کشمیر میں تاخیر کیوں ہوئی ؟
تحریر : علی حسن
جو فیصلے 13مئی کو کئے گئے اور جو سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کئے گئے، کیا وہ آزاد کشمیر کے معاملے میں پر تشدد احتجاج سے قبل جاری نہیں کئے جا سکتے تھے ؟ لوگوں کو یہ موقع کیوں دیا گیا کہ وہ کہیں کہ ’’ حق چھین کر لیا جاتا ہے ، جس کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے‘‘۔ حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے آٹے کی فی من قیمت میں 1100روپے کمی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا کیا گیا۔ 20کلو آٹے کی قیمت ایک ہزار روپے کردی گئی۔ حکومت کی جانب سے بجلی کے ٹیرف میں بھی کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ۔ گھریلو صارفین کے لیے 100یونٹ تک بجلی کے نرخ 3روپے فی یونٹ، 100سے 300یونٹ تک 5روپے فی یونٹ جبکہ 300سے زائد یونٹ کے لیے 6روپے فی یونٹ نرخ مقرر کیے گئے۔ کمرشل صارفین کے لیے 300یونٹ تک 10روپے فی یونٹ جبکہ 300سے زائد یونٹ کے لیے 15روپے فی یونٹ ریٹ مقرر کردیا گیا ہے۔ لوگوں کے مطالبات کے بعد احتجاج کے لئے پروگرام کے اعلان کے بعد آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے تھے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق جبکہ 5افراد زخمی ہوگئے جبکہ ورثا نے سی ایم ایچ کے باہر لاشیں رکھ کر دھرنا دیا تھا۔ حکومت کی طرف سے سہولتوں کے اعلان کے بعد زندگی چند گھنٹوں کے لیے بحال ہوئی لیکن پھر اچانک شہر میں ایک بار پھر ہنگامے پھوٹ پڑے اور چھتر چوک میدان جنگ بن گیا تھا۔ جس کے بعد مظفر آباد میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی تھی ۔ قانون ساز اسمبلی کے باہر مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا تھا۔ پتھرائو اور فائرنگ سے 2افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ 5افراد زخمی بھی ہوگئے تھے۔ جس کے بعد حالات مزید خراب ہوئے، مظاہرین نے 2ایمبولینسز سمیت 4گاڑیوں کو آگ بھی لگادی ۔
مظفر آباد پہنچنے والے قافلے عید گاہ گرائونڈ میں جمع ہونے شروع ہوگئے۔ ترجمان نے مذاکرات کامیابی کی خبر کی تردید کر دی ہے۔ ہمارے کوئی مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ جب تک ہمارے تینوں مطالبہ قبول نہیں ہوتے احتجاج جاری رہے گا۔ پہلے تین مطالبات پیداواری لاگت پر بجلی گلگت کے پر آٹے کی فراہمی اور اشرافیہ کی مراعات میں کمی ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر ابھی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا تو کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ احتجاجی تحریک میں جاں بحق ہونے والے تینوں شہریوں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہریوں نے بازار اور دکانیں کھولنا شروع کر دیں۔ پْر تشدد احتجاج پر وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اعلیٰ سطح کا اہم اجلاس طلب کیا تھا جس میں صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود، وزیر اعظم انوار الحق اور دیگر رہنما شریک ہوئے تھے۔ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے احتجاج کے بعد آزاد کشمیر کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 23ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دے دی تھی۔ تیسرے اہم مطالبے پر کہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کی جائیں، حکومت نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق افسران کی مراعات میں کمی کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمیشن بیوروکریسی اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کو حاصل مراعات کا جائزہ لے گا، کمیشن کے سربراہ اور ارکان کی نامزدگی چیف جسٹس ہائی کورٹ کی منظوری سے ہو گی، جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔ اسی کمیشن کے دائرہ اختیار کو بڑھا کر پاکستان میں بھی حکمران طبقہ کے علاوہ اعلیٰ سرکاری افسران کو دی جانے والی سہولتوں ، مراعات اور دیگر مفادات کا جائزہ لیا جائے اور ان کے مالی لحاظ سے معیشت پر اثرات کا تخمینہ بھی لگایا جائے۔
حیران کن امر ہے کہ وفاقی حکومت کے ذمہ دار افسران کو کشمیر کی حساس حیثیت کو احساس کیوں نہیں ذہن میں رہتا ہے۔ افسران کو بہت محتاط طریقے سے کشمیری مطالبات پر قدم بڑھانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کوٹلی سے مظفر آباد تک پہاڑی علاقوں کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ ماضی میں بھی بعض موقعوں پر آزاد کشمیر حکومت کے وفاقی حکومت تعلقات کشیدہ ہوتے رہے ہیں لیکن وفاقی حکومت کے ذمہ داران نے صورتحال کو خراب ہونے سے بچایا تھا ۔ لیکن جو کچھ اب ہوا ہے وہ پہلی بار ہوا ہے۔ جو بہت برا ہوا ہے۔ یہ مطالبات صورتحال کشیدہ ہونے سے قبل ہی قابو میں لائی جا سکتی تھی بجائے اس کے کہ عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکا ر ہوتے۔ آزاد کشمیر کی نوعیت اور حیثیت کراچی ، کوئٹہ اور دیگر زہروں کے بر عکس ہے۔ کشمیر کو لاٹھی اور گولی سے نمٹانے کی کوشش کرنا کسی حل کی بجائے طویل عرصے تک مشکلات ہی پیدا کرتا رہے گا۔ بھارت کی در اندازی کے امکانات کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بھارت تو اس تاک میں ہی بیٹھا رہتا ہے کہ آزاد کشمیر میں حالات کسی طور پر خراب ہوں تو وہ مداخلت کا موقع استعمال کرے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ جو افسران کوتاہی کی وجہ بنے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے۔ وفاقی حکومت نے تو ابھی پوری طرح 2005ء میں کشمیر میں آنے والے زلزلہ سے ہونے والے نقصانات کو ازالہ ہی نہیں کیا ہے اور متاثرہ علاقوں اور افراد کی مکمل بحالی کا کام بھی ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہی ہے ۔ اسے فوری طور پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