CM RizwanColumn

مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیر ہو جائے

مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیر ہو جائے
تحریر : سی ایم رضوان
امام عالی مقام نے کربلا میں اپنی، اپنے پیاروں اور اصحاب کی عظیم قربانیاں دے کر فکر حسینی یا حسینیت کو تاقیامت قائم و دائم کر دیا ہے۔ اب تاقیامت جہان بھی ضمیر کے مطابق جینے اور مرنے کی بات ہو گی حسینیت کو ہی معیار بنا کر اس کی پیروی کی جائے گی کیونکہ حسینیت ایک عظیم اور حق شناس کردار کا نام ہے۔ شاعر مشرق اور مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے آج سے نصف صدی قبل یہ راز کھول کر بیان کر دیا تھا کہ ’’ عیاں سر شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے۔۔۔ مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیر ہو جائے ‘‘۔
آج ایک بار پھر ہماری قومی و ملی زندگی میں نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ، ان کے اصحاب و یاوران کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر عاشورہ محرم طلوع ہوا ہے، امت مسلمہ اس ماہ کو، جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام حسینؓ نبی آخر الزمان محمد مصطفیٰ ؐ کے لاڈلے نواسے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی، کی یاد کو زندہ کرنا ہے کہ میدان کربلا میں جو قربانیاں پیش کی گئیں وہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں، شہداء کی یہ داستان ہم کو درس حریت و آزادی فراہم کرتی ہے، کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدار رکھا جائے، ورنہ جہالت و گمراہی کے پروردہ ہر جگہ ایسی ہی کربلائیں برپا کرتے رہیں گے۔ یعنی کربلا ایک لگاتار پکار ہے، یزیدیت ایک پستہ اور ذلت آمیز سوچ کا نام ہے، اسی طرح حسینیت بھی ایک کردار کا نام ہے، اگر کوئی حکمران اسلام کا نام لیوا اور کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس کے کام یزید جیسے ہیں تو وہ دور حاضر کا یزید ہی ہے۔ آج یہ واضح ہو گیا ہے کہ یزیدیت پاکیزہ نفوس کے قاتلوں کا ٹولہ تھا، جس کا راستہ روکنے کیلئے نواسہ رسول سامنے آئے اور اپنی عظیم قربانی سے اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، آپ کی قربانی آج14 صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی انداز میں یاد رکھی جاتی ہے یوں اس داستان کو مٹانے کی خواہش دل میں رکھنے والے اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔ اس عظیم شہادت میں بہت سے درس اور راز موجود ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم اس داستان سے درس لے کر موجودہ دور کی مشکلات کا مقابلہ کریں اور یزیدی طاقتیں جو امت مسلمہ کو نابود کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں، کے ارادوں کو ناکام و نامراد کر دیں، بالخصوص امت مسلمہ کی وحدت و بھائی چارہ پر فرقہ واریت کے منحوس سائے نہ پڑنے دیں۔ یہ قربانی کس قدر بے مثال ہے کہ جس سے14صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ایسے ہی درس و سبق حاصل کئے جاتے ہیں جیسے ابھی کل ہی ہونے والے کسی واقعہ سے انسان کوئی سبق یا نصیحت لے رہا ہو۔
یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ علامہ اقبالؒ تو حضرت امام حسینؓ اور ان کے اصحاب کی قربانیوں کی داستان اور اسرار کو اس قدر اہم جانتے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہے کہ اگر یہ راز کھل جائیں اور امت اس سے آگاہ ہو جائے تو اپنا کعبہ و قبلہ ہی تبدیل کر لیں، مگر اس ملک میں بسنے والے بہت سے تعفن و تعصب زدہ لوگ محرم الحرام میں شہادت و شجاعت کی اس داستان کے بیان کو فرقہ واریت کی نذر کر دیتے ہیں حالانکہ حسینیت ہی آج کے گھمبیر مسائل کا شافی حل اور اخروی نجات کا ذریعہ ہے۔ اگر فقط علم اور معلومات کی حد تک انسان کے علم میں اضافہ کی بات ہو تو اس امر سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ کربلا کے بارے میں اس کی معلومات زیادہ ہیں یا بغداد کے بارے میں، کیونکہ صرف یہ معلومات انسان کو کہیں بھی نہیں پہنچاتیں۔ البتہ آج کے دور میں جو چیز جاننے سے تعلق رکھتی ہے اور ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بندہ اس امر سے آگاہ ہو کہ انسان کربلا کے اصل فلسفہ سے آشنائی حاصل کر لے اور صرف فلسفہ سے آشنائی ہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے جا کر یہ محسوس کر لے کہ حسینی فکر کیا ہے اور یزید کے باطل ارادے کس نوعیت کے تھے۔ جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت سید الشہداء امام حسینؓ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا کہ ’’ انّ الحسین مصباح الہدیٰ و سفینۃ النجاۃ‘‘ کہ حسینؓ ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کشتیاں وہاں انسانوں کو نجات دیتی ہیں جہاں پر گہرے اور عمیق سمندر ہوں اور ان سمندروں میں طوفان بھی ہوں، ان میں ہلاک اور غرق کرنے والی موجیں بھی ہوں، ڈوبنے کا خطرہ ہو، غرق ہونے کا خطرہ ہو، ایسے میں کشتیاں انسان کو نجات دیتی ہیں اور انسانیت کی نجات کی کشتی کا نام حسینؓ ہے۔ انسانیت ہلاک کہاں ہوتی ہے، کون سا سمندر ہے، کون سا بحر ہے ایسا عمیق اور گہرا کہ جس میں انسانیت ڈوب کر مر جائے، ہلاک ہو جائے، غرق ہو جائے، وہ لمحہ کیا ہے کہ جب انسانیت ہلاکت کے قریب جا پہنچے۔ یعنی انسانیت اس حد تک گر جائے، پست ہو جائے، غرق ہو جائے کہ یزید جیسا حکمران، یزیدیت جیسا نظام بر سر اقتدار آ جائے اور انسان بیٹھا تماشہ دیکھتا رہے۔ یہی درحقیقت ہلاکت ہے انسانیت کی، بشریت کی۔ اور ایسی ہلاکتوں سے نجات حسینیت کے ذریعے سے ملتی ہے۔ یزیدیت ظلم جوئی کے ایک فرد کا نام ہے۔ یزید ایک طبقہ ہے اور یہ طبقہ ہر دور میں ہے، یزید سے پہلے بھی یہ طبقہ موجود تھا، ابن معاویہ سے پہلے وہ خود بھی یزیدی طبقے سے تھا۔ اور اس کے بعد بھی یزیدی طبقہ موجود ہے اور آج تک یزیدیت موجود ہے اور ایسے ہی حسینیت بھی، حسینؓ ایک فرد کا نام نہیں، حسینی بھی ایک طبقہ کا نام ہے، یہ طبقہ امام حسینؓ سے پہلے بھی موجود تھا، آپ کے زمانے میں بھی موجود تھا اور آپ کے بعد آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔ کربلا میں ایک فرد نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ ایک پوری نسل کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ نسل انبیاء کا وارث کھڑا ہوا تھا۔ وارث وہ ہوتا ہے کہ جس نے کچھ وراثت لی ہو۔ امام حسینؓ کس چیز میں وارث تھے؟ آیا انبیائٌ نے اپنی جائیدادیں، اپنی زمینیں، املاک چھوڑی تھیں امامؓ کیلئے۔ کون سی چیز تھی جو انبیاء ٌ سے ورثہ میں ملی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھیں کونسی چیز تھی؟ غور کریں کہ کیا چیز تھی جو امام حسینؓ نے انبیائٌ سے وراثت میں لی اور اسی وراثت کی حفاظت کیلئے کربلا آنا پڑا، یعنی کردار انبیائٌ ختم ہو رہا تھا، لُٹ رہا تھا، وراثت انبیاء خطرے میں تھی۔ مقابلہ میں یزید تھا۔ وہ بھی وارث ہے، وہ بھی تنہا نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی ایک نسل کا وارث آ کے کھڑا ہوا ہے۔ وہ کس کا وارث ہے؟ یزید کس کا وارث ہے؟ یہ آل فرعون کا وارث ہے، آل نمرود کا وارث ہے، آل شداد کا وارث ہے، آل قارون کا وارث ہے، آل قابیل کا وارث ہے، یعنی جتنے ستم کار تاریخ میں گزرے ہیں ان سب کا وارث ہے۔ چونکہ ظالم کو بھی ورثہ ملتا ہے۔ مظلوم کو بھی ورثہ ملتا ہے۔ درحقیقت یہ دو وارث تھے۔ دو نسلوں کے وارث، دو سلسلوں کے وارث، ایک وارث نسل انبیاء اور ایک وارث(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
نسل ظلم تھا۔ جس طرح یہ وارث تھے اسی طرح ان دونوں نے اپنے سے پہلے والوں سے ورثہ لیا اور اپنے بعد والوں کیلئے چھوڑا۔ یعنی یوں نہیں کہ انہوں نے اپنا ورثہ وہاں دفن کر دیا۔ امام حسینؓ نے بھی اپنا ورثہ منتقل کر دیا اور یزید نے بھی اپنی وراثت منتقل کردی۔ یعنی جو کچھ فرعون و نمردو سے لیا تھا اس نے وہ کربلا میں لے آیا۔ پس معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ وراثت موجود ہے اور چلی آ رہی ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ واقعہ کربلا کب رونما ہوا اور کیسے رونما ہوا، یہ کسی حد تک ہمیں معلوم ہے لیکن ایک بہت ہی اہم نکتہ کربلا کے بارے میں اگر ہمیں معلوم ہو جائے اس سے راز کربلا کھل جاتا ہے۔ اس سے انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کارواں کے ہمراہ ہو جائے۔ جنگ خیبر یہودیوں کے خلاف حضرت علیؓ نے جیتی۔ کیا آج جنگ خیبر نہیں ہے؟، اس جنگ خیبر میں عملاً رسولؐ اللہ نے سب کو علم دیئے کہ جائو سب زور آزمائی کر لو۔ آج بھی یہودیت کے خلاف جنگ لڑے گا تو علیؓ اور علیؓ کا پیروکار لڑے گا۔ جنگ خیبر میں رسولؐ اللہ نے جان بوجھ کر دوسروں کو علم دیا، معلوم تھا کہ ان سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔
آج وہ نسل یہود زیادہ ہے پہلے سے، زیادہ طاقتور ہے پہلے سے، زیادہ خطرناک ہے، لیکن آج بھی وہ علم منتظر ہے، 55سال سے دوسروں نے اٹھایا، لڑنے کیلئے جمال عبدالناصر نے اٹھایا، حافظ اسد، معمر قذافی نے اٹھایا، یاسر عرفات، عیناً اس طرح اٹھایا جس طرح خیبری لوٹ آئے تھے نہ صرف کچھ لیکر نہ آئے بلکہ کچھ دے کر آئے ( آدھا شام، آدھا لبنان، مصر، اردن، فلسطین)۔ ایسی جنگیں لڑیں لیکن ادھر مٹھی بھر جوان لبنان کے حزب اللہ، پیروان حیدر کرار، مرد کے پیروکار، کوئی حکومت نہیں، فوج نہیں، صرف کیا ہے؟ حیدری جذبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے دشمن کو اس طرح بھگایا کہ بھاگنے کا راستہ بھلوا دیا۔ قرارداد لکھنے کی مہلت نہ دی۔ بہادر مائیں بھی سوائے کربلا کے کہیں نظر نہیں آتی ہیں؟ وھب کلبی کی ماں نے بیٹے کا سر واپس پھینکا اور کہا کہ راہ خدا میں دے کر ہم واپس نہیں لیتے۔ زوجہ نے خیمے کا بانس اٹھایا، حملہ کیا اور میدان کربلا میں واحد شہیدہ خاتون قرار پائی۔ یزید نے طاقت کے نشے میں آ کر امامؓ سے کیا کہا تھا؟، یہی کہ آپ میرے سامنے تسلیم ہو جائیں یا مقابلے میں آ جائیں۔ حسینیت کیا ہے؟ کہ مجھ جیسا اس جیسے کے سامنے سلیم نہیں ہو سکتا۔ یہی حسینیت ہے جس کے متعلق اقبالؒ نے کہا تھا کہ اس شہادت کی تفسیر اگر کھل کر بیان ہو جائے تو مسلمانوں کی ہدایت کا مرکز روضہ شبیر ہو جائے۔

سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button