Columnمحمد مبشر انوار

پابندیاں

محمد مبشرانوار (ریاض)
کرہ ارض کا نظام چلانے کے لئے،خلیفہ اللہ نے بتدریج ترقی کی ہے اور غاروں سے نکل کر جدید دور تک پہنچا ہے،جہاں زندگی کی آسائشیں و تعیش کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے انداز بدل چکے ہیں۔ البتہ اگر کوئی چیز نہیں بدلی تو وہ انسانوں پر حکومت کرنے ،انہیں محکوم رکھنے اور ہوس اقتدار کی فطری جبلت نہیں بدلی،آج بھی طاقتوروں کی سوچ میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہی سمائی ہے تاہم اس کا طریقہ کار بدل چکا ہے ۔ اس تبدیل شدہ طریقہ کار میں، سازشیں بھی ہیں ،جارحیت بھی ہے،معیشت بھی ہے ،دہرے کردار بھی ہیں اور ناانصافی کا بنیادی عنصر بھی شامل ہیں کہ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ کمزوروں کو محکوم رکھا جا سکے،اقربا پروری کئے بغیر طاقتوروں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے نا پسندیدہ گروہ کو قابو کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔بغور دیکھیں تو یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ بنیادی طور پر یہی وہ عناصر تھے جو ماضی میں بھی حکومتیں قائم رکھنے کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن ماضی بعید میں ان عناصر کا استعمال یوں عام انسانوں تک نہیں پہنچتا تھا بلکہ انہیں تو بس اس وقت علم ہوتا تھا کہ جب کوئی طاقتور ،اپنے لائولشکر کے ساتھ ان کی سرزمین پر چڑھ دوڑتا،ان کے کھیتوں کھلیانوں کو نذر آتش کر دیتا،ان کی عورتوں بچوں کو اٹھا لیتا،بوڑھوں کو تہ تیغ کر دیتا،خزانے کو لوٹ لیتا،حکمرانوں کو زندانوں کی نذر کر دیتا اور دل کھول کر عوام کا خون نچوڑتالیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔ عوام ایک حکمران کی رعیت سے نکل کر دوسرے حکمران کی رعیت میں شامل ہو جاتے اور کچھ برس بعد زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتی تاآنکہ سابق حکمران نئی فوج ،نئے جذبے اور نئی طاقت کے ساتھ حملہ آور نہیں ہوکر اپنا مفتوحہ ملک واگزار نہیں کروالیتا،ایسا تاریخ میں بارہا ہوا کہ شکست خوردہ حکمرانوں نے اپنا ملک دوبارہ آزاد کروا کراس پر حکمرانی کی ہو۔بالعموم جارحیت کا ارتکاب کرنے والی ریاستوں کو ان کے جاسوس نہ صرف اندرونی خبروں سے باخبر کرتے بلکہ جارحیت کے لئے فضا بھی سازگار بناتے اور اس مقصد کے لئے مذکورہ ریاست کی کمزوریوں کو نہ صرف بڑھاتے اور عوام کو حکمرانوں سے متنفر بھی کرتے۔اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا تھا بلکہ حکمرانوں کو عیش و عشرت کے لئے آمادہ کرنا،ریاستی دفاع سے غافل کرنا اور انہیں دیگر مشاغل میں مشغول رکھنے کی کوششیں جاری رہتی،ریاستی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اس کی قیمت عوام کے خون پسینے سے وصول کروائی جاتی۔ ان حالات میں امن و امان کی صورتحال انتائی دگر گوں دکھائی دیتی اور عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر حکمرانوں کے لئے بددعائیں کرتے اور کسی بیرونی جارح کی جارحیت پر اپنی ہی فوج کے خلاف کھڑے نظرآتے ہیںتاہم مستثنیات اس میں ہمیشہ موجود رہتی کہ وہی درحقیقت بیدار مغز اور قوم پرست لوگ ہوتے،جن کی شنوائی بہرطور نہ ہو پاتی۔
آج کے دور میں بھی تقریبا یہ سارے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں،سانپ اور سیڑھی کا کھیل کہیں یا ہوس اقتدار و توسیع پسندی کہیں یا دنیا کو فتح کرنا سمجھیں ،یہ تمام حربے ،جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ آج بھی بروئے کار آتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہوس زر کے پجاری آج بھی عالمی طاقتوں کو میسر ہیں ،جو ذاتی مفادات کے حصول کی
خاطر،ملک و قوم کو بیچنے کے لئے تیار دکھائی دیتے ہیں،اس کی واضح مثال پاکستانی سیاست میں دیکھی جا سکتی ہے کہ کس طرح اغیار کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے بچھے جاتے ہیں لیکن اپنی ہی قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے لئے اور حق رائے دہی کے لئے،کیسی کیسی قربانیاں دی جار ہی ہیں،کیسے کیسے گوہر نایاب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کیسے کیسے جغادریوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا چکا ہے تا کہ ریاست پاکستان کو اپنے قابو میں رکھا جا سکے اور عالمی سطح پر ہونے والی ناانصافی پر اس کی زبان بندی کی جا سکے۔قارئین! یقینا سوچ رہے ہوںگے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرسکے،تو مکررعرض ہے کہ قرضوں کی دلدل میں دھنسنے سے قبل تک عالمی سطح پر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف توانا آواز پاکستان ہی کی ہوتی تھی،بالخصوص عالم اسلام میں ہونے والی کسی بھی جارحیت یا ناانصافی کے خلاف سب سے پہلے پاکستان ہی اپنی آواز بلند کرتا تھا۔ مشرق وسطی کے سینے میں صیہونی خنجر پیوست ہونے پر ،معرض وجود میں آئے فقط ایک سال ہی میں،یہ پاکستان ہی تھا جس نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کو غلط قرار دیا تھا،پاکستان ہی تھا کہ مشرق وسطی میں ہونے والی جنگوں میں جس کے ہوابازوں نے اسرائیلی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوائے تھے،پاکستان ہی تھا جہاں بیت المقدس پر یہودی قبضے کے خلاف حکمران اور عوام سڑکوں پر نکلے تھے،اور یہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں ،صرف چند دہائیاں قبل کی بات ہے جبکہ آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان کی سڑکوں پر فلسطین کے حمایت
میں نکلنے والوں کو سخت مسائل کا سامنا ہے،انہیں اس ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی کہ مبادا کہیں آقا ناراض نہ ہو جائیں۔ہماری معاشی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو جائے،عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوئی بھی قدم صرف اس لئے نہیں اٹھا سکتے کہ عالمی طاقت کے ماتھے پر شکن نمودا ر نہ ہو جائے،لہذاجو پالیسی ہمیں دی جائے گی،اسی پر عمل پیرا ہونا ہمارا فرض اولین ٹھہرے گا وگرنہ صرف اشارہ ابرو سے ہمارا سارے کا سارا نظام حکومت زمین بوس ہوجائے گا۔پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لئے ،ساری دنیابالعموم اور عالمی طاقت کے لئے بالخصوص انتہائی اہمیت کا حامل ہے ،جس کے باعث پاکستان اپنے لئے بہت سے سہولیات کشید کر سکتا تھا لیکن بونی سیاسی قیادت و آمریت کے قلیل مدتی منصوبوں کے باعث،پاکستان اپنی اس حیثیت سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔ آج حالات انتہائی تیزی سے بدل رہے ہیں اور پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کے باوجود،غیر اہم و غیر فعال ہوتا نظر آ رہا ہے،کہ چین جیسی معاشی طاقت کے لئے ،متبادل انتظامات کرنا،معمولی بات ہو چکی ہے جبکہ پاکستان اپنے اندرونی حالات کے باعث جس طرح بیرونی دباؤ کا شکار ہے،چین کے مستقبل کے طے کردہ منصوبوں پر تیز رفتاری سے عمل کرنا ممکن نہیں رہا اور چین اپنے منصوبوں کی تکمیل میں ایسی غیر ضروری تاخیر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ،لہذا متبادل راستوں کی تیاری پر کام شروع کر چکا ہے۔جو ثمرات پاکستان کو چین کے منصوبوں سے حاصل ہونے والے تھے،پاکستان ان سے ہاتھ دھوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف جو اہم ترین معاملات مشرق وسطی میں روپذیر ہور ہے ہیں،امریکہ ان سے بری طرح متاثر دکھائی دے رہا ہے اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مسائل امریکہ نے خود اپنے لئے تیار کر رکھے ہیں ۔ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کے لئے لازم تھا کہ پالیسیاں ترتیب دیتے وقت،کسی ایک ملک یا قوم کو سامنے رکھنے کے بجائے،دنیا بھر کے امن کو ملحوظ رکھتے ہوئے ،پالیسیاں ترتیب دیتا تو امن عالم کو یوں خطرات لاحق نہ ہوتے اور نہ ہی عالمی برادری ایسی غیر منصفانہ پالیسیوں پر سخت ردعمل دیتی،کاروبار دنیا ترتیب کے ساتھ رواں دواں رہتا لیکن اختیار کلی کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ انصاف کے ساتھ بروئے کار آنا ممکن نہیں رہتا۔یہی صورتحال اس وقت امریکہ کو درپیش ہے کہ مشرق وسطی میں صرف اسرائیل کے بے جا حمایت میں امریکہ اپنی عالمی حیثیت پر سمجھوتہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور اسرائیلی جارحیت کو مسلسل ہٹ دھرمی کے ساتھ حق دفاع گردانتے نہیں تھکتا اور کسی بھی دوسری ریاست کو یہ اجازت دینے کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ اسرائیل کے ظالمانہ ہاتھ کو روک سکے۔حیرت تو اس امر پر ہے کہ امریکہ کو اسرائیلی مظالم کی ہر تفصیل ازبر ہے،اس کے منصوبوں سے بھی باخبر ہے لیکن اس کے باوجود امن عالم کی خاطر اسرائیل کو روکنے کی بجائے،اس کے خلاف بروئے کار آنے والوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے البتہ شنید یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کی ایک بٹالین کو دہشت گرد بٹالین قرار دے رہا ہے،جسے نیتن یاہو تسلیم کرنی کے لئے تیار نہیں،بعینہ اپنی غیر جانبدارانہ پالیسیوں کے باعث،آج امریکہ کی ایسی پابندیوں کو دیگر ممالک بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں وہ خواہ چین و روس و بسلا روس کی دفاعی سازوسامان کی کمپنیاں ہوں یا پاک ایران گیس پائپ لائن ہو،ایسی جانبدارانہ پابندیوں کی خلاف ورزی پر امریکی حیثیت کم ہی ہو گی،جسے سوچنا امریکہ کا کام ہے کہ اقوام عالم ایسی پابندیوں سے بغاوت کررہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button