امتیاز عاصی

ریاست پاکستان کا قیام سیاسی اکابرین کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست میں ہجرت کرنے والے اس امید سے ایک نئے وطن آئے تھے یہاں انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں اشرافیہ اور غریبوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد عوام پر یہ حقیقت آشکار ہوئی قانون اور ضابطے عام لوگوں کے لئے ہیں جب کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آئین اور قانون سے بالاتر ہیں۔ چنانچہ انہی وجوہات کی بنا ملک کے وجود میں آنے کے تھوڑے عرصہ بعد وطن عزیز کو اغیار کا دست نگر ہونا پڑا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول روایت بن گیا غریب عوام ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کی موجیں لگ گئی نہ تو انہوں نے ٹیکس دینے کی ضرورت محسوس کی نہ ان سے کسی نی ٹیکس نہ دینے کے سلسلے میں بازپرس کی جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک مقروض سے مقروض تر ہو تا گیا۔ چودہ سو برس پہلے رسالت مآبؐ نے فرمایا تھا جن معاشروں میں انصاف نہیں ہوتا وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں آج ہماری تباہی میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ کلاس ہر سال سترہ ملین ڈالر کی مراعات لیتی ہے جس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔تازہ ترین خبروں کے مطابق آئی ایف ایم نے کابینہ کے ٹیکس مراعات کے صوابدیدی اختیارات اور ایف بی آر کے ٹیکس مراعات دینے کے اختیارات کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اورنگ زیب خان کا یہ بیان خوش آئند ہے تاجروں کو ہر صورت ٹیکس دینا ہوگا اس سلسلے میں حکومت نے موبائیل سمیں بند کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ عام طور پر سیاسی حکومتیں تاجروں کے ہاتھوں بہت جلد بلیک میل ہو جاتی ہیں کسی موقع پر ٹیکس وصولی کا آغاز ہو تو شٹر ڈائون کی کال دے دیتے ہیں جس کے بعد حکومت دفاعی پوزیشن لے لیتی ہے حالانکہ قانون کی موجودگی میں حکومت کو ہڑتالوں سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے بلکہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنے سے ٹیکس وصولی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے دور میں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے اور کئی لاکھ نئے لوگ رجسٹرڈ ہوئے۔ اشرافیہ نے ملک کو تماشا بنا رکھا ہے امراء حضرات ٹیکس دینے کو گنا سمجھتے ہیں جب کہ حکومت سرکاری ملازمین سے جبرا ٹیکس وصول کرتی ہی۔ دراصل ٹیکس وصولی میں حکومت اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیں اور سرکاری امور کی بجا آوری میں اللہ سبحان تعالیٰ کو خوف ان کے دلوں میں ہونا چاہیے۔ سول سروس سے تعلق رکھنے والے ایک دوست بتا رہے تھے یورپ اور امریکہ میں قتل جیسے جرم کو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا جیتنا مالی بدعنوانی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اپنے سفر کا ایک واقعہ سناتے ہوئے بتا رہے تھے وہ امریکہ میں کہیں سفر کر رہے تھے کہ بس میں سوار ایک گورے کی طبیعت خراب ہو گئی جب متعلقہ حکام کو مریض کے بارے میں بتایا گیا تو تھوڑی دیر میں علیل مسافر کو لینے کے لئے ہیلی کاپٹر آگیا ہے جو مریض کو علاج معالجے کے لئے لے گیا۔ امریکہ میں پبلک ٹرانسپورٹ میں وائرلیس سسٹم نصب ہے چنانچہ کسی ہنگامی صورت میں متعلقہ اداروں کو فوری مطلع کر دیا جاتا ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے جب وہ بس میں اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے اور بس نے تھوڑی مسافت طے کی تو اگلی جگہ ایک ہوٹل میں بس میں سوار مسافر ریفرشمنٹ کی غرض سے رکے تو ہوٹل میں وہی مسافر جسے ہیلی کاپٹر میں علاج کے لئے لے جایا گیا تھا وہ ہشاش بشاش ہوٹل میں بیٹھا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا ہسپتال میں اس کا بلڈ پریشر ٹھیک کرنے کے لئے ڈرپ لگائی گئی اور وہ ٹھیک ہوگیا جس کے بعد اس نے کہا تھینک ٹو اللہ اینڈ امریکہ وہ اس لئے ان ملکوں میں چھوٹے
بڑے سب ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ٹیکسوں کی رقم سے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی ترقی کا راز بدعنوانی نہیں بلکہ راست بازی ہے وہ لوگ ٹیکس نہ لینے والے ملازمین کی شکایت کرتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں ٹیکس نہ لینے والوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ملک کا ہر طبقہ پوری طرح حکومت کو ٹیکس دے تو آدھے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کے لئے شرط ہے حکمران ایماندار ہوں بڑی بڑی جائیدادیں اور شوگر ملیں نہ لگانے والے ہوں تو ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے۔ جس طرح عالمی مالیاتی ادارے نے مراعات یافتہ طبقہ کو ٹیکس میں چھوٹ دینے سے منع کیا ہے اگر حکومت نے صد ق دل سے اشرافیہ سے ٹیکس لینے کی طرف پیش رفت کی تو ہمیں یقین ہے آئندہ مالی سال میں ٹیکس کا ہدف گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر ہو جائے گا۔ حکومت کو ٹیکس دینے کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں سمینار کا انعقاد کرکے انہیں باآور کرایا جائے وہ ٹیکس نہیں دیں گے تو انہیں جیلوں میں رکھا جائے گا۔ ٹیکس دیں گے تو ہمارا ملک ترقی کرے گا لیکن اس کام کا آغاز حکومت میں موجود اشرافیہ کو کرنا چاہیے۔ جن لوگوں نے شوگر ملیں اور بڑے بڑے کارخانے لگائے ہوئے ہیں ان سے ٹیکس لینے کے لئے سخت ترین اقدامات کا آغاز بہت ضروری ہے۔ اس وقت ملک کی جو معاشی حالت ہے ہمیں قومی اثاثے آئوٹ سورس کرنے پڑ رہے ہیں جس سے ملک کی معاشی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت ا س امر کی حکومتی اخراجات میں زیادہ سے زیادہ کمی لائی جائے۔ اشرافیہ سے ٹیکس وصولی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔ وزراء اور ارکان پارلیمنٹ سے پورا پورا ٹیکس وصول کیا جائے انہیں پارلیمنٹ کے اندر جو سہولتیں میسر ہیں ان پر سبسڈی کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ تاجروں سے بلاتفریق ٹیکس وصول کیا جائے اور ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس کی وصولی تک جیلوں میں رکھا جائے تو ملک کے معاشی حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔

جواب دیں

Back to top button