مارشل لا آمریت کا جواز؟

مارشل لا آمریت کا جواز؟
تحریر : روشن لعل
5جولائی پاکستان میں جنرل ضیا کے بدنام زمانہ مارشل لا کے نفاذ کا دن ہے۔ ضیا کے نافذ کردہ مارشل لا کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ 7مارچ 1977ء کو جو عام انتخابات منعقد ہوئے اس میں پیپلز پارٹی کو نہ صرف مخالفین بلکہ حامیوں کی توقعات سے بھی بہت زیادہ ووٹ اور قومی اسمبلی کی نشستیں ملیں۔ پیپلز پارٹی کے حریف قومی اتحاد کی قیادت نے اس انتخابی جیت کو بھٹو صاحب کی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا۔ دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد نے تحریک چلائی جسے پولیس کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی۔ جب پولیس فورس استعمال کرنے کے باوجود تحریک کی شدت میں کمی نہ آئی تو پھر قومی اتحاد کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیار گئی۔ 5جولائی کو ضیا الحق نے اس وقت مارشل لا نافذ کر دیا جب بھٹو صاحب اور قومی اتحاد کی قیادت کے مذاکرات نہ صرف جاری تھے بلکہ کسی فریق کی طرف سے بھی ایسا تاثر سامنے نہیں آیا تھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کی بات چیت کسی مثبت حل کی طرف نہیں جارہی ہے۔
یاد رہے کہ 5جولائی1977ء سے پہلے بھی بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف جونیئر فوجی افسروں کی دو عدد بغاوتیں ناکام ہو چکی تھیں۔ ان کوششوں کے پیچھے بھی جونیئر فوجی افسروں کی سویلین سیاستدانوں سے خود کو برتر سمجھنے کی وہی سوچ کارفرما تھی جو ملک میں پہلے مارشل لا کا محرک بنی۔5جولائی کی واردات کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ قومی اتحاد کی قیادت نے 7مارچ 1977ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو دھاندلی کا الزام لگا کر رد کرتے ہوئے پرتشدد احتجاجی تحریک کا آغاز کیا۔ جب اگلے دو ہفتوں تک ملک میں جلائو گھیرائو کا بازار گرم رہا تو حکومت نے قومی اتحاد کی مرکزی، صوبائی اور ضلعی قیادت تک کو قید کروا دیا۔ ان حالات میں احتجاجی تحریک کی قیادت مساجد کے مولوی صاحبان کے ہاتھ آگئی۔ ان مولوی صاحبان نے مساجد کو اپنی تحریک کا مرکز بنا لیا۔ جب بڑے شہروں میں مارشل لا کے نفاذ کے باوجود ملک میں احتجاج اور تشدد کے واقعات میں کمی نہ آئی تو بھٹو صاحب نے قومی اتحاد کی قیادت کو مذاکرات کی دعوت دی جو 3جون کو شروع ہوئے۔3جون سے4جولائی 1977ء تک ان مذاکرات کے13رائونڈ ہوئے۔ مذاکرات کے دوران کسی بھی مرحلے پر یہ بات سامنے نہیں آئی تھی کہ بھٹو صاحب نے قومی اتحاد کے مطالبات تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس کے برعکس یہ ہوتا رہا کہ قومی اتحاد کی مذاکراتی ٹیم میں شامل مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ اور پروفیسر غفور جن باتوں پر مفاہمت ظاہر کر کے جاتے اس پر وہ اپنے اتحادیوں کو قائل نہ کر پاتے، جس کی وجہ سے طے شدہ باتوں کو بار بار زیر بحث لایا جاتا۔ اس رویے کہ متعلق کہا جاتا ہے کہ قومی اتحاد کی قیادت میں سے کچھ لوگوں کے جنرل ضیا کے ساتھ بھی رابطے تھے اس لیے وہ اوپر سے لی گئی ہدایات کے مطابق اپنا موقف تبدیل کرتے رہتے تھے ۔ جنرل ضیا کیونکہ مارشل لا کے نفاذ کا فیصلہ کر چکے تھے اس لیے وہ ایسی باتوں پر اصرار کرنے کا مشورہ دیتے تھے جن سے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں ۔ اس طرح کی تمام کوششوں کے باوجود بھی جب یہ طے ہوگیا کہ مذاکرات کا مثبت نتیجہ برآمد ہونے والا ہے تو ضیا الحق اور اس کے حواریوں نے ایک بے بنیاد مفروضے کے تحت مارشل لا نافذ کر دیا۔
