ColumnTajamul Hussain Hashmi

سلیکشن سے فیض یاب ہیں

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
یونین کونسل پھر ضلع کی سطح پر منتخب ہونے والی قیادت ہی پارٹی چیئرمین کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ سب کم وقت میں کیسے ممکن ہوگا۔ کم وقت میں الیکشن نہیں سلیکشن ہی ہو گی۔ انٹرا پارٹی الیکشن میں سلیکشن سے کام چلایا جاتا ہے۔ پارٹیاں جب زیر عتاب آتی ہیں، کئی مشکلات درد سر بن جاتی ہیں۔ کئی وفادار در چھوڑ جاتے ہیں، وفا تو کمزور خاندانی سیاست ہی کرتی ہے، کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ ساری زندگی کبھی پارٹی صدارت نصیب نہیں ہو گی اور نا کبھی وزیر اعظم کی کرسی نصیب ہو گی۔ منسٹر کے لیے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ن لیگ جب زیر عتاب تھی تو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں مشکلات تھیں، جس کا ذکر جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ میں باغی ہوں ‘‘ میں کیا ہے۔ پارٹیوں میں جمہوریت نہیں، کیونکہ پارٹیاں قیادت کے گرد ہی تو گھومتی ہیں، جس طرح بھٹو کو جیل میں بند کر کے ان کی زندگی میں پیپلز پارٹی کی متبادل قیادت تیار نہ کی جا سکی، لیکن بی بی شہید کے بعد بلاول مرکزی کردار ہے لیکن اس کو آج بھی سیاسی فیصلوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نواز شریف کی جلا وطنی سے ن لیگ میں ان کا نعم البدل تیار نہیں ہو سکا اور اسی طرح اب عمران خان چاہے جیل میں رہیں لیکن پی ٹی آئی کا دوسرا نام عمران خان ہی رہے گا۔ کاغذوں میں نام ضرور نکل سکتا ہے لیکن ووٹ بینک ختم نہیں ہو سکتا، انٹرا پارٹی الیکشن ہی پارٹی قیادت کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن کم وقت میں کیسے ممکن ہوگا، یہ تحریک انصاف کے لیے مشکل مرحلہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا فیصلہ آ چکا ہے۔ اس سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر رہنما پارٹی چھوڑ کر پاکستان تحریک استحکام میں جا چکے ہیں، جو بچے ہیں وہ پولیس سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ وکلا کو قیادت اور عہدے تو دئیے جاسکتے ہیں لیکن حقیقت میں مہم چلانے اور الیکشن لڑنے کے لیے سیاسی رہنمائوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں کسی پارٹی میں جمہوریت نہیں کیونکہ پارٹیاں قیادت کے گرد ہی گھومتی ہیں اور ان کے اندر سے بھی کبھی کسی رہنما نے اس غیر جمہوری سوچ کے خلاف آواز بلند نہیں کی، کسی ایک نے اگر ہمت بھی کی تو اس کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ عوام کا رویہ بھی غیر جمہوری رہا۔ سابق وزیر محمد علی درانی کے نیشنل یونٹی یا مولانا کے مخلوط گورنمنٹ کے پلان کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اگر پارٹیاں