Column

صدر ابراہیم رئیسی، چشم ما روشن دل ماشاد

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ ماہ ایران کے صدر کا دورہ پاکستان کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا تھا۔ اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی دعوت پر ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے 22سے 24اپریل 2024تک پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ ایران کے صدر کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی تھا جس میں ایران کے وزیر خارجہ بھی شامل تھے صدر رئیسی نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے وفود کی سطح پر بات چیت کی۔ فریقین نے پاکستان ایران دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوں کا جائزہ لیا علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات، علاقائی امن اور ترقی کے لئے انتہائی اہم پیش رفت تھی۔ اس دورے کے نتیجہ میں جاری ہونے والا اعلامیہ بھی اپنی حیثیت میں امن اور ترقی کے لئے امید کی کرن سے کم نہیں۔ اس وقت جب دونوں ممالک عالمی استعمار کی شرارتوں کا شکار ہیں، عالمی سطح پر معاشی بحران شدید سے شدید ہوتا جا رہا ہے، اس سب کا واحد علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سرحدی تجارت کا آغاز کریں، اسے پہلی ترجیح قرار دیں، یورپی یونین اور افریقی یونین اس تصور کے تحت وجود میں آئیں اور ان کی بدولت ان خطوں میں امن اور ترقی کا دور دورہ ہو گیا۔ ہمارے خطے میں بھی عوام کی بہتری، خوشحالی اور امن کی خاطر لازم ہے کہ تمام پڑوسیوں کے ساتھ پر امن اور تجارتی تعلقات قائم کئے جائیں، اپنی ضرورت کی تمام اشیائ ایک دوسرے سے خریدی جائیں تو معیشتوں پر کرنٹ اکائونٹ خسارے اور ڈالر کا دبا ختم ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے لئے لازم ہے کہ چین، ایران، افغانستان یہاں تک کہ بھارت تک سے اچھے تعلقات اور تجارت کو فروغ دیا جائے لیکن بھارت کا المیہ یہ ہے کہ ایک جانب کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور قتل عام کے ہوتے ہوئے تعلقات کی بحالی ممکن نہیں دوسری جانب بھارت میں جاری ہندو توا کی خونی لہر اور بھارت کا عالمی دہشت گردی کا شوق بھارت سے معمول کے تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالہ سے ایک بڑا اور قابل اعتماد قدم اٹھا کر درست سمت میں پیش رفت کی ہے۔ ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارت کے قانونی راستے نہ ہوں تو اسمگلنگ اور جرائم کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اسلام آباد کو دہشت گردی سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے اور اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ ہمسایوں سے تجارت سمیت دوستانہ تعلقات استوار ہوں۔ پاکستان کو توانائی کے جس سنگین بحران کا سامنا ہے اس کا حل پاک ایران گیس پائپ لائن ہے لیکن اگر یہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہوسکی تو معاہدے کے تحت پاکستان کو بڑے جرمانے کا سامنا کرنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اصولی طور پر ایران سے تجارت یا توانائی کی ضرورت پوری کرنے پر امریکہ سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ امریکہ کے اپنے مفادات ہیں تو پاکستان کے اپنے مفادات ہیں ہم امریکہ کی خاطر اپنے مفادات کی قربانی کیوں دیں؟ وزیر دفاع خواجہ آصف نے درست کہا ہے کہ امریکہ پاکستان نہیں اسرائیل پر پابندیاں لگائے جو انسانیت کا دشمن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے بات کرے، اور اسے باور کروائے کہ اگر وہ پاکستان کا دوست ہے تو اسے پاکستان کی مشکلات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور علاقائی سطح پر تجارت بڑھانے سمیت توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی ضمن میں پاکستان کی اعانت کرنی چاہئے۔ پابندیوں کی دھمکی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے کو کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بجلی کی ترسیل اور آئی پی گیس پائپ لائن پروجیکٹ باہمی تجارت کو اگلے پانچ سالوں میں 10بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اعلامیہ کے مطابق دورے کے دوران متعدد مفاہمت اور معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ دونوں فریقین نے تسلیم کیا کہ پاکستان ایران مشترکہ سرحد ’’ امن اور دوستی کی سرحد‘‘ ہونی چاہیے۔ فریقین نے خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کے درمیان با قاعدہ تعاون کا اعادہ کیا فریقین نے تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ سرحدی منڈیوں کے قیام سمیت مشتر کہ ترقی پر مبنی اقتصادی منصوبوں کے ذریعے اپنی مشترکہ سرحد کو’’ امن کی سرحد‘‘ سے’’ خوشحالی کی سرحد ‘‘ میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا اعادہ کیا گیا جس میں بجلی کی تجارت، بجلی کی ترسیل اور آئی پی گیس لائن پروجیکٹ شامل ہیں۔ دونوں رہنماں نے اپنی باہمی تجارت کو اگلے پانچ سالوں میں 10بلین امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں فریقوں نے ایک طویل مدتی پائیدار اقتصادی شراکت داری اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی اقتصادی اور روابط کے ماڈل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دونوں فریقین نے برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے دوروں کے باقاعدہ تبادلے کے ذریعے باہمی روابط کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں پڑوسیوں اور مسلم ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو اجاگر کیا گیا۔ دونوں فریقوں نے علمی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اپنے عزم اور لگن کا اعادہ کیا۔ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں، ایرانی صدر سے سیکیورٹی اور تجارت سمیت دوطرفہ پہلوں پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی رشتوں مذہب، تہذیب اور تجارت کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے ۔ ایران پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے دونوں کے تعلقات کی بہت طویل تاریخ ہے اور مختلف شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا سلسلہ جاری ہے جو اطمینان بخش ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کی پاکستان آمد اور اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے اور تجارتی حجم 10ارب ڈالر تک لے جانا اطمینان بخش ہے۔ دو برادر ملکوں میں تجارتی تعلقات کا فروغ علاقہ میں معاشی و اقتصادی ترقی کا باعث بنے گا جس سے عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ تجارتی تعلقات کے فروغ سے دونوں ملکوں میں تعلقات اور قربتیں مزید بڑھیں گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے بھی تعاون موجود رہا ہے لیکن بعض دشمن قوتیں ان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی سازشیں کرتی رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں دونوں ملکوں میں معمولی تلخی پیدا ہوگئی تھی لیکن دونوں ملکوں کی قیادت کی فہم و فراست کے باعث صور حال کو بگڑنے سے بچا لیا گیا جسے امن پسند حلقے سراہا رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے تجربات سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں ایرانی صدر کا مجوزہ دورہ پاکستان نہ صرف دونوں ملکوں میں تجارت کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ انہیں ایک دوسرے کے مزید قریب لائے گا جس سے علاقہ میں ترقی و خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ پاکستان ایران سے تیل و گیس خرید کر اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے لہذا اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button