معافی تو مانگنی پڑے گی

تحریر : عبد الحنان راجہ
سگمیڈ فرائیڈ نے کہا تھا کہ اولاد کے لیے دنیا میں باپ کے ہونے کے احساس سے قیمتی کوئی شے نہیں۔ آداب فرزندی سے بے بہرہ اسد قیصر کو کیا خبر کہ کس طرح بیٹا باپ کے خواب پر سر تسلیم خم اور اپنی جان پیش کر دیتا ہے۔ اقبالؒ نے اسی لیے تو کہا تھا
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اب موصوف کی جاہلانہ گفتگو کے بعد فیضان نظر کا گمان تو ممکن نہیں، رہی مکتب کی کرامات تو وہ عشروں قبل انگریزی نظام تعلیم نے ختم کر دی یہ اسی کا نتیجہ ہی تو ہے جو آداب و اخلاق سے بے بہرہ ناہنجار سیاسی قائدین جنم لینے لگے۔ میری نظر میں اسد قیصر دھیمے مزاج کے مخلص سیاسی کارکن، باوقار سیاست دان اور معتدل شخصیت رہے کہ اس جماعت کے اندر ایسے وضح دار رہنمائوں کا ہونا غنیمت۔ مگر انکے ایک جملے نے خوش گمانی کا زعم توڑ ڈالا ۔ علم نہ تھا کہ والد جیسی مقدس و محترم ہستی کہ جس کا حیا اللہ اور اس کے رسولٌ بھی کرتے ہیں، کی شان کو وہ اپنی جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھا دیں گے، اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسا کچھ کہہ دیں گے۔ اگر ضمیر کا کوئی گوشہ بھی زندہ ہوا تو تادم مرگ اسد قیصر کو مضطرب، پریشاں، شرمندہ اور بے چین رکھے گا۔ ناصر چشتی نے لفظ باپ کے حروف کی کیا تطبیق کی، ب برکت و بزرگی، الف اصل و ایثار، پ پیار۔ یہ سب محسوس کرنے کے بعد بھی وہ بھول گئے باپ کی وفائوں کو ادائوں کو اور بیٹے کے لیے سہنے والی جفائوں کو۔ باپ تو اپنا درد اولاد کو بتا سکتا ہے نہ کرب، بلک وہ اسے سینے میں دبائے قبر تک جا پہنچتا ہے کہ اس کی انا اور غیرت اس کے اظہار کی رکاوٹ، مگر وہ جیتے جی زندہ درگو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی اسد یا قیصر باپ کی تقدیس کو اپنے جرم پر قربان کر دے۔ حیراں ہوں کہ وہ کون سا لمحہ تھا یا سابق سپیکر قومی اسمبلی کی بد نصیبی کہ منہ سے ایسا جملہ نکلا کہ عمر بھر کا پچھتاوا مگر شاید انہیں نہ
ہو کہ غلط بات اور غلط کام پر اکڑ جانا، ڈٹ جانا اب انکی سرشت میں شامل. گرچہ اپنے ہم جماعتی ساتھیوں کے برعکس وہ مرنج مرنجاں، معتدل اور وضح دار، مگر ٹاک شو میں 9مئی کے واقعہ پر اظہار ندامت و شرمندگی کے وہ ایسے ڈٹے کہ باپ جیسے محترم رشتے کے تقدس کو رگید ڈالا۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد ان کے محبین کتنی وضاحتیں گھڑیں گے، کیا عالمانہ موشگافیوں بکھیریں گے اور کیسے فلسفے۔ لکھنے والے کو کتنا کوسا جائے گا، مگر پروا نہیں کہ دل آزردہ اور معاشرتی زوال پر رنجیدہ۔ کارگاہ حیات میں طے ہے کہ باپ کی بے حرمتی کرنے والا کبھی عزت پاتا ہے نہ سکھ کہ باپ کی رضا میں رب کی رضا، مگر سوچتا ہوں کہ زندگی کی پچاس سے زائد بہاریں دیکھ، اہم ترین عہدے پر فائز رہ اور قومی سیاست کے مرکزی کردار کے اخلاق کا حال یہ ہے تو باقی کے احوال کا عالم بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور اس کے مظاہر ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں ہونے والی گفتگو میں آئے روز دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہماری اقدار جس تیزی سے زوال پذیر ہوتی جا رہی ہیں انہیں درست کئے بغیر دنیا بھر کا سرمایہ اور ٹیکنالوجی بھی ہمارے لیے سود مند اور با برکت ثابت نہیں ہو سکتے۔ زمانہ بدلا، اقدار و روایات مگر اسد قیصر بھی تو اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں کہ جو والد تو بہت دور کی بات گائوں اور محلے کے بزرگ کے سامنے سر نہیں اٹھاتے تھے۔ مگر اب انہیں کیا ہو گیا کہ دیدہ دلیری سے وہ الفاظ کہہ ڈالے کہ جس کا تصور بھی باوفا اور باحیا اولاد نہیں کر سکتی۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ شاید اسد کو وہ شعور آ گیا کہ جس کا ہر سو چرچا۔ اسی لیے تو انہوں نے اتنی بڑی بات بلا جھجک کہہ ڈالی اور ان جیسے دیگر شعور والوں کے لیے بھی یہ معمولی ہی ہو مگر ہم جیسے لاکھوں نہیں کروڑوں بے شعوروں کو اور اچھے وقتوں کی اقدار کے اسیروں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ با ادب اور نیک بخت اولاد باپ کی قربانیاں نہیں بھولتی کہ وہ ہر وقت اس کے لامحدود احسانات تلے دبی رہتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ بے ادب اور بدبخت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ آقا کریمؐ کا فرمان ہے کہ باپ کا نافرمان میرا امتی نہیں ہو سکتا۔ تو پھر اسد قیصر صاحب معافی تو مانگنی پڑے گی پہلے باپ سے پھر رب سے اور پھر ان کروڑوں بیٹے بیٹیوں سے کہ جن کے دل آپ کی بات سے آزردہ۔
عہد رسالت مآبؐ میں باپ کی شکایت پر صحابی کے والد کے اشعار کہ جنہیں سن کر آقاؐ کی چشمان مقدس بھی تر ہوگئیں۔ چند اشعار کا ترجمہ اسد قیصر کی نذر:
’’ اے میرے بیٹے میں نے تیرے لیے اپنا سب کچھ لگا دیا، جب تو گود میں تھا تو اس وقت بھی میں تیرے لیے پریشان تھا۔ سارا دن تیرے لیے خاک چھانتا اور روزی کماتا تھا، اپنی جوانی کو گرمی اور خزاں کے تھپیڑوں سے پٹواتا تھا۔ اس طرح تجھے پروان چڑھایا اور خود بڑھاپے کا شکار ہو گیا، لیکن تیری آنکھ بدل گئی، تیور بدل گئے اور لہجہ بدل گیا، مجھے ہوں لگا کہ میں تیرے گھر کا نوکر ہوں۔ اگر تو مجھی بیٹا بن کر نہیں دکھا سکا اور باپ کا مقام نہ دے سکا، تو کم از کم پڑوسی جتنا مقام تو دے کہ پڑوسی بھی پڑوسی کا حال پوچھتا ہے مگر تو بخل کی باتیں کرتا ہے ‘‘۔
یقین جانیئے کہ عربی اشعار کا یہ ترجمہ لکھتے لکھتے آنکھیں نمناک تھیں کہ چشم تصور میں رحمت عالمؐ کی چشمان مقدس کے آنسو۔