تاخیر کا انصاف یا انصاف کی تاخیر؟؟

تاخیر کا انصاف یا انصاف کی تاخیر؟؟
تحریر : عقیل انجم اعوان
اس ملک میں انصاف ایک ایسا خواب بن چکا ہے جو صرف غریبوں کے نصیب میں آتا ہے مگر تعبیر کے بغیر آتا ہے خواب میں دکھایا جاتا ہے کہ ہر انسان قانون کے سامنے برابر ہے عدالتیں سب کے لیے کھلی ہیں اور جج صاحبان آئین اور قانون کی روشنی میں فیصلے کرتے ہیں مگر جب یہ خواب کھلتا ہے تو حقیقت بہت مختلف نظر آتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ عدالتوں کے دروازے سب کے لیے تو کھلے ہیں مگر وہ دروازے صرف طاقتور کے لیے جلد کھلتے ہیں اور غریب کو ان دروازوں تک پہنچنے کے لیے اپنی زندگی کے قیمتی برس قربان کرنا پڑتے ہیں۔
پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو ہمارے سامنے عریاں کر دیا کہ اس ملک میں انصاف کی تاخیر صرف ایک تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایک سزائے موت کے قیدی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے جو ریمارکس دئیے وہ اس پورے عدالتی نظام کے لیے ایک چبھتا ہوا سوال ہیں۔ ایک ایسا سوال جو برسوں سے سرگوشی میں پوچھا جا رہا تھا مگر اب وہ سرگوشی عدالت عظمیٰ کے کمرہ عدالت میں گونج بن کر ابھری ہے اس کیس میں ایک نوجوان پر قتل کا الزام لگا اسے گرفتار کیا گیا اس پر مقدمہ چلا اور پھر برسوں تک اس کی اپیلیں عدالتوں میں زیر التوا رہیں وہ نوجوان جیل کی کوٹھری میں قید رہا دن رات ایک جیسے گزرتے رہے وہ ہر سماعت پر یہ امید لے کر آتا کہ شاید آج کوئی فیصلہ ہو جائے مگر ہر بار اسے صرف ایک نئی تاریخ دی جاتی رہی وہ تاریخ جو اس کی زندگی کے کیلنڈر سے قیمتی دن چھینتی رہی اور آخرکار پچیس برس بعد جب سپریم کورٹ میں اس کا مقدمہ سنا گیا تو عدالت نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ یہ فیصلہ اپنی جگہ پر قانونی تھا مگر جو سوال عدالت نے اپنے ریمارکس میں اٹھایا وہ قانونی سے زیادہ اخلاقی تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ہم انصاف میں تاخیر کرتے ہیں تو یہ تاخیر خود ایک ناانصافی بن جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت فیصلے کرے تاکہ کسی بے گناہ کو طویل قید کی اذیت نہ سہنی پڑے ان کے یہ الفاظ محض ایک قیدی کے لیے نہیں تھے بلکہ وہ ہزاروں ان گنت غریبوں کے لیے تھے جو برسوں سے جیلوں میں بند ہیں اور ان کے مقدمات سماعت کے انتظار میں دھول کھا رہے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ انصاف کی تاخیر محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ اس تاخیر کے پیچھے ایک پورا نظام کارفرما ہے جس میں کمزور کی فریاد سنی نہیں جاتی اور طاقتور کے لیے قانون کے در جھکائے جاتے ہیں۔ ایک وزیر کی ضمانت کے لیے عدالت رات کے اندھیرے میں بھی کھل سکتی ہے مگر ایک مزدور کے مقدمے کی سماعت کے لیے سالوں دروازے نہیں کھلتے اسے ہر بار صرف تاریخ ملتی ہے اور وہ تاریخ ایک دن زندگی کی آخری تاریخ بن جاتی ہے۔ یہ صرف عدالتوں کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام انصاف کی کمزوری ہے یہاں پولیس کی تفتیش جانبدارانہ ہے یہاں وکلا کی فیس غریب کے بس سے باہر ہے یہاں استغاثہ کی تیاری ناقص ہے اور ججوں پر سیاسی دباؤ بھی موجود ہوتا ہے۔ ان سب عوامل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک غریب جب عدالت جاتا ہے تو وہ انصاف کی تلاش میں اپنی جوانی قربان کر دیتا ہے اور جب فیصلہ آتا ہے تو وہ یا تو قبر میں ہوتا ہے یا اس کی آنکھوں سے خواب کا رنگ رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف صرف فیصلے کا نام نہیں بلکہ انصاف وہ ہوتا ہے جو وقت پر ملے کیونکہ تاخیر سے آیا ہوا انصاف ظلم بن جاتا ہے یہ کوئی نیا جملہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ Justice delayed is justice denied یعنی انصاف میں تاخیر انصاف کا انکار ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں یہ اصول صرف تقریروں اور تحریروں تک محدود ہو چکا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس اطہر من اللہ کا یہ فیصلہ ایک مثال بنے گا یا یہ بھی دیگر فیصلوں کی طرح وقت کے ساتھ فراموش کر دیا جائے گا۔ کیا ہم اپنی عدالتوں میں ایسی اصلاحات کریں گے کہ آئندہ کسی بے گناہ کو برسوں جیل میں نہ رہنا پڑے کیا ہم اپنے نظام کو اتنا طاقتور بنائیں گے کہ انصاف جلد اور شفاف طریقے سے ہو یا ہم بس چند دن سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر تبصرے کریں گے اور پھر اگلے المیے کا انتظار کریں گے۔ اس ملک میں ایسے ہزاروں قیدی موجود ہیں جن کے مقدمات کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا، کچھ ایسے بھی ہیں جو سزا مکمل کرنے کے بعد بھی جیلوں میں پڑے ہیں کیونکہ ان کی رہائی کے کاغذات مکمل نہیں ہو سکے یا کسی نے ان کی ضمانت جمع نہیں کرائی۔ یہ وہ چہرے ہیں جو کسی ٹی وی اسکرین پر نہیں آتے ان کے لیے نہ کوئی جلسے ہوتے ہیں نہ کوئی ریلیاں نہ کوئی میڈیا مہم ان کے ساتھ صرف خاموشی ہوتی ہے اور وہ خاموشی ان کے حق کی چیخ بن کر جیل کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے۔ ہمیں اس سچائی کا سامنا کرنا ہو گا کہ جب تک غریب کے لیے عدالت کا دروازہ اتنی ہی آسانی سے نہیں کھلے گا جتنا طاقتور کے لیے کھلتا ہے تب تک ہم ایک مساوی اور منصفانہ معاشرہ نہیں کہلا سکتے۔ انصاف صرف وہ نہیں جو قانون کی کتاب میں لکھا ہو انصاف وہ ہے جو انسان کی زندگی میں نظر آئے اور اگر وہ زندگی جیل کی کوٹھری میں گزرتی رہے اور فیصلہ برسوں بعد آئے تو پھر وہ انصاف نہیں بلکہ اذیت ہے۔ پاکستان میں عدالتی اصلاحات کا نعرہ تو بہت پرانا ہی مگر اس پر عملدرآمد کبھی سنجیدگی سے نہیں ہوا ہم نے صرف عدالتوں کی عمارتیں بنائیں مقدمات کی تعداد بڑھتی گئی مگر ان کا فیصلہ کرنے والے ججز کی تعداد نہیں بڑھی۔ ہم نے ٹیکنالوجی کا نعرہ لگایا مگر آج بھی مقدمات کی فائلیں دفتروں میں بکھری پڑی ہیں اور اکثر وکلا پرانے مقدمات کی فائلیں عدالت میں لانا بھول جاتے ہیں یا نئی تاریخ کی درخواست دے کر کیس کو مزید لٹکا دیتے ہیں۔ اگر ہم واقعی انصاف کو سب کے لیے برابر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے تاخیر کے اس کلچر کو ختم کرنا ہو گا ہمیں عدالتوں میں ججز کی تعداد بڑھانی ہو گی ہمیں پولیس کی تفتیش کو غیر جانبدار بنانا ہو گا ہمیں سرکاری وکلا کو تربیت دینا ہو گی اور سب سے بڑھ کر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ انصاف کا ایک دن بھی قیمتی ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی کی پوری زندگی کا فیصلہ ہوتا ہے یہ فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ کا ہو یا کسی اور جج کا ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ جب ایک فیصلہ وقت پر آتا ہے تو وہ صرف ایک شخص کو رہائی نہیں دیتا بلکہ وہ پورے نظام میں امید پیدا کرتا ہے اس سے دوسرے قیدیوں کو بھی یہ پیغام ملتا ہے کہ شاید ایک دن ان کی بھی سنی جائے گی شاید ان کی خاموشی بھی کسی دن گونج بن کر عدالت کے دروازے تک پہنچ جائے گی اور اگر ہم نے یہ موقع بھی گنوا دیا اگر ہم نے اس فیصلے کو صرف ایک معمول کا فیصلہ سمجھ کر بھلا دیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کا عدالتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے گا اور جب قوم عدالت سے مایوس ہو جاتی ہے تو وہ انصاف سڑکوں پر ڈھونڈتی ہے اور سڑکوں پر کیا جانے والا انصاف ہمیشہ خونی ہوتا ہے۔ ہمیں اس خونی انجام سے بچنا ہے ہمیں اس نظام کو بچانا ہے ہمیں غریب کے آنسو کو فیصلہ بنانا ہے ہمیں انصاف کو تاخیر سے آزاد کرنا ہے اور اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو پھر آنے والے کل میں ہم سب اس تاخیر کے مجرم ہوں گے اور وہ وقت ہمیں بخشے گا نہیں کیونکہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی اور نہ ہی انصاف کا خون رائیگاں جاتا ہے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس فیصلے کو ایک تبدیلی کا آغاز بنائیں یا پھر اسے کمرہ عدالت کی دیواروں تک محدود رکھ کر اس ملک کے ہزاروں غریبوں کو خاموشی کی قبر میں دفن کرتے رہیں فیصلہ ہمیں کرنا ہے کیونکہ قانون صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ وہ چراغ ہوتا ہے جو اندھیرے میں جلایا جائے تو پورا قافلہ روشنی میں آ سکتا ہے اور اگر نہ جلایا جائے تو قافلہ اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے اور ایک دن مٹ جاتا ہے جیسے ہزاروں قافلے تاریخ میں مٹ چکے ہیں۔