Column

حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا

حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا
تحریر : صفدر علی حیدری

جلتے لوہے کے پنجرے میں قید ایک ننھی بچی کی چیخیں فضا کو چیر رہی تھیں۔ ہائی ایس کی کھڑکیاں اندر سے بند، دروازے لاک، اور شعلے اس طرح لپک رہے تھے جیسے کسی نے دوزخ کو زمین پر اتار دیا ہو۔ ایک نحیف سی آواز مسلسل گونج رہی تھی: ’’ ابو۔۔۔ ابو۔۔۔ مجھے اس آگ سے بچا لو!‘‘، وہ ننھا جسم اپنے جلتے کپڑوں سے سسک سا گیا تھا ، مگر آگ کی بے رحم لپٹوں نے اُسے جکڑ لیا تھا۔ اس کی چیخیں، اس کے آنسو، اور اس کی التجائیں آسمان کی طرف اٹھتی گئیں ، ’’ ابھی تو میں نے خواب دیکھنے تھے، ابھی تو میں نے بڑے ہو کر آپ کے لیے کچھ بننا تھا، ابو‘‘۔۔۔ لیکن بے حسی کی فضا میں اس کی فریاد کوئی نہ سن سکا۔
یہ بچی، جو صبح امید کے پروں پر سوار ہو کر امتحان دینے احمد پور پہنچی تھی، واپسی پر ایک ایسے انجام سے دوچار ہوئی جس کا تصور کلیجہ چیر دیتا ہے۔ ہائی ایس کی نشستوں پر بیٹھی ان طالبات کے ساتھ نہ کوئی حفاظتی نظام تھا، نہ آگ بجھانے والا آلہ، نہ ہی کوئی ایمرجنسی دروازہ۔ جب گاڑی میں آگ بھڑکی تو چند لمحوں میں ہر طرف دھواں ، چیخیں اور سسکیاں پھیل گئیں۔ کچھ بچیاں نیم مردہ ہوکر باہر نکالی گئیں، مگر وہ ایک بچی، وہ جس کے خواب آنکھوں میں چمک رہے تھے، جس کی آواز آخری لمحے تک اپنے والد کو پکارتی رہی، وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔
وال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک ہمارے بچے ایسے بے رحم حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے؟ کب تک حکومتی ادارے، سیکرٹری آر ٹی اے، اور مقامی انتظامیہ ان سلنڈر بردار قاتل گاڑیوں کو سڑکوں پر چھوڑتے رہیں گے؟ کب تک ہم ایک نئی میت کا انتظار کرتے رہیں گے تب جا کے کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوگا؟ وہ ایک ننھی جان، جو صرف خواب دیکھنے نکلی تھی، آج خاکستر ہو چکی ہے۔ اس کے ابو شاید آج بھی اس کی وہ آخری چیخ سن کر ساری رات سو نہ سکیں، ’’ ابو۔۔۔ مجھے اس آگ سے بچا لو!‘‘، یہ دکھ میں لپٹا ، رلا دینے والا اظہار، یہ ہمارے دوست ڈاکٹر تنویر مدنی نے تحریر کیا ہے، جو اس واقعے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اتنے کہ ان کا قلم رواں ہو گیا۔ وہ اپنے جذبات کا اظہار لفظوں اور آنسوئوں سے ایک ساتھ کرتے رہے۔
احمد پور شرقیہ کے قریب ہائی ایس وین میں آگ بھڑک اٹھی ، ایک طالبہ جاں بحق، آٹھ زخمی ہو گئیں۔ موٹروے پولیس نے بروقت کارروائی کرکے بچ جانے والے، تمام مسافروں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ وین میں آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی، گاڑی میں 18طالبات سوار تھیں۔ حادثہ احمد پور ایسٹ ٹول پلازہ کے قریب پیش آیا۔ طالبات امتحان دے کر واپس جا رہی تھیں۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی موٹروے پولیس فوری موقع پر پہنچ گئی۔ زخمی طالبات کو موٹروے پولیس نے ریسکیو 1122کے ذریعے ٹی ایچ کیو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ موٹروے پولیس نے جائے حادثہ کو محفوظ بنایا ، اور ٹریفک روانی بحال کر دی۔ وین ڈرائیور حسب توقع موقع سے فرار ہو گیا۔
کہتے ہیں دکھوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے۔ دکھ المیے، سانحے ۔۔۔ سب نے ۔۔ سب ہی نے ایک ساتھ ۔۔۔۔
ابھی ایک حادثہ ذہن سے محو نہیں ہوتا کہ دوسرا پیش آ جاتا ہے۔ ابھی پچھلے سانحے کے آنسو خشک نہیں ہوتے کہ نئے سانحے سے آنکھیں پھر اشک بار ہو جاتی ہیں۔
