پیغامِ حسینؓ آج بھی ایک روشن مینار کی حیثیت ہے

پیغامِ حسینؓ آج بھی ایک روشن مینار کی حیثیت ہے
تحریر : ایم قاروق قمر
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام عالی مقام کی شہادت ایک ایسا المناک اور درد انگیز واقعہ تھا کہ اُمت صدیوں سے آنسو بہانے کے باوجود اُن کی شہادت پر آج بھی افسردہ اور غم ناک ہے۔ سیکڑوں برس گزر جانے کے باوجود یہ زخم، غم اور واقعہ تازہ ہے۔۔۔ ابو الکلام آزاد کے بقول امام حسین ؓ کے جسم خونچگاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم الم کا سیلاب بہا چکی ہے، شہادت امام حسین ؓ اُمت مسلمہ کے لئے ایک عظیم درس ہے۔ اسلام میں شہدائے حق کا سلسلہ طویل اور دراز تر ہے، لیکن معرکہ حق وباطل اور دنیائے شہداء میں حضرت امام حسینؓ کا مرتبہ و مقام کئی اعتبار سے ممتاز اور نمایاں ترین ہے۔ امام عالی مقام نے اپنی سپاہ کا بیشتر حصہ میدان کربلا میں راہ حق میں شہید کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے بیشتر مرد وزن اپنی آنکھوں کے سامنے دین کی سربلندی کی خاطر قربان کر دیئے اور خود دشمن کی صفوں کو تن تنہا چیرتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑے۔ امام جواں مردی اور بہادری سے لڑتا ہوا دین اسلام اور شعائر اسلام کی سر بلندی کے لئے بڑے عزم و استقلال سے جام شہادت نوش کر گیا۔ شہید ان حق اور فدائیان اسلام ہمیشہ معرکہ حق و باطل میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ اسلام کی سر بلندی نگاہ حق پرست میں جان سے عزیز اور اہم تر ہوتی ہے۔ حضرت امام حسینؓ کا شہادت میں بھی عظیم رتبہ ہے، سید الشہداء کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی قربانی جتنی عظیم ہے اتنی لازوال بھی ہے۔ مقتولین فی سبیل اللہ کے لیے شہید کا لفظ قرآن کریم کی سورہ النساء آیت نمبر 96میں آیا ہے، مقتولین فی سبیل اللہ کو چونکہ زندہ و جاوید تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے شہید کے نام سے پکارا جاتا ہے، سورہ بقرہ میں ارشاد ہے ’’ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے‘‘۔ ( البقرہ :651)
شمشیر بکف قاتل ہو کھڑا اور کوئی رہے سجدے میں پڑا
کہتی ہے زمین کرب وبلا اس شان کا سجدہ کھیل نہیں
سیدنا حضرت امام حسینؓ نے اپنا سر تو کٹوا دیا ، مگر باطل کے آگے نہ جھکایا، آپؓ نے اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کے خونِ مقدس سے دینِ اسلام کے شجرِ بے مثال کی آبیاری فرمائی اور امتِ مسلمہ کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دینِ اسلام کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور تسلیمِ صبر و رضا کے پیکر امام حسینؓ نے یہ بھی بتایا کہ ’’ زندگی‘‘ در اصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں سے صبر و رضا کے ساتھ گزرنے کا نام ہے آج ہم سیدنا حضرت امام حسینؓ سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں، مگر ہم نے آپؓ کی تعلیمات اور فکرِ حریت کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ معمولی سی پریشانی اور مشکل آجائے، تو سہی نہیں جاتی، اور پروردگارِ عالم کے ہاں شکوئوں، شکائتوں کے انبار لگا دیتے ہیں، اور اس بات پر کبھی غور ہی نہیں کیا کہ ہم کس قدر ’’ حقِ بندگی‘‘ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امتحان تو ہر مسلمان پر آتا ہے۔ کبھی بیماری کی صورت میں، تو کبھی بے روزگاری اور معاشی تنگی کی شکل میں، کبھی اپنے تو کبھی بیگانے جان کے درپے ہو جاتے ہیں، کبھی بے اولادی کی فکر ستاتی ہے۔ کبھی انسان نافرمان اولاد کے غم میں مبتلا ہو جاتا ہے تو کبھی اسلام کی اصل روح سے نا آشنا ہمسائے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ آج امتِ مسلمہ اور بالخصوص وطنِ عزیز پاکستان میں بسنے والے لوگ دہشتگردی کے ناگہانی عذاب میں مبتلا ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے حق و باطل کی تمیز کرتے ہوئے کہ جھوٹے خدائوں اور آقائوں سے اپنا دامن چھڑائیں اور اپنا اپنا ’’ قبلہ‘‘ درست کرتے ہوئے، اتفاق و اتحاد، صبر و رضا اپنا کر دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہٗ وسلم تھام لیں کہ یہی پیغامِ امام حسینؓ ہے۔ پیغامِ حسینؓ سے مراد امام حسینؓ کی وہ تعلیمات اور پیغام ہے جو انہوں نے واقعہ کربلا میں شہادت پا کر دیا۔ یہ پیغام حق، انصاف، اور مظلومیت کے خلاف جدوجہد کا پیغام ہے۔ امام حسینؓ کا یہ پیغام آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے اور ظلم و جبر کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین کرتا ہے۔ امام حسینؓ نے ہمیشہ حق اور سچائی کا ساتھ دیا اور یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے ظالم حکمران کے سامنے ڈٹ کر مظلوموں کی حمایت کی اور شہادت کو ترجیح دی، لیکن جھکنا قبول نہیں کیا۔ امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی عزت و ناموس کی حفاظت کی اور کسی بھی طرح کے ذلت آمیز سمجھوتے کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پیروی کی اور اپنے کردار سے دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ پیغامِ حسینؓ آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے، اور انہیں حق و انصاف کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