Column

حضرت امیر خسروؒ

تحریر: ضیاء الحق سرحدی
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
امیر خسرو کا پورا نام ابو حسن یامین الدین خسروؒ تھا آپ 1255ء میں پیدا ہوئے رب کریم کے سوا کون جانتا تھا کہ سیف الدین شمسی کے گھر پیدا ہونے والا یہ بچہ آنے والے دور میں برصغیر میں اپنی صوفیانہ شاعری اور موسیقی کا جادو جگائے گا امیر خسروؒ کا آبائی گائوں اتر پردیش پٹیالہ میں ہے آپ کے والد سیف الدین ترک نژاد تھے انہوں نے 1206میں دہلی کی طرف ہجرت کی۔ امیر خسروؒ کی پیدائش پر ایک صوفی درویش نے آپ ؒ کے والد کو کہا تھا کہ تم ایک ایسے بچے کے باپ ہو جو بلبل سے بھی دو قدم آگے جائے گا۔ حضرت امیر خسروؒ کے والد محترم کی پیدائش شہر کش میں ہوئی ان کا تعلق قبیلہ لاچین سے تھا۔ اس قبیلے کا شجرہ نسب قرشیوں سے جا ملتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا اپنی برادری کے افراد سے جھگڑا ہوگیا تو امیر محمود اپنے اعزہ کو لیکر بلخ کے نواح میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ایک مدت یہاں مقیم رہے لیکن یہاں بھی بحسب تقدیر و لکیر ہوکر کابل کے مضافات میں واقع گائوں غور بند میں چلے آئے۔ مخزن اخبار کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت امیر خسروؒ اسی گائوں میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد امیر محمود نے ان کا نام ابوالحسن رکھا اور یمین الدین کے لقب سے نوازا۔ امیر خسروؒ کی پیدائش کے بعد گھر میں مال و دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ امیر خسروؒ کی عمر ابھی پانچ سال کی تھی کہ تموچن خان عرف چنگیز خان نے کابل پر دھاوا بول دیا۔ امیر محمود نے چنگیزخان کے متوقع ظلم و ستم کے پیش نظر ہندوستان کی طرف ہجرت اختیار کر لی اور سلطان محمد تغلق کے ہاں پناہ لی۔ سلطان محمد تغلق نے امیر محمود کی آمد کو اپنے لئے نیک فال تصور کیا۔ اس پر بہت سی نوازشیں کیں اور اسے دربار میں ایک عظیم فرد کا عہدہ تفویض کیا۔ اسے سیف الدین کے خطاب سے نوازا گیا۔ امیر محمود سیف الدین نے قابل تعریف کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ آخر پچاسی سال کی عمر میں کفار کے ہاتھوں ایک جہاد میں شہید ہوئے۔ حضرت امیر خسروؒ نے اپنے والد کی شہادت پر ایک دردناک مرثیہ لکھا جس کا مطلع یہ ہے:
سیف از سرم گزشتہ و دل من دونیم ماند
دریائے من روان شد و در یتیم ماند
ہمارے صوفیا ئے کرام نے قوالی کو تزکیہ نفس و تصفیہ قلب کا ذریعہ قرار دیا۔ حضرت امیر خسروؒ کو موجودہ موسیقی کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔ امیر خسروؒ ایک عجیب و غریب Geniusتھے۔ ان کی شخصیت پہلو دار تھی۔ انہوں نے گیارہ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ سات بادشاہوں کے مشیر و وزیر رہے۔ پانچ لاکھ شعر فارسی میں کہے اور ’’ طوطئی ہند‘‘ کہلائے۔ اردو زبان کے موسس بھی خسرو ہی ہیں۔ ان کی پہیلیاں ، کہہ مکرنیاں ، دو سخنے اور لطیفے آج تک زباں زد خلائق ہیں۔ علماء الدین خلجی کے دربار میں جب ان کا مقابلہ جگت گرونا یک گو پال سے ہوا تو اسے نیچا دکھانے کے لئے انہوں نے دُھرپد کے مقابلے میں طرح طرح کی اختراعین اسے سنائیں۔ نایک گوپال ان کی موسیقانہ ذہانت کو دیکھ کر اتنا مرعوب ہوا کہ ان کا شاگرد ہو گیا ۔