ابھی سوات سانحے کے افراد کی بے بسی آنکھوں میں پھر رہی تھی۔ ان کی فریادیں کانوں میں گونج رہی تھی کہ یہ سانحہ پیش آ گیا۔ مقام شکر ہے کئی طالبات زندہ بچ گئیں۔ اموات کی شرح کم رہی۔ تازہ ترین خبر کے مطابق ایک اور طالبہ بھی دم توڑ گئی۔ طیبہ عباس تو موقع پر ہی جھلس کر دم توڑ گئی تھی جبکہ 18سالہ اُجالا برن یونٹ ملتان میں دم توڑ گئی۔لیاقت پور کے ایک نجی کالج کی یہ طالبات تھرڈ ائیر کا امتحان دے کر واپس لیاقت پور جاتے ہوئے وین میں گیس سلنڈر کی آتشزدگی کا شکار ہو گئیں ، وین میں 19طالبات سوار تھیں ۔ 10زخمی طالبات کو ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے ٹی ایچ کیو احمد پور منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں 5طالبات کو بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پر برن یونٹ نہ ہونے پر طالبات کو ملتان برن یونٹ منتقل کر دیا گیا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق امپیریل کالج لیاقت پور کے پرنسپل رانا آفتاب، دی فرسٹ کالج لیاقت پور کے پرنسپل محمد جاوید ، دی نیکسٹ جنریشن کالج لیاقت پور کے پرنسپل محمد سجاد، وین مالک ، وین ڈرائیور، اسٹینڈ مالک کے خلاف انسداد دہشتگری کی دفعہ 7ATAسمیت سنگین دفعات کے تحت تھانہ صدر احمد پور شرقیہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے ۔
پرسوں کے واقعے سے مجھے ایسا ہی اور حادثہ یاد گیا۔ بدقسمت وین۔ جھوٹے بچوں کی تھی جو تیار ہو کے اسکول کے لیے روانہ ہوئے مگر راستے میں حادثے کا شکار ہو گئے۔ کئی بچے جل گئی۔ جلنے والوں میں ایک ٹیچر بھی تھیں جو بچوں کو بچانے کی کوشش میں جھلس کر ہلاک ہو گئیں۔ مرنے سے پہلے کئی بچوں ان کی وجہ بچ گئے۔
ہمارے ملک میں گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ شاید ایسے سانحات کی تعداد درجنوں میں ہو گی اور یہی اس کا دل خراش پہلو ہے۔ ہم لوگ مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں۔ معصوم زندگیاں دائو پر لگ رہی ہیں مگر ریاست کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
کیا ہم حکومت وقت سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ آج تک سلنڈر کے گاڑیوں میں استعمال پر پابندی کیوں نہیں لگی ۔ کم از کم پبلک ٹرانسپورٹ میں تو اس پر مکمل پابندی ہونی چاہیے تھی کہ کسی ایک فرد کی لالچ سے لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگ جاتی ہیں۔ سیکڑوں قیمتی جانیں ضائع کرانے کے بعد بھی اہل اقتدار خاموشی تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم عوام کے پاس دعا کرنے ، ماتم کرنے اور کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر وہ جو اقتدار کے حصول کے لیے مرے جاتے تھے ۔ جو ملک کی تقدیر بدل دینے کے دعوے دار تھے وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ جو ان کے لانے والے ہیں، انہوں نے انھیں اقتدار تو دیا، اختیار نہیں دیا۔
اسی دن ایک اور المیہ بھی رونما ہوا کہ تین افراد فاسٹ فوڈ کھانے کے نتیجے میں قبروں میں جا پہنچے۔ ہمارے ہاں انسانی خون اتنا ارزاں کیوں ہے ؟ انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت کیوں نہیں ہے۔ کسی عام آدمی کے کسی سانحے کے نتیجے میں ہلاک ہو جانے کا اتنا معمولی کیوں سمجھ لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر دو دن پوسٹیں لگیں، اخبار میں دو ایک دن خوب خوب کوریج ملی، سیاست دانوں کے منافقانہ بیانات سامنے آئے اور پھر ۔۔۔ سکون ہی سکون ، خاموشی ہی خاموشی ۔
کچھ دنوں بعد کسی اور سانحے کی خبر لگتی ہے اور پھر چل سو چل ۔۔ یہ چکر یونہی چلتا رہتا ہے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
سانحہ احمد پور شرقیہ کا ایک ذمہ دار بلکہ اصل قصور وار محکمہ تعلیم بھی ہے ۔ کیا وجہ تھی کہ تحصیل لیاقت پور میں امتحان نہیں لیا جا سکا۔ کیا وہاں امتحانات پر پابندی عائد ہے۔
یہ سانحہ پہلا ہے نہ آخری ( اگرچہ دعا تو یہی ہے کہ آخری ہو ) ۔ کیوں کہ یہاں چند دن واویلا مچایا جاتا ہے اور پھر راوی لکھتا ہے چین چین
خوب صورت شاعر سرور ارمان بے ساختہ یاد آئے
حادثوں نے ہر صورت اپنی زد میں رکھنا تھا
ہم نے چل کے دیکھا ہے راستے سے ہٹ کر بھی

جواب دیں

Back to top button