آخری تنکا
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی و معاشی حالات کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ کیا واقعی کوئی بیرونی ہاتھ اس میں ملوث ہے یا اس کے قصور وار ہمارے حکمران و مقتدرہ ہیں؟ یا اس کی ذمہ داری عوام الناس پر ہے کہ آج پاکستان ایسے حالات کا شکار دکھائی دے رہا ہے کہ اس کے ابھرنے کی کوئی امید ہی بظاہر دکھائی نہیں دے رہی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ تمام عوامل ہی شامل رہے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے ان تمام عوامل نے پاکستان کو اپنی منزل اور راستے سے بھٹکا رکھا ہے وگرنہ پاکستان میں اتنی استعداد تھی اور ہے کہ یہ نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکتا ہے بلکہ دن دگنی رات چوگنی ترقی بھی کر سکتا ہے لیکن عاقبت نااندیشوں نے ذاتی ترجیحات کی بنیاد پرایسی پالیسیاں ترتیب دی، کہ آج پاکستان ان حالات کا شکار ہے۔ جمہوری طرز عمل سے معرض وجود میں آنے والی ریاست ہونے کے باوجود ،مسلمہ جمہوری نظام حکومت کے برعکس،یہاں کبھی جمہوری رائے کو اہمیت نہیں دی گئی،حتی کہ جمہوریت کی گردان کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے طرز عمل میں بھی آمریت کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے،خواہ قائد عوام ہوں یا ان کی دخترچاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر ہوں یا مقتدرہ کے کندھوںپر سوار میاں نواز شریف رہے ہوں یا اب عوامی حمایت کے بل بوتے پر قدآور عمران خان ہوں،ان سب کی شخصی آمریت سے بہرطور انکار ممکن نہیں۔اس شخصی آمریت کے پس پردہ عوامل کو بھی بہرطور نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ اس خطے میں ان شخصیات نے قوم کی تعمیر و تربیت میں خلوص کا مظاہرہ ہی نہیں کیا،ان کی تربیت ان خطوط پر نہیں کی گئی کہ انہیں اپنا موقف بیان کرنے کے اجازت ہو اور بعد ازاں ان کی اہمیت بھی باقی رہے کہ دیگر خوشامد پسند افراد کے لئے ایسے مواقع نعمت غیر مترکبہ سے کم نہیں کہ جونہی کسی مخلص ساتھی نے اختلاف رائے دیا،خوشامدی ٹولہ لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ گیا اور اسے قریبی حلقہ احباب سے نکال باہر کیا،یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ بہرحال اس مشق نے ہمیں جو سیاسی قیادت فراہم کی،اس کی دوراندیشی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہی اور تاریخ کے اوراق میں بھی اس پر سوالیہ نشان رہے گا کہ ایک ایسا ملک،جسے بجا طور پر زرعی کہا جاتا ہے،وہاں خوراک کے لالے،ان کم عقلوں کی پالیسیوں کے باعث پڑے دکھائی دیتے ہیں۔صنعتی میدان میں تین/چار دہائیاں قبل تک،اقوام عالم میں اپنی ہنر مندی کا لوہا منوانے والے،آج اپنے پیداواری یونٹس کو بند کرکے ،برآمدی اشیاء پر گذارا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اندرون ملک پیداواری لاگت اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ برآمدی اشیاء کی قیمت فروخت سے زیادہ لاگت ان کی اندرون ملک تیاری پر آتی ہے،لہذا ہنرمندافراد نہ صرف اس سے پہلو تہی کر چکے ہیں بلکہ بتدریج ہنر بھی ملک سے ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
بارہا اس امر پر لکھا جا چکا ہے کہ لمحہ موجود میں صنعتی و زراعتی ترقی کے لئے،بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے،جبکہ اس کا حصول پاکستان میں اب ایک آسائش سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے،اس کی قیمت خرید نے شہریوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں ،بجلی کی قیمت گھریلو صارفین کی پہنچ سے کہیں باہر ہو چکی ہے،ان حالات میں صنعتکار اس بجلی سے کیسے اور کیونکر اپنا صنعتی پہیہ رواں دواں رکھ سکتا ہے؟نتیجہ یہ ہے کہ بیشتر صنعتکار اپنا سرمایہ ایسے ممالک میں لے جا چکا ہے جہاں اس کی پیداواری لاگت کم ،سرمایہ محفوظ اور منافع زیادہ ہو،جو ہرسرمایہ کار کا مطمع نظر ہوتا ہے،البتہ اس مشق میں اندرون ملک جہاں سرمایہ کاری و صنعتکاری کم/ختم ہوئی وہاں مقامی آبادی کے لئے ملازمتیں بھی کم ہوتے ہوتے ناپید ہونا شروع ہو گئی۔ہوس زر میں مبتلا پاکستانی اشرافیہ نے مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگاکر ،ذاتی تجوریاں تو بھری لیکن پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے مشکلات کانہ ختم ہونے والے دور کا دروازہ کھول دیا،جس کے نتائج آج ملک میں سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سستی ترین بجلی کا حصول پانی سے ممکن ہے ،جو پاکستان میں وافر میسر ہے لیکن ترجیحات کے غلط تعین نے اشرافیہ کو اس طرف آنے کی بجائے ،ذاتی تجوریاں بھرنے پر مائل رکھا۔