امیر خسروؒ کی ان اختراعات میں سے قول ،قلبانہ،نقش ،گل،ہوا،بسیط،موہلہ ، ترانہ، تروٹ اور منڈھا اب بھی ہماری موسیقی کی مایہ ناز Formsسمجھی جاتی ہیں، قول ہی سے قو ّال اور قوالی کے الفاظ مشتق ہیں۔بعد میں قوالی ایک مخصوص قسم کا گانا بن گیا جس میں متصوفانہ کلام گایا جانے لگا اور الفاظ اور مصرعوں کی تکرار سے تاثر پیدا کیا جانے لگا۔اہل دل پر اس گانے کو اتنا اثر ہوتا ہے کہ ان پر وجدوحال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے بلکہ اکثر وجد میں جان تن سے جدا بھی ہوگئی جیسا کہ روایت ہے کہ
کشتیگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
پر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ پر تین دن تک حال کی کیفیت طاری رہی اور اسی شعر پر آخر ان کا طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا۔ حضرت امیر خسروؒ اپنی جوانی میں ’’ سلطانی‘‘ تخلص کیا کرتے تھے۔ آپؒ کو تعلیم و تربیت کیلئے انہیں ان کے ماموں عماد الملک کے سپرد کیا گیا چنانچہ حضرت امیر خسرو نی غر الکمال کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ عماد الملک ایک عالم و فاضل شخص تھا۔ جنوبی ایشیاء میں جن صوفیائے کرام نے اسلام کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں عظیم صوفی شاعر حضرت امیر خسروؒ کا نام بھی نمایاں ہے آپ کلاسیکل موسیقی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں امیر خسروؒ کو فارسی شاعری میں درجہ کمال حاصل تھا۔ امیر خسروؒ کی عمر جب آٹھ سال تھی تو آپ کے والد وفات پا گئے ۔ آپ کی والدہ آپ کو دادا کے پاس لے کر دہلی آئیں امیر خسروؒ کے دادا عماد الملک غیاث الدین، بلبن کے دربار میں کام کرتے تھے دہلی جیسے مرکزِ علم وفن اور پررونق شہر میں جوان امیر خسروؒ نے اپنے دادا کے مکان میں شاعری اور تخلیقی کاموں سے جلد ہی اپنا مقام بنانا شروع کیا۔ سولہ سال کی عمر تک خسروؒ کے ہاتھ میں جو بھی کتاب لگی وہ اس کے مصنف کے فن کو کمپوزیشن میں سمونے کی کوشش کرتے 1271ء میں امیر خسروؒ نے اپنا شاعری کا پہلا دیوان مرتب کیا جس کا نام ’’ تحفہ العفر‘‘ تھا خسرو اس کے اگلے سال سے ہی شاہی دربار کے ساتھ منسلک ہوئے 1279ء میں خسروؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’ وسط الحیات‘‘ لکھی۔ دہلی کے شاہی دربار سے تعلق رکھنے والے امیر خسروؒ کا روحانی تعلق حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ سے تھا جنہوں نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ سے فیض پایا تھا۔ آپؒ نے 1310ء میں خواجہ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔
قارئین کرام اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیائؒ کی اپنے پیارے مرید خاص سے کتنا پیار تھا، خسروؒ لکھتے ہیں کہ میں نے محبوب سے پوچھا کہ چاند سے روشن تر کون ہے محبوب نے جھٹ جواب دیا میرے رخسار کے سوا کون ہوسکتا ہے۔
گفت، کہ روشن از قمر؟ گفتاکہ رخسار من
پھر شاعر محبوب سے پوچھتا ہے کہ کس کی باتیں شہد سے شیریں تر ہیں تو محبوب کی طرف سے جواب آتا ہے میری اور کس کی۔
گفتم کہ شیریں از شکر؟ گفتا کہ گفتارمن
پھر شاعر نے پوچھا عاشقوں کی موت کیوں کر واقع ہوتی ہے جواب آتا ہے کہ میرا فراق انہیں مارکے رکھ دیتا ہے اور کہا۔
گفتم کہ مرگ عاشقاںَ گفتا کہ درہجر من
پھر خسرو نے پوچھا کہ اس کا علاج کیا ہے جواب آیا کہ میرا دیدارووصال۔
