Column

دو سیاسی فلمیں مقابل

تحریر : سیدہ عنبرین
نئی فلموں کیلئے عموماً عیدین کا انتظار کیا جاتا ہے، خوشی کے یہ موقعے فاصلے پر ہوں تو پھر موسم کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ سرکٹ خالی پڑا ہو تو یہ دن بھی نئی فلم کی ریلیز موزوں تصور کئے جاتے ہیں کسی ایک فلم کی کاسٹ میوزک، گانے، کہانی نہایت اعلیٰ ہو تو اس کے مقابل فلم ریلیز کرنے کو رسک سمجھا جاتا ہے لیکن کاروباری مخاصمت ہو تو ہر بات کو نظر انداز کر کے کسی بھی فلم کے سامنے نئی فلم جڑ دی جاتی ہے مقصد اپنی فلم کو کامیاب بنانا کم مخالف کی فلم کا بزنس تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے ان دنوں ایسا ہی ہوا۔ عید تھی نہ کوئی تہوار موسم بھی زیادہ سازگار نہ تھا، عوامی پروڈکشن کی فلم تیار پڑی تھی میدان خالی تھا لہٰذا ریلیز کر دی گئی فلم کے تمام لوازمات پورے تھے ریلیز تو آزاد کشمیر میں ہوئی لیکن اس کی دھوم پورے پاکستان کے کونے کونے تک جا پہنچی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری سے درخواست کی گئی کہ اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کریں۔ حکومت پاکستان کی تشویش بھی گہری تھی اسے فکر لاحق ہوئی کہ اگر اس کے کچھ پرنٹ سندھ اور پنجاب میں پہنچ گئے تو رش کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔موضوع بڑھتی ہوئی مہنگائی خصوصاً یوٹیلیٹی بلوں میں ہوشربا اضافہ تھا بجلی بنتی تو پانی اور ڈیزل سے ہے لیکن اس نے ہر گھر میں آگ لگا دی ہے دوسرا جائز ترین مطالبہ یہ تھا کہ حکومت اشرافیہ اور بیوروکریسی کی مراعات جو اب لوٹ مار کی حدود میں داخل ہوچکی ہیں انہیں فی الفور ختم کیا جائے گا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے تاثر دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی فرمائش ہے جبکہ آئی ایم ایف کی طرف سے اس حوالے سے وضاحت آ چکی ہے۔ مراعات کا خاتمہ، سرکار اور اس کے کل پرزوں کو منظور نہیں پس جو اس کی بات کرے گا وہ غدار وطن ہو گا۔ وہ دہشت گرد ہو گا اس کیخلاف مقدمہ بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہو گا جبکہ حقیقی دہشت گرد ملکوں شخصیات اور ان کے نمائندوں کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانا، کاروبار کرنا محب وطن ہونے کی بڑی نشانی اور پاکستان کے اہم ترین قومی اثاثوں کو فروخت کرنا عظیم قومی خدمت اور فیشن ہے یہ فیشن اس وقت آیا جب کاروباری شخصیات میدان سیاست میں آئیں اب ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا ، کاروباری ادارے چلانا نہیں انہیں فروخت کیا جائے گا تو خریدار کاروباری طبقہ ہو گا منفعت مختلف خاندانوں میں جائے گی اس سے قبل منافع بخش اداروں کو اس لئے تباہ کیا گیا کہ انہیں فروخت کرنے کا جواز پیش کیا جا سکے۔ بجلی ترسیل کمپنیوں کی غلط بلنگ لوٹ مار کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل سامنے آ چکا ہے جس کے مطابق 83کروڑ یونٹ کے زائد بل بنائے گئے لیکن اصرار سرکار ہے کہ اس پر احتجاج بھی نہ کیا جائے۔
دن دیہاڑے لٹنے والے مظفر آباد میں سڑکوں پر آ گئے جس کے فلم کلپس میں دیکھا گیا کہ ان پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کی پتلونیں اتروا لی گئیں اور تشدد کے احکامات جاری کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کے کپڑے اتروا کر اسے بنیان اور چڈی میں رخصت کیا گیا سوشل میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز کے کلپ میں سرکاری گاڑیاں جلتی نظر آئیں۔ جو پولیس اہلکار عوام کے ہتھے چڑھ گئے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو پولیس مظاہرین کے ساتھ کرنے کی عادی ہے اسی طرح پولیس نے بھی تشدد کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے یوں محسوس ہوا جیسے ایک اور ’’ ماڈل ٹائون‘‘ وقوع پذیر ہو رہا ہو، عوامی احتجاج میں شریک ایک نوجوان بھاگتا نظر آیا پولیس کا جتھہ اس کے پیچھے تھا نوجوان نے پولیس تشدد سے بچنے کیلئے دریا پر بنے پل کے جنگلے سے لٹک کر جان بچانے کی کوششیں کی اسی کوشش میں وہ دریا میں جا گرا پانی کی تیز لہروں نے اسے ابھرنے کا موقع نہ دیا، عجیب سر پھرا نوجوان تھا پولیس کی لاٹھیوں سے اپنی ہڈیاں تڑوا لیتا، اپنی مائیں بہنیں ضعیف والد کو گرفتار کرا لیتا اپنے سامنے ان کی چھترول کے منظر دیکھ لیتا اور اپنی قسمت میں لکھا دہشت گردی کا پرچہ بھگت لیتا اس مقدمے کیلئے زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا اسے اپنا گھر بیچنا پڑ جاتا رشوت دینے کیلئے قرض اٹھانا پڑ جاتا لیکن اس کی جان تو بچ جاتی، مہنگائی کی چکی میں پسنے والوں اور سرکاری ڈکیتوں کا نشانہ بننے والوں کو اس نوجوان کی شکل میں پہلا شہید مل گیا ہے امکان تھا کہ سلسلہ شہادت ملک کے دیگر شہروں تک پھیل سکتا ہے لہٰذا حفظ ماتقدم کے طور پر یہی مناسب سمجھا گیا کہ مقابل ایک اور فلم لگا دی جائے جو عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لے یوں ’’ دبئی پروڈکشنز‘‘ کی ایک فلم کو عجلت میں نمائش کیلئے پیش کیا گیا ہے فلم کا نام اور ٹائٹل بدلا گیا ہے فلم بینوں کی ایک بڑی تعداد اس کی طرف لپکی ہے لیکن پہلے دن کے تینوں شوز تو ہائوس فل رہے لیکن اگلے روز جن کا خیال تھا کہ فلم کے ٹکٹ بلیک میں بکیں گے انہیں سخت مایوسی ہوئی کچھ لوگوں نے ایڈوانس بکنگ کرا لی تھی جب پہلے دن کے آخری شو کے بعد فلم بین ہال سے باہر آئے تو ایک شور برپا تھا، فلم ڈبہ ہے ڈبہ ہے اس فلم میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ سب کچھ فلم ’’ پانامہ لیکس‘‘ میں موجود تھا، فلم کی کہانی جاندار تھی سسپنس بھی تھا کرائم بھی بہت بڑا تھا لیکن فلم کا وائنڈ اپ متاثر کن نہ تھا جو بات فلم ’’ پانامہ لیکس‘‘ کی ناکامی کی وجہ بنی وہی معاملہ نئی فلم کے ساتھ ہوا، فلم تو بن گئی مارکیٹ میں لگ گئی لیکن کمزور ترین پرفارمنس کے سبب اپنی موت آپ مر گئی۔
بعض فلمیں طویل دورانیے کی اور بعض کم دورانیے کی ہوتی ہیں۔ ’’ دبئی پروڈکشنز‘] کی فلم کم دورانیے کی فلم تھی ساڑھے تین گھنٹے پورے کرنے کیلئے کئی سائیڈ پروگرام چلائے گئے جن میں ہسپتالوں کے وزٹ، غریب عورتوں کی ریلیز پر دوائی، مفت وائی فائی سنٹر کے قیام کا اعلان، 15روپے کی روٹی، 20روپے کا نان، پولیس کے سپاہی کی وردی اور افسر کی ٹوپی، 5سو روپے سے 8سو تک کا سوٹ، تنوروں کی چیکنگ، طے شدہ چھاپے اور ایسے ہی کئی دوسرے پروگرام ان کے بعد انٹرول کر دیا گیا۔ بعد از انٹرول فلم اصل فلم شروع ہوئی تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عوام کی بوریت بڑھنے لگی فلم ختم ہونے تک عوامی غصہ اپنی انتہا تک پہنچ چکا تھا، سکرین پر ختم شد نظر آنے سے قبل ہی فلم بینوں نے سیٹوں سے فوم اکھاڑ لیا۔ کرسیاں نذر آتش ہونے ہی والی تھیں کہ ساری بتیاں بند کر دی گئیں۔ بہانہ لوڈ شیڈنگ کا تھا لیکن مقصد آگ سے بچنا تھا جو آج نہیں لو کل لگے گی شاید بجھائے نہ بجھے گی۔
فلم بینی کا زوق اور شوق رکھنے والے فلم بینوں کا کہنا ہے عوام کی ایک بڑی تعداد ایک مرتبہ پھر عوامی پروڈکشنز کی تیار کردہ فلم کا رخ کرے گی اس پروڈکشن ہائوس میں ایک طویل دورانیے کی فلم تیار ہو رہی ہے جس میں کوئی سائیڈ پروگرام نہیں دکھایا جائے گا سینما کی بتیاں بجھتے ہی اصل فلم شروع ہو جائے گی فلم کی طوالت کے باعث انٹرول بھی نہیں ہو گا۔ یہ فلم عیدالاضحیٰ کے بعد بجٹ ایام میں پیش کی جائے گی اسے بیک وقت کسی ایک سرکٹ کی بجائے پورے ملک میں ریلیز کیا جائے گا فلم کی تیاریاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے فلمساز کو اس سے قبل بنا لی گئی فلموں میں جو نقصان ہوا ہے وہ اس فلم میں پورا ہو جائے گا بعض اوقات ایک فلم کی کمائی سے نیا سینما بنایا جا سکتا ہے اس کے بعد موجاں ہی موجاں۔

جواب دیں

Back to top button