Column

سرکار کے گھر سرکاری ڈکیتی

تحریر : سیدہ عنبرین
ملک میں جونہی حکومت تبدیل ہوتی ہے، اس کے ثمرات فوراً سامنے آنے لگتے ہیں، اس لحاظ سے جرائم میں اضافہ اور کرنسی کی قدر میں کمی قابل ذکر ہیں، جرائم کی بیخ کنی کرنے والوں کو سال بھر تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد انعامات دئیے جاتے ہیں۔ سال کے آخر میں اعلیٰ افسران کو حسن کارکردگی کے میڈل بھی دئیے جاتے ہیں، بعض اوقات یہ کارکردگی طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتی ہے، کبھی کبھار اچانک بھی ہوجاتی ہے۔ حوصلہ افزائی کے تمام تر اقدامات کے باوجود جرائم میں کمی نہیں آتی بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔
چند روز سے ملک بھر کے علاوہ تمام دنیا میں پاکستان میں ہونے والی دو ڈکیتیوں کا بڑا چرچا ہے، پہلی ڈکیتی کی واردات صرف اخباری رپورٹروں یا میڈیا نمائندوں کی کارکردگی کے سبب منظر عام پر سامنے نہیں آئی۔ ایسی رپورٹوں کو حکومت کی طرف جھٹلا دیا جاتا ہے۔ اس ڈکیتی کی خبر وفاقی وزیر داخلہ جناب محسن نقوی نے دی ہے، انہوں نے بتایا کہ بجلی کی ترسیلی کمپنیوں نے تراسی کروڑ یونٹ بجلی کے جعلی بل بنائے اور صارفین کو ارسال کئے، ان صارفین میں سرکاری اداروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے۔ ظلم اور کرپشن کی انتہا یہ تھی کہ یہ بل ایسے صارفین کو بھی بھیجے گے جو ایک بلب اور ایک پنکھے کو چوبیس گھنٹے نہیں چلا سکتے، کیونکہ ملک کے کسی حصے میں بجلی چوبیس گھنٹے موجود ہی نہیں ہوتی، یوں دن کے نصف حصے کے چند گھنٹوں میں کم ترین بجلی استعمال کرنے والوں کو ہزاروں روپے کے بل بھیجے گئے۔ یہ ان ناکردہ گناہوں کی سزا ہے جو کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کئے۔ ایک ہزار بل والوں کو پانچ سے دس ہزار، دس ہزار والوں کو پچاس ہزار اور پچاس ہزار اور پچاس ہزار روپے تک کی بجلی استعمال کرنے والوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے تک بل بھجوائے گئے۔ پورا پاکستان سراپا احتجاج تھا کسی سطح پر شنوائی نہ ہوئی۔ وزیر داخلہ کی ہدایت پر خصوصی ٹیم نے تحقیقات کا آغاز کیا اور چوروں و ذمہ داروں کو پکڑ لیا۔ اس مرتبہ چوری کرنے یا کرانے والے نچلے درجے کے ملازمین نہ تھے بلکہ ترسیلی کمپنیوں کے سربراہ اور ان کے نایبین تھے۔ قانون حرکت میں آیا، نیب نے ذمہ داران کو پیش ہونے کیلئے نوٹس بھجوائے، یہ مافیا اتنا طاقتور اور خود سر تھا کہ سب نے ان نوٹسز کو جوتے کی نوک پر لکھا، کوئی شخص پیش نہ ہوا۔ دوسری طرف قانون چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھتا رہا کیونکہ ڈاکوئوں کا تعلق اعلیٰ طبقے سے تھا، انہیں بھاگ دوڑ کرنے، اپنی ضمانتیں کرانے کا پورا وقت دیا گیا۔ ان کی جگہ عام آدمی ہوتا تو اس کی ماں، بہن، بچے، گھر کے تمام بزرگ گرفتار ہو چکے ہوتے۔ اطلاعات ہیں کچھ ملوث افراد لمبی چھٹی منظور کرانے اور کچھ ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ابھی تک ملوث افراد کی گرفتاری یا تفتیش و تحقیق آگے بڑھنے کی اطلاعات نہیں آئیں۔