گفتم کہ علاج زندگی؟ گفتا کہ دیدار من
پھر شاعر پوچھتا ہے کہ اے محبوب تم حور ہو یا پری، تو وہ بڑے ناز و انداز سے کہتا ہے میں اپنی مرضی کا مالک بادشاہ ہوں تو کون ہے پوچھنے والا۔
گفتم کہ حوری یا پری؟ گفتا کہ من شاہ زمن
امیر خسروؒ کی حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے ساتھ وابستگی 1310ء میں ہوئی اس وابستگی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے امیر خسروؒ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی خانقاہ پر پہنچے تو ایک ہی دم خانقاہ میں داخل نہیں ہوئے بلکہ گیٹ پر بیٹھ کر کچھ اشعار لکھے جس کے جواب میں خواجہ صاحبؒ نے بھی جواباً اشعار بھجوائے امیر خسروؒ نے جب خواجہ صاحبؒ کے اشعار سنے تو جان گئے کہ وہ ایک درست مقام پر پہنچے ہیں۔ امیر خسروؒ تمام دن شاہی دربار میں خدمات سرانجام دیتے اور رات کو خواجہ صاحبؒ کے پاس روحانی تزکیہ نفس کرتے خواجہ صاحبؒ کی نظر و کرم سے خسروؒ انمول ہو گئے ۔ امیر خسروؒ کا دل خواجہ صاحب کی درگاہ کے ساتھ اٹکا رہتا تھا خواجہ صاحب کو بھی امیر خسروؒ بہت عزیز تھے ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒسلسلہ نظامیہ کے بانی تھے آپ بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے خلیفہ تھے خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے پیروکار تھے ایک دن سلطان جلال الدین خلیجی نے امیر خسروؒ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ خواجہ نظام الدین اولیائؒ سے ملنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی خواجہ صاحب کو اس کے آنے کی اطلاع نہ دی جائے امیر خسروؒ یہ سن کر سخت پریشان ہوئے لیکن آخر کار خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ سے ساری بات بتادی خواجہ صاحبؒ خلجی سے ملنا نہیں چاہتے تھے اور خانقاہ سے چلے گئے جب خلجی کو معلوم ہوا توامیر خسروؒ سے پوچھا کہ اس نے سلطان خلجی سے بدعہدی کیوں کی خسروؒ نے جواب دیا کہ بادشاہ وقت سے بے وفائی کر کے فقط اس دنیا میں خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)

لیکن خواجہ صاحبؒ سے بے وفائی کر کے میں دین اور دنیا دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا جو مجھے گوارہ نہیں تھا سلطان خلجی نے امیر خسروؒ کا جواب سن کر سر جھکا لیا۔ حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے حضرت امیر خسرو دہلویؒ کو مثنوی اسرار و رموز میں ظاہر و باطن خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
خسرو شیرین بیاں رنگین زبان
نغمہ بالش از ضمیر کن فکاں
شاعر نامی و گرامی عماد الدین نور الدین عبدالرحمان جامی نے بہارستان میں لکھا ہے کہ امیر خسروؒ شعر میں صاحب تفنن شخصیت ہیں۔ علامہ شبلی بھی حضرت امیر خسروؒ کو برصغیر کا سب سے بڑا شاعر کہتے ہیں اردو کے پہلے اشعار بھی آپؒ نے کہے ۔
تعال مسکین مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجران نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے گھائے چھتیاں