ضیا الحق نے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جب نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوششوں میں بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کی راہ ہموار کرنا شروع کی تو پیپلز پارٹی نے تن تنہا اس کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا ۔ قومی اتحاد کے جن رہنمائوں نے جنرل ضیا کا مہرہ بن کر اسے خوش آمدید کہا تھا وہ پہلے تو خاموش رہے لیکن بھٹو کی پھانسی کے بعد جب ان پر بھی مارشل کے ضابطے نافذ کرنا شروع کر دیئے گئے تو وہ اسی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں سرگرم ہوئے جس کے راستے میں انہوں نے کانٹے بچھائے تھے۔ بحالی جمہوریت کی تحریک کے دوران سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کی بے مثال قربانیوں کے باوجود ضیا کو حاصل امریکی آشیر باد کی وجہ سے اس کی آمریت کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔ ضیا کے آمرانہ اقتدار کا خاتمہ بہاولپور میں اس کی طیارہ حادثہ میں ہلاکت کے بعد ممکن ہوا۔ضیا کی موت کے بعد یہاں جو مشروط جمہوریت بحال ہوئی ، اس پر آئندہ دہائی کے دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بالواسطہ کنٹرول ختم نہ ہو سکا۔ بالواسطہ کنٹرول کے باوجود یہاں اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے پھر سے براہ راست اپنی حکومت قائم کر لی ۔ جنرل پرویز مشرف نے سول حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں تولے لیا لیکن مارشل لا کے نفاذ سے گزیر کیا۔ مارشل نافذ نہ کرنے کے باوجود بھی مشرف کے اقتدار کو فوجی آمریت کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ جس سول حکومت کو اکتوبر 1999ء میں ختم کیا گیا تھا اس کے اکثر لوگ مشرف کے ہمنوا بن گئے اور جو ہمنوا نہیں بنے تھے وہ بھی ابتدا میں اس کے خلاف مزاحمت سے گریز کرتے نظر آئے۔ ضیا مارشل لا اور اس کے بعد نواز دور میں زیر عتاب رہنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت نے مشرف کی فوجی آمریت کی مخالفت کرنے کی بجائے اس شرط پر اسے قابل قبول قرار دیا کہ وہ جلد از جلد عام انتخابات منعقد کروا کے حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں دینے کا اعلان کرے۔ ضیا الحق کی طرح مشرف کی ترجیح بھی منصفانہ انتخابات کا انعقاد نہیں بلکہ اپنی آمرانہ حکمرانی کو طول دینا تھا۔ اس مقصد کے تحت اس نے پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد کروا کے اپنے حواری پیدا کئے پھر فراڈ ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر پاکستان بنوایا اور پھر جس حد تک بھی ممکن تھا دھاندلی زندہ انتخاب منعقد کروا کے اپنی پسند کے لوگوں پر مشتمل حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
گو کہ مشرف کو بھی جنرل ضیا کی طرح امریکی آشیر باد حاصل تھی لیکن اس کے باوجود اس نے خود کو ضیا کے برعکس حکمران ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ضیا سے مختلف انداز میں حکومت کرنے کے باوجود بھی اس پر فوجی آمر ہونے کا لیبل چسپاں رہا۔ اس لیبل کی وجہ سے اس کی حکمرانی کو کبھی بھی قابل جواز نہیں سمجھا گیا۔ ضیا الحق کو تو یہاں بد ترین فوجی آمر کہا جاتا ہے لیکن فوجی آمر تسلیم کیے جانے کے باوجود مشرف کے لیے موڈریٹ حکمران ہونے کا تصور بھی موجود ہے۔ ضیا سے مختلف ہونے کے باوجود مشرف ہی نہیں یہاں کسی بھی جرنیل کی حکمرانی معتبر مقام حاصل نہیں کر سکی۔ آج جب ہر برس کی طرح 5جولائی کو ضیا مارشل لا کی مذمت کے دن کے طور پر منایا جارہا ہے تو کچھ لوگ یہ عندیہ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ یہاں ضیا اور مشرف جیسی آمریت قائم ہونے کا امکان اب بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ اگر یہاں اس امکان کے مطابق کچھ ہوا تو کسی کی طالع آزمائی کو ماضی کی طرح اب بھی نا قابل جواز ہی سمجھا جائے گا۔