Columnمحمد مبشر انوار

پینترے

پینترے
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)

قارئین کرام! مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اگر کوئی قاری تحریر پڑھ کر نہ صرف اپنی قیمتی رائے سے نوازے بلکہ اس وقت مزید خوشی ہوتی ہے کہ جب کوئی باریک بین قاری، تحریر میں کسی غلطی کی نشاندہی بھی کرے،اس سے نہ صرف یہ اطمینان ہوتا ہے کہ تحریر کو پڑھنے والے موجود ہیں بلکہ صاحب نظر اور زبان کی باریکیوں کو بھی سمجھتے ہیں۔ میری گزشتہ تحریر بعنوان ’’ غیر یقینی حالات !!! ‘‘ پر میرے ایک قاری، دوست، شہر ریاض کی نامی گرامی شخصیت، مجلس پاکستان ریاض کی متحرک شخصیت برادرم جناب رانا عمر فاروق نی ایک غلطی کی نشاندہی کی، جس پر ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں اور قارئین کی تصحیح کے لئے یہاں پیش کرنا چاہ رہا ہوں، تمہید کے دوسرے فقرہ میں لکھا تھا ’’ اس کی بنیادی وجہ وہ غیر منصفانہ و جانبدارانہ رویہ ہے کہ جس کی عدم موجودگی سے امن عالم ہر گزرتے دن کے ساتھ، بی امنی کی جانب انتہائی سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے وگرنہ کرہ ارض پر امن کا قیام بخوبی ممکن ہے‘‘ اس فقرے میں لفظ ’’ عدم‘‘ نے پورا مفہوم بدل دیا اور اس کی نشاندہی برادرم رانا عمر فاروق صاحب نے کی۔ قارئین سے التماس ہے کہ اس فقرے کو یوں پڑھ کر مفہوم درست کر لیں، ’’ اس کی بنیادی وجہ وہ غیر منصفانہ و جانبدارانہ رویہ ہے کہ جس کی موجودگی سے امن عالم ہر گزرتے دن کے ساتھ، بے امنی کی جانب انتہائی سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے وگرنہ کرہ ارض پر امن کا قیام بخوبی ممکن ہے‘‘، شکریہ اور امید کرتا ہوں کہ برادرم رانا عمر فاروق صاحب مستقبل میں بھی ایسی تصحیح کریں گے۔ قارئین کرام! بسا اوقات خیالات کا ریلا اس قدر تیز رفتار ہوتا ہے کہ ایسی غلطیوں کا لکھتے وقت احساس نہیں ہوتا اور یہ امر اس کا غماز ہے کہ بہرطور ہم بشر ہیں اور ہم سے غلطی کا امکان ہر حالت میں موجود رہتا ہے، امید ہے قارئین اس کی تصحیح کر لیں گے، جزاک اللہ خیر۔ پاکستان کے داخلی حالات پر لکھنے کو فی الوقت دل نہیں چاہتا کہ یہاں کا موسم ایک تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور اس پر نوحے لکھ لکھ کر بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا کہ فیصلہ ساز یہ چاہتے ہی نہیں کہ کوئی ان کے کام میں دخل دے، یا ان کے ارادوں کے خلاف زبان کھولے، اپنے تئیں وہ واقعتا پاکستان کی خدمت پوری دلجمعی سے کر رہے ہیں لیکن نجانے کیوں اس خدمت کے عوض عوام کے مسائل دن بدن بڑھتے کیوں جارہے ہیں اور پاکستان کے وسائل دن بدن کم کیوں ہوتے جارہے ہیں؟۔ یہ سوال اگر فیصلہ سازوں سے کیا جائے تو ان کے ابرو تن جاتے ہیں، ماتھے پر شکنیں نمودار ہو جاتی ہیں اور سوال کرنے والے کو اپنی زندگی مشکل کا شکار ہوتی نظر آتی ہے، تاہم مشکلات سے کیا گھبرانا کہ یہ تو دنیا میں سانس لیتے ہی ساتھ چلنا شروع ہو جاتی ہیں ، اصل مشکل تو یہ ہے کہ اس گریہ زاری سے بظاہر کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ حکمران /شاہی خاندانوں نے جو ظلم و ستم، بے بس پاکستانیوں پر اٹھا رکھا ہے، اس کی ایک چھوٹی سی جھلک، گوجرانوالہ کے ایک شہری کی داستان سے عیاں ہے کہ جو بیچارہ 3800کا بجلی کا بل نہ دے سکا، گیپکو والوں سے، اپنے خرچ پر خریدا گیا بجلی کا میٹر کٹوا بیٹھا، سخت گرمیوں میں پڑوسیوں سے بجلی کے کنکشن پر پنکھا چلاتے ہوئے، پولیس نے بجلی چوری پر دھر لیا،3800بجلی کا بل دینے کی سکت نہ رکھنے والے کو 30000؍50000جرمانہ سنا دیا گیا، جبکہ ذلت و رسوائی الگ مقدر ٹھہری۔ حالانکہ اس واہیات ترین الزام کی کوئی تک ہی نہیں بنتی کہ بجلی کا کنکشن پڑوسیوں سے لینے پر،کیسی بجلی چوری کہ بجلی کے استعمال کا بل تو پڑوسیوں ادا کرتے، کہ اگر کنکشن گھر کے اندر سے لیا گیا ہے تو میٹر استعمال شدہ یونٹس کو ریکارڈ کر رہا ہے، مہینے کے آخر پر میٹر ریڈر ریڈنگ لے کر، پڑوسی صارف کو بل تھماتا اور اس سے وصولی کرتا اور اگر کنکشن براہ راست میٹر سے ہے تب بجلی چوری کا مقدمہ بھی بنتا ہے۔ بہرطور یہ پنجاب ہے اور اس کی وزیر اعلی کے تین سو یونٹ فری بجلی کے انتخابی دعوے، مسند اقتدار ہوتے ہی ہوا ہو چکے اور اس دور حکومت میں بجلی کے نرخوں کو پر لگ چکے ہیں، بجلی جو آج ہر گھر کی ضرورت ہے، ایک ناقابل خرید آسائش بن چکی ہے، جس کو خریدنے کی استطاعت بہرطور ایک عام پاکستانی کے بس میں نہیں رہی۔ اس ذلت و رسوائی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی سکت رکھنے والے شہری کے بیٹے نے، تیزاب پی کر اپنی جان گنوانا زیادہ مناسب سمجھا کہ وہ نہ وہ اپنے باپ کی رہائی کے لئے جرمانے کی رقم اکٹھی کر سکا کہ وہ تو اس سے کہیں کم بجلی کا بل ادا کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے، یہ ہے وہ پاکستان کہ جس کے متعلق حکمران/شاہی خاندان سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور ان کی جبین ناز پر شکنیں ابھر آتی ہیں۔ پاکستانی حالات، بالخصوص نئے بجٹ کے بعد، کیا لکھیں کہ جہاں آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے چیخ رہے ہیں کہ مالدار و بااختیار لوگوں پر ٹیکس لگائیں، حکمران ان کے استعمال کی امپورٹڈ اشیاء پر ٹیکس ڈیوٹیاں کم کر رہے ہیں جبکہ عام شہری کی ہڈیوں سے گودا نکالنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود فیصلہ سازوں کو ساون کے اندھے کی طرح ،ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے، ان حالات میں پاکستانی حالات پر کیا لکھا جائے؟دوسری طرف عالمی حالات کس قدر گھمبیر صورتحال اختیار کرتے چلے جارہے ہیں، خدا جانے ہمارے بزرجمہروں کو اس کا اندازہ ہے یا نہیں، اس کے متعلق کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ بھارت کو چاروں شانے چت کرنے کے بعد، امریکہ یاترا میں کیا کچھ ہوا ہے، ہنوز پس پردہ ہے، جب تک اس کے بطن سے کچھ نمودار نہیں ہوتا، حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں تاہم ہلکے سروں میں اسرائیل کے متعلق گفتگو کا آغاز کسی اور کہانی کو ظاہر کر رہا ہے۔ بہرکیف پاکستانی حالات اپنی جگہ مگر مشرق وسطی کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گھمبیر صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اسرائیلی ظلم و ستم کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے اور ان حالات میں بھی جب اسرائیل کو پوری دنیا کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر تقریبا 80فلسطینیوں کا خون رزق خاک کر رہا ہے، یہاں ساری دنیا سے مراد حکمران نہیں بلکہ شہری ہیں۔ ایران سے منہ توڑ جواب کے بعد بھی اسرائیل بہرحال خاموش نہیں اور جنگ بندی کے باوجود، اس کی چھیڑ چھاڑ ایران کے ساتھ مختلف محاذوں پر ابھی جاری ہے اور اسی طرح کا ردعمل ایران کی جانب سے بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ آنکھ مچولی زیادہ دیر تک چلنے والی نہیں ہے کہ ایران کو ہر طرح سے دبانے کی کوششیں اپنی جگہ لیکن ایران جن معاملات پر عالمی برادری سے تعاون کرتا آیا ہے، اب اس پر کھل کر مزاحمتی پالیسی اپنا رہا ہے۔ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کو نہ صرف ختم کرنے کا اعلان کر چکا ہے بلکہ ایرانی شہری اس کے عہدیدار کو پھانسی چڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہی ہے جس نے ایران کے ایٹمی مراکز کے متعلق غلط پراپیگنڈا کرکے امریکہ کو اس پر حملے کا جواز فراہم کیا تھا۔ ایک عالمی ادارے کے رکن کے لئے، اپنی متعین کردہ حدود سے تجاوز اور کسی دوسرے ملک کے لئے جاسوسی کرنا، کسی صورت بھی زیب نہیں دیتا، اس کی پیشہ ورانہ مہارت پر ایک بدنما دھبہ و داغ ہے لیکن افسوس کہ مسلم دشمنی میں نہ کوئی اصول ہیں اور نہ اخلاقیات۔ ایران میں موجود غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد بشمول یہودیوں اور ہندوئوں، اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہی وہ گروہ ہیں، جنہیں نے ایران کے ساتھ غداری کی جبکہ مشرق وسطیٰ کی دیگر مسلم ریاستوں میں بھی غیر مسلموں کی بڑی تعداد آج بھی اہم ترین مناصب پر فائز ہے اور کون جانے کہ ان مناصب پر بیٹھے یہ غیر مسلم کس حد تک ان ریاستوں کے لئے قابل اعتبار ہیں؟، ویسے ایران میں صرف غیر مسلموں پر ہی موقوف نہیں کہ ایران میں افغانی شہری بھی ایران کے خلاف روبہ عمل پائے گئے ہیں، اس پس منظر میں مشرق وسطی کی مسلم ریاستیں کیا لائحہ عمل اپناتی ہیں، اس کا فیصلہ وقت آنے سامنے آ جائیگا تاہم امریکہ و اسرائیل کی جانب سے، غزہ میں عرب ریاستوں کو انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے اختیارات دینا جبکہ اسرائیل تاحال جنگ بندی کے لئے تیار نہیں، کہیں ان ریاستوں کو براہ راست اس جنگ میں دھکیلنے کے مترادف نہیں ہو گا؟۔ اسرائیل سے یہ بعید نہیں کہ وہ جنگ بندی کا احترام کرے یا ساٹھ دن کی جنگ بندی کے دوران جب یہ ریاستیں، غزہ میں اپنے پیر جما لیں ،تب غزہ پر حملہ کر کے، ایک بار پھر جنگ چھیڑی جائے اور اس جنگ کو انتظام کرنے والی ریاستوں کی خود مختاری پر حملہ بناکر انہیں انگیخت کرکے، براہ راست جنگ میں شامل کیا جائے؟۔ بظاہر یہ دوڑ کی کوڑی لگتی ہے لیکن جس طرح کا رویہ اور چالیں اس وقت غیر مسلم ممالک اپنائے ہوئے ہیں، ان سے بعید نہیں کہ اب تک جو ریاستیں براہ راست اس جنگ میں نہیں کودیں، گریٹر اسرائیل کی تکمیل میں، پینترے بدل گئے ہوں؟؟؟

جواب دیں

Back to top button