انہوں نے قصیدہ، غزل اور مثنوی کو اپنایا اور تینوں کوبام عروج تک پہنچایا۔ آپ کی مثنویوں کی شان ہی الگ ہے۔ یہ مثنویاں پوری آب و تاب سے چاپ ہو چکی ہیں۔ حضرت امیر خسروؒ نے اپنے رسائل میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے اشعار کی تعداد پانچ لاکھ سے ذرا کم ہے۔ اہل تحقیق کی کاوشوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امیر خسروؒ نکتہ سنجاں اور سرور خرد مندان ہونے کے علاوہ علم موسیقی میں مہارت نامہ اور مزاولت خاصہ رکھتے تھے، اہلِ ہندان کی تصنیفات سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ محبوب الٰہی کی قربت و خدا اور رسولؐ اللہ میں حضرت خواجہ امیر خسروؒ اور حضرت بو علی شاہ قلندرؒ پانی پتی کا وہ واقعہ جو قلندر صاحب نے بزم حبیب کی مجلس قدسی میں ملاحظہ کیا اور امیر خسروؒ صاحب نے اپنے شیخ کا یہ مرتبہ اختصاص اپنی کھلی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا تو بے ساختہ و فی البدیہ کہہ اٹھے کہ
خدا خود میر مجلس بو داندر لا مکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم
حضرت محبوب الٰہی کی بارگاہ جلال میں حضرت امیر خسرو ؒ کو کیا مقام حاصل تھا اس کا اندازہ حضرت نظام الدین اولیائؒ کے اقوال مبارکہ سے ہو تا ہے آپؒ فر ما یا کرتے تھے اگر قیامت میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ نظام الدینؒ تو دنیا سے کیا لے کر آیا ہے تو میں عرض کرونگا کہ ’’ ترک کے سینے کا سوز لا یا ہوں‘‘ حضرت محبوب الٰہی حضرت امیرخسرو ؒ کو کبھی ترک اور کبھی ترک زادہ کہہ کر پکارتے تھے، معتبر روایت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒکبھی کبھی ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اے اللہ‘‘ اس ترک کے سوز دراں کے طفیل مجھے بخش دے، امیر خسروؒ جس وقت چاہتے بلا تکلف اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہو جاتے یہ ایک منفرد اعزاز تھا جو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مریدوں میں امیر خسروؒ کے سوا کسی کو حاصل نہیں تھا۔
امیر خسروؒ بجر تصوف کے بھی بہت بڑے شناور اور حضرت نظام الدین اولیائؒ کے خاص الخاص مرید تھے۔ حضرت نظام الدین اولیائؒ کو ان سے دلی محبت تھی اور حضرت امیر خسروؒ بھی ان کے قدموں میں سر رکھ کر سو جایا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے شیخ نظام الدین اولیائؒ کی انتقال کی خبر سنی تو آپ شہر ہی میں تھے فوراًپہنچے اور اپنے شیخ چار پائی پر کپڑا اوڑھے دیکھا تو یہ شعر پڑھا اور خود بھی اپنے شیخ کے پیچھے پیچھے ہی داعی اجل کو لبیک کہی۔ جب یہ شہنشاہ سخن، پیکر صفا، مجسم وفا، عاشق بربلا، نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اس وقت آپ کی عمر مبارک74سال اور یہ 725ھ 18شوال کی شب کو دنیا ایک ماہر فن ہرب ادیب، سخنور ہفت زبان شاعر، موسیقار ، عالم اور صوفی سے محروم ہوگئی۔ آپؒ کے عُرس مبارک کی تقریبات18شوال سے شروع ہو جاتی ہیں۔ حضرت نظام الدینؒ کے مزار سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد اب بھی بستی نظام الدین اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ جہاں جب وہ نماز پڑھاتے تو دلی کے بڑے بڑے رئوسا اور شہزادے آکر پچھلی صفوں میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور ان کے سلام پھیرتے ہی الٹے قدم باہر نکل جایا کرتے۔ حضرت امیر خسروؒ اور دوسرے بڑے بڑے صوفیاء و اہل اللہ اس مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔ دلی جانے والا ہر مسلمان اس مسجد میں دو نفل ضرور ادا کرنا چاہتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button