خیال ہے یہ مافیا سیاستدانوں سے روابط پر حکومت کے اہم عہدیداروں کی ملی بھگت سے اپنے آپ کو قانون کے شکنجوں سے بچانے میں اسی طرح کامیاب رہے گا جس طرح ایک سابق وزیر نے سابق وزیر اعظم کے نوٹس میں لا کر سوئی گیس کے جعلی بل صارفین کو بھجوائے، یہ بل کئی ارب روپے مالیت کے تھے، ملک گیر شور برپا ہونے پر تحقیقات ہوئی اور جرم ثابت ہوا۔ صارفین کو لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ہزاروں روپے فی کس لوٹ کر سیکڑوں روپے فی کس واپس کیے گئے۔ وزیر داخلہ جناب محسن نقوی نے اپنا فرض ادا کر دیا، انہوں نے حوصلے اور ہمت کا ثبوت دیا، ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کیلئے ایک اعلیٰ عہدیدار کا تقرر کیا گیا ہے، جو اس سے قبل ایک وزیر کا عہدہ رکھتے تھے، اب وہ ہر وزیر پر حکم چلا سکیں گے اور اس کو اپنے دربار میں حاضر کر سکیں گے۔ بجلی چوری کرنے اور عوام کے ساتھ ساتھ اداروں کو جعلی زائد بل بھجوانے والے مافیا کیخلاف کارروائی نہ ہوئی تو حکومت کا ہر دور میں مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا بیانیہ ایک مرتبہ پھر بری طرح پٹ جائیگا اور ساکھ بہتر بنانے کی کوشش ڈھونگ سمجھی جائیگی۔
دوسری بڑی ڈکیتی نگران حکومت کے زمانے میں ہوئی، نگران حکومت کے کل پرزوں کی قابلیت اور دیانت داری کے بڑے چرچے تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کے پول کھلنے لگے، ان کی رخصتی کے بعد تو ایسا سکینڈل سامنے آیا ہے جس کے بعد اس دور کے ہر کام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اس دوسری مبینہ ڈکیتی کی تفصیلات کے مطابق محکمہ زراعت کے گوداموں میں لاکھوں ٹن گندم موجود تھی جو جاری سال کے ماہ جون تک کی ضرورتوں کیلئے کافی سے کچھ زیادہ تھی۔ آنے والی فصل کے بارے میں تخمینہ تھا کہ یہ گندم کی بمپر کراپ ہو گی۔ لیکن اس کے باوجود لاکھوں ٹن گندم امپورٹ کی گئی، یہ گندم یوکرین سے امپورٹ کی گئی ہے، بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کام کون سے گورا صاحب یا اس کے نمائندوں کے حکم پر کیا گیا۔ ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان تو پہلے جھٹکے میں ہو چکا ہے، دوسرا جھٹکا اس سے کئی گنا زیادہ شدید ہو گا۔ گندم کی بمپر کراپ تیار ہو گئی، کسانوں کو فصل سمیٹنے کیلئے بار دانہ نہ مل سکا، اس کے درخواستیں تاخیر سے طلب کی گئیں اور سیکڑوں درخواستیں نامنظور ہو گئیں۔ فصل تیار ہو گئی۔ اٹھانے والا کوئی نہ تھا، حکومتی کل پرزے آنکھیں موندے پڑے رہے، حتیٰ کہ ملک کے مختلف علاقوں میں بارشیں شروع ہو گئیں۔ کسان، زراعت کے میدان میں موجود مافیا کو اونے پونے گندم پر مجبور ہو گئے، ملک بھر کے کسانوں سراپا احتجاج ہیں، ان کا فقط ایک مطالبہ ہے، مہنگے بیچ، مہنگی کھاد، مہنگی بجلی و پانی کے باوجود انہوں نے بمپر کراپ دی ہے۔ حکومت اس کی سو فیصد خریداری کا انتظام کرے اور کسانوں کو مکمل تباہی سے بچائے۔ حکومت کی طرف سے تاخیر ی حربوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فصل کو بارشوں سے تباہ ہونے سے بچانے کیلئے کم نرخوں پر گندم اٹھوانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کسان تباہ ہو چکا ہے، وہ آئندہ اتنے رقبے پر گندم نہیں لگائے گا۔ یوں آئندہ برس گندم کا بحران ہوگا۔ گندم مہنگے داموں امپورٹ ہو گی، مافیا کی چاندی ہو گی، آٹا مہنگا ہو گا۔ کوئی عوام کا پرسان حال نہ ہوگا۔ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات ہوگی لیکن یوم پاکستان کے مرحلے پر ایسے ہی مکروہ کرداروں کو تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا جائے گا، کبھی سوچا نہ تھا کہ سرکار ہی سرکار کے گھر ڈکیتیاں شروع کر دے گی۔ ذمہ داروں کا تعین نہ ہوگا بلکہ ذمہ داروں کی مراعات میں اضافہ کی جائیگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button