5جولائی1977ء عالمی سامراج کی آئینی و جمہوری پاکستان کیخلاف سازش کا دن

5جولائی1977ء عالمی سامراج کی آئینی و جمہوری پاکستان کیخلاف سازش کا دن
تحریر : راجہ محمد علی منہاس
ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی عوام کے تو مقبول ترین سیاسی رہنما بن چکے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جنوبی ایشیاء اور عالمی سطح پر بھی اپنی خداداد قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے صف اول کے عالمی رہنمائوں میں شمار ہو رہے تھے امریکہ برطانیہ جرمنی فرانس سمیت وہ عرب ریاستوں کے سربراہان کی توجہ بڑی تیزی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے بھارت اور پاکستان دو ہمسائیہ ملک ہونے کے باوجود روایتی حریف ہی ہیں لیکن اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کا بھارت میں بھی طوطی بولتا تھا اور بھارتی سیاستدان بھٹو صاحب سے خائف رہتے تھے جیسے اب ان کے نواسے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی و جمہوری سوچ سے خوفزدہ ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وہ سیاسی عوامی اور جمہوری رہنماء تھے جنھوں نے اپنی پانچ سالہ حکومت کی مدت مکمل کی اور اپنے دور اقتدار میں بھٹو صاحب نے پاکستان اور پاکستانی عوام کی بہتری اجتماعی ترقی و خوشحالی ملکی سالمیت و وقار ملک و قوم کے دفاع و بقاء کے لیے گرانقدر تاریخی کارنامے سرانجام دئیے بھٹو صاحب نے بذات خود سندھ کے بڑے زمین دار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیشہ غریب کسانوں مزارعوں محنت کشوں مزدوروں مظلوموں اور محکوموں کے حقوق کی بات کی ہمیشہ ملک کے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی و ترجمانی کرتے رہےذوالفقار علی بھٹو نے اس سر زمین بے آئین کو متفقہ جمہوری اسلامی آئین دیا عدالتی و انتظامی اصلاحات اور زرعی اصلاحات کرتے ہوئے بے زمین کسانوں میں مفت زرعی زمینیں ملکیتی حقوق کے ساتھ انھیں دی گئیں چھوٹے کسانوں اور کاشتکاروں کو زرعی ضروریات کا سامان انتہائی کم نرخوں پر مہیا کیا گیا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کھیتی باڑی کرتے ہوئے ایسی فصلیں اگائیں جس سے ملک و قوم کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی فصلوں کو بیرونی ممالک میں فروخت کرتے ہوئے اچھا خاصا زرمبادلہ پاکستان لایا جا سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو تعلیم کی اہمیت اور افادیت سے بھی خوب واقف تھے اسی لیے انھوں نے ملک میں میٹرک تک مفت اور ہائیر سیکنڈری و گریجویشن تک معمولی تعلیمی اخراجات کا اعلان کیا بلکہ پیپلز اوپن یونیورسٹی جسے بعد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نام دیا گیا ہے بھٹو صاحب نے اسی مقصد کے لیے قائم کی تھی کی ملک کے متوسط طبقات کے لوگ اپنی اولادوں کو بھی بنیادی تعلیم دلوا سکیں تاکہ آگے چل کر غریب گھرانوں کے بچے بچیاں جہاں باعزت روزگار کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو آسانی سے پورا کر سکیں گے وہیں وہ اپنے علم و عمل فکر و شعور سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے میں بھی نمایاں کردار ادا کر سکیں گے۔
ریاست کی تعمیر و ترقی امن و خوشحالی کے لیے ملک کو اندرونی و بیرونی طور پہ مضبوط دفاعی نظام کی اشد ضرورت رہتی ہے اسی لیے بھٹو صاحب نے ملکی دفاعی نظام کو ہمیشہ کے لیے ناقابل تسخیر بنایا افواج پاکستان کی تمام دفاعی ضروریات کو پورا کرنا بھی بھٹو صاحب کا اہم کارنامہ ہے۔
آج کے دور میں جب پاکستانیوں کی تیسری یا چوتھی نسل امریکہ برطانیہ یورپ اور مڈل ایسٹ ممالک سے ہر مہینے کروڑوں روپے پاکستان میں اپنے اہل و عیال کو بھیج رہے ہیں اور وہ بہتر اور خوشحال زندگیاں گزار رہے ہیں تو یہ بھی ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ ہے جنھوں نے ان تمام ممالک سے پاکستان کے برادرانہ و دوستانہ تعلقات استوار کرتے ہوئے ان ممالک کے سربراہان کو اس بات کا احساس دلایا کہ وہ اگر پاکستان کے محنتی جفاکش دیانتدار اور لگن و جستجو سے کام کرنے والے افراد کو اپنے ممالک میں روزگار کے مواقع مہیا کریں گے تو ایسا کرنے سے دونوں طرف خوشحالی آنے اور ترقی کرنے کے زیادہ روشن امکانات موجود ہیں اور بھٹو صاحب کی یہ بات درست بھی ثابت ہوئی۔
5 جولائی1977ء پاکستان کی سیاسی جمہوری اور معاشی تاریخ کا سیاہ و تاریک دن ہونے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء کا بھی سیاہ و بدنما دن ہے کیونکہ اس روز بیرونی سامراجی و استعماری طاقتوں کے آلہ کاروں نے ایک الیکشن کو متنازعہ بنا کر عوام کی منتخب حکومت اور اس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کو غیر آئینی غیر جمہوری طریقے سے ختم نہیں کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تعمیر و ترقی سلامتی و بقاء امن و خوشحالی کی راہوں میں بھی بہت بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے تمام تر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے خلاف بنے انتخابی اتحاد پی این اے کے سربراہ مفتی محمود کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی تاکہ جو مسلxہ پیدا کیا جا رہا ہے اس کا سیاسی و آئینی حل باہمی گفتگو کرتے ہوئے جمہوری انداز میں ڈھونڈا جا سکے لیکن سازش کرنے والوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ہر صورت ختم کرنے کی ٹھان رکھی تھی اسی لیے حکومت مخالف احتجاج کو بڑے منظم انداز میں نظام مصطفیٰ تحریک میں تبدیل کیا گیا تاکہ اب تک جو لوگ حکومت مخالف احتجاج میں دلچسپی نہیں لے رہے انھیں مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے جذباتی طور پر اس تحریک کا حصہ بنایا جا سکے اور حکومت مخالف یا یوں کہیں کہ بھٹو مخالف قوتیں اس میں کامیاب بھی ہوئیں۔
تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناطے راقم یہ بات تو بخوبی سمجھ اور جان چکا ہے کہ جن قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لیے سازشیں رچیں انھیں دراصل بھٹو صاحب کی ذات سے شاید اتنا مسئلہ نہیں تھا جتنا کہ ان کے ملک و قوم کے لیے کیے جانے والے ان کے کاموں سے اختلاف یا نفرت تھی کیونکہ بھٹو صاحب بلاشبہ ایک انقلابی رہنماء تھے اور انھوں نے انتہائی قلیل دور حکومت میں ہنگامی و انقلابی بنیادوں پر ملکی تعمیر و ترقی کی راہوں کی سمت نہ صرف متعین کی بلکہ ملک و قوم کو ترقی خوشحالی امن و استحکام عزت و وقار کے راستے پر بڑی تیزی سے گامزن کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
آج کے دور میں جو افراد بالخصوص جو نوجوان سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں ذوالفقار علی بھٹو کو بطور سیاسی رہنماء ضرور پڑھنا اور سمجھنا چاہیے جب قارئین بھٹو صاحب کی سیاسی زندگی انکی ملک و قوم کی بہتری کے لیے کی گئی جدوجہد کا مطالعہ کریں گے تو انھیں بخوبی اس بات کا اندازہ ہو گا کہ جو طاقیتیں 5جولائی 1977ء میں پاکستان کی مخالف اور دشمن تھیں انہی کی نسلیں آج بھی پاکستان کی مخالفت اور دشمنی کو نبھا رہی ہیں کیونکہ جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو عالمی برادری میں باعزت باوقار اور نمایاں مقام دلانے میں کامیاب ہوئے تھے تو اب بھٹو صاحب کا نواسا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے وژن اور نظریات کے مطابق ایک مرتبہ پھر پاکستان مخالف قوتوں کو سر عام للکارتے ہوئے دھرتی کی سالمیت، بقائ، استحکام و ترقی امن و خوشحالی عزت و وقار اور برابری کی بات کر رہا ہے جسے دنیا نے سننے کے ساتھ ساتھ سراہا اور سمجھا بھی ہے۔
آخر میں صرف اتنا بتا دوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جو پانچ سالہ اقتدار ملا وہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھا نہ ہی مخمل کے بستر پہ بھٹو صاحب آرام کی نیند سوتے رہے بلکہ ان پانچ سال کی حکومت میں بھٹو صاحب کے اندرونی و بیرونی مخالفین ان کے خلاف منفی پراپیگنڈوں میں مصروف رہے تاکہ ان کی توجہ ملک و قوم کی فلاح و ترقی سے ہٹائی جا سکے لیکن بھٹو صاحب نے ان تمام سازشی عناصر کا بھی مقابلہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی لوگوں کو اندرون ملک اور بیرون ملک روزگار کے بے شمار مواقع مہیا کیے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹس کا حصول عام شہریوں کے لیے بھی آسان بنایا گیا زرعی اصلاحات کی گئیں ملک بھر میں سستا راشن خریداری ڈپو بنائے گئے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا کم آمدنی والے اور متوسط طبقات کے لوگوں کے لیے ملک بھر میں پیپلز کالونیوں کا قیام جن میں سے تین سے زائد ایسی سستی رہائشی کالونیاں آج بھی راولپنڈی میں موجود ہیں پیپلز اوپن یونیورسٹی قائداعظم انٹرنیشنل یونیورسٹی گومل یونیورسٹی چانڈ کا میڈیکل کالج راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سمیت سیکڑوں تعلیمی اداروں کا قیام بھٹو صاحب کے ہی عوامی دور حکومت میں ممکن ہو سکا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس اسلامی بلاک اور اسلامی بینک کا قیام فرانس کے تعاون سے کراچی میں ایٹمی بجلی گھر اور روس کے تعاون سے پاکستان اسٹیل ملز کا قیام چین کے اشتراک سے شاہراہ ریشم کی تعمیر عرب ممالک کے سربراہان سے اس قدر گہرے و برادرانہ تعلقات قائم کیے وہ بھٹو صاحب کی مشاورت کو اپنے ہر فیصلے میں اہمیت دیتے کشمیر کی خودمختاری اور آزاد ریاستی حیثیت کے قیام کی عملی کوششیں بھٹو صاحب کی اولین ترجیحات میں شامل رہیں فلسطین کی آزادی کی حمایت اور بھارت سے نوے ہزار فوجیوں کی رہائی پانچ ہزار مربع میل زمین کی واگزاری بھٹو صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے یہی نہیں متفقہ اسلامی جمہوری آئین انتظامی و عدالتی اصلاحات کا قیام اور قادیانیوں کو باقاعدہ کافر و اقلیت قرار دینا کامرہ ایرونائٹکل کمپلیکس واہ فیکٹریز کا قیام بھی ذوالفقار علی بھٹو کے ہی حصے میں آیا ہے۔
یہی سب اور مستقبل میں ملک و قوم کی بہتری کے منصوبے دراصل جو بھٹو صاحب کی سیاست کا اہم جزو تھے وہ پاکستان مخالف قوتوں کو بالکل پسند نہیں تھے کیونکہ پاکستان مخالف طاقتیں یہ اچھی طرح سمجھ چکی تھیں کہ اگر بھٹو صاحب کو مزید پانچ سال حکومت کرنے کے لیے دستیاب ہوئے تو پاکستان تو دنیا کے نقشے پہ ایک مضبوط و ناقابل تسخیر معاشی و دفاعی ریاست بن کر یقیناً ابھرے ہی گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک ناقابل شکست عوامی رہنماء اور(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
عالمی سربراہان مملکت میں سب سے زیادہ اہم با اثر طاقتور اور نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آ چکے ہونگے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو قدرتی طور پر ذہانت متانت علم و شعور فہم و فراست غور و تدبر معاملہ فہمی جیسی خصوصیات سے مالا مال تھے۔
بھٹو صاحب کا بڑا جرم یہی تھا جس کا انھوں نے ایک مقام پر اظہار بھی کیا تھا کہ وہ اس ملک کے سرمایہ داروں اور غریبوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے ایسا پل کہ جس کے ملاپ سے مساوی معاشرے کو جنم دیا جا سکتا تھا لیکن پھر 5جولائی 1977ء کو عالمی استعماری سامراجی پاکستان مخالف طاقتوں کو جنرل ضیاء الحق کی صورت میں ایک ایسا فرد دستیاب ہوا جس کے ذریعے بظاہر تو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو غیر آئینی و غیر جمہوری طریقے سے ختم کیا گیا بلکہ دراصل پاکستان کی تعمیر و ترقی کو ہمیشہ روکنے کی کوشش کی گx لیکن جیسا کہ دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو اس کا عملی نمونہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب پاکستان کے صدارتی انتخابات میں صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کی حمایت میں جنرل ضیاء الحق کے بیٹے محمد اعجاز الحق نے آصف علی زرداری کے حق میں اپنا ووٹ دیکر اپنے ہی والد کی 5جولائی1977ء کے آمرانہ اقدامات کی نفی کرتے ہوئے اس مارشل لاء حکومت پر بھی عدم اعتماد کی مہر ثبت کی۔
آج ملک میں آئین بھی بحال ہے جمہوریت بھی پھل پھول رہی ہے تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام بھی کر رہے ہیں پاکستان کا دفاعی نظام بھی ناقابل تسخیر بن چکا ہے معاشی حالات بھی بہتری کی طرف گامزن ہیں ذوالفقار علی بھٹو کا داماد ایوان صدر میں موجود ہے اور ملک میں مدت صدارت کا طویل ترین عرصہ عزت و وقار سے مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ آئین و جمہوریت کا واحد امین بھی بن چکا ہے بھٹو صاحب کی نواسی قومی اسمبلی میں عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی تجاویز پیش کرتی دکھائی و سنائی دیتی ہے تو اقوام عالم میں بھٹو صاحب کا نواسا اپنے نانا کے طریقے کے مطابق ملک و قوم کا مقدمہ بہترین دلائل سے جیت کر آتا ہے دنیا بھٹو صاحب کے نواسے کو دیکھنا سننا اور ملنا چاہتی ہے لیکن یہ دھیان رہے کہ آج نہ تو کوئی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کا ذکر کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کے لیے کچھ اچھا برا کہنا چاہتا ہے کیونکہ دنیا صرف انھیں یاد رکھتی ہے انہی کی بات کرتی ہے جو دنیا کے امن ترقی خوشحالی کے لیے کام کرتے ہیں تو یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست آج بھی بھٹو صاحب کے گرد ہی گھومتی ہے حتیٰ کہ پیپلز پارٹی مخالفین بھی بھٹو صاحب کے تذکرے سے ہی شہرت حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ سب اسی لیے ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور یہ وہی جمہوریت ہے جس کے قیام کی خواہش اور کوشش ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی آج وہ تمام طاقتیں ناکام و نامراد ہیں جنھوں نے پاکستان کو آمرانہ ادوار حکومت کی تاریکیوں میں دھکیلنے کی کوششیں کیں تھیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات ان کی جمہوری سوچ کامیاب و کامران دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ملک آج تعمیر و ترقی استحکام و بقاء امن و خوشحالی کی جن منازل کی جانب گامزن ہے ذوالفقار علی بھٹو بھی ملک و قوم کو انہی راہوں کا مسافر بنانا چاہتے تھے آج 5جولائی 1977ء کے تمام سازشی عناصر اپنی موت آپ مر چکے اور تاریخ میں کہیں ہمیشہ کے لیے گم ہو چکے ہیں۔
راجہ محمد علی منہاس