مزید برآں ان مہنگے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں سے جو معاہدے کئے گئے،ان کے باعث ہر آنے والے دن میں اس کی لاگت مسلسل بڑھتی جارہی ہے،حد تو یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف،جس کے قرضوں پر ہماری معیشت کھڑی ہے،اس کے ذیلی ادارے کی مبینہ طور پر ان نجی بجلی گھروں میں شراکت داری نے ،پاکستانی وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ابتدائی دور میںتعمیر کئے گئے دو بڑے آبی ذخائر کے بعد ،تحریک انصاف کے دور میں ،آبی وسائل پر کام ضرور شروع ہوا لیکن ان کی تکمیل ہنوز دور ہے اور یہاں سے بجلی کی پیداوار ابھی تک قومی گرڈ میں شامل نہیں ہوسکی ،رجیم چینج کی ایک بڑی وجہ مبینہ طور پر یہ بھی گردانی جاتی ہے کہ عمران خان کیوں ’’سٹیٹس کو‘‘ کے خلاف جاکر پاکستان کو ایسے عالمی اداروں اور مقامی مفاد پرستوں کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کررہے تھے،کیوں ان کی روزی پر لات ماری جا رہی تھی ؟بالخصوص اس وقت جب عالمی اداروں کی منشاء ہی یہی ہے کہ پاکستان کو
کسی بھی طور خودمختار و مستحکم نہیں ہونے دیا جائے گا بلکہ اسے ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے زندہ رکھا جائے تا کہ وہ کسی بھی صورت عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔اس حقیقت کو تقویت غلام حکومتوں کے عمل سے بخوبی ملتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں کو جس طرح ہڑپ کیا گیا ہے اور جس طرح ان کے کہنے پر عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عالمی مالیاتی اداروں کے قرض ہیں کہ مسلسل بڑھتے جارہے ہیں ،ان قرضوں سے پاکستان کی گلو خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی بلکہ آج تو صورتحال یہ ہے کہ ان قرضوں پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لئے بھی سود پر قرض لیا جا رہا ہے اور اب نوبت یہ آ چکی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے،بوجوہ استطاعت نہ ہونے پر قرض دینے سے انکار کررہے ہیں،یہ حالات پاکستان کو کس طرف لے جا رہے ہیں؟واقفان حال کے لئے یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی جوہری صلاحیت ہی کو ختم نہیں کرنابلکہ خطے میں اس کی حیثیت ایک طفیلی سے زیادہ نہیں رکھی جائیگی،ان حالات کا ذمہ دار کسے ٹھہرایاجا سکتا ہے؟
حیرت تو اس امر پر ہوتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضوں کے بدلے،یہی عالمی مالیاتی ادارے ہیں جو ہماری معاشی پالیسیاں ترتیب دیتے دکھائی دیتے ہیں،اپنے قرضوں کی وصولی کی خاطر،عوام الناس پر ٹیکسوں کا بوجھ دن بدن بڑھاتے جارہے ہیں لیکن دوسری طرف ٹیکس وصولی کی باوجود،قرض ہیں کہ وہیں کے وہیں موجود ہیں بلکہ روزبروز ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جیسے جیسے ٹیکس بڑھ رہے ہیں،ویسے ویسے اشرافیہ کے ذاتی اثاثوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور قرضوں کا حجم بھی اسی اعتبار سے بڑھ رہا ہے لیکن صد افسوس کہ اشرافیہ و مقتدرہ کو اس کا رتی برابر احساس دکھائی نہیں دے رہا۔ٹیکسوں کے اعدھام میں ،عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے اور اس کی آمدن کا بیشتر حصہ یوٹیلیٹی بلز کی نذر ہو رہا ہے،ان کے لئے دووقت کی روٹی،بچوں کی تعلیم و تربیت ،سوشل زندگی کسی عذاب سے کم دکھائی نہیں دیتی کہ پیر ڈھانپتے ہیں تو منہ ننگا اور اگر منہ ڈھانپتے ہیں تو پیر ننگے ہوتے ہیں۔اس پس منظر میں ،غیر آئینی پریس کانفرنسوں میں مجاز نہ ہونے کے باوجود ،کسی ایک سیاسی جماعت کو انتشار پسند ٹولہ کہنا،اس سے غیر مشروط معافی کا تقاضہ کرنا ،عوامی مینڈیٹ کی توہین کے علاوہ کیا کہلا سکتا ہے؟یہ طرز عمل عوام کو انگیخت کرنے کے علاوہ کیا کر سکتا ہے؟تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ،سقوط ڈھاکہ کے بنیادی عنصر میں بھی یہی حقیقت کارفرما تھی کہ عوامی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تھا اور آج بھی حقیقت یہی ہے کہ عوامی رائے کا احترام کرنے سے گریزاں دکھائی دے رہے ہیں،سقوط ڈھاکہ میں بھی عوامی حقوق کو سلب کیا جا رہا تھا ،عوام کو ’’ دو ٹکے کے آدمی‘‘ کہا جا رہا تھا اور آج بھی صورتحال ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔بجلی ،گیس،پانی،تیل کے علاوہ آٹے کی گراں قیمتوں نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ،آزاد کشمیر کی عوام سڑکوں پر موجود،اس ظلم کے خلاف متحد ہو کر بر سرپیکار ہے،لاٹھی ،گولی سے ان کے احتجاج کو دبانے کی کوششوں سے کشمیر کاز کو تو نقصان ہو گا ہی لیکن جو نعرے آزادکشمیر میں گونج رہے ہیں، ’’ کسی‘‘ کان میں سنائی دیں گے یا یہاں بھی رویہ ڈھاکہ ہی کی مانند ہوگا؟سوچ کر ہی خوف آتا ہے،لرز جاتا ہوں کہ اگر یہی صورتحال پنجاب کے میدانوں میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے سامنے ہو تو،کیا ہو سکتا ہے؟بہرطور بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ کشمیر عوام کا احتجاج اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ’’ آخری تنکا‘‘ بھی لد چکا،اس سے نقصان کون اٹھائے گا،عوام یا اشرافیہ،ریاست یا مقتدرہ، اس کا فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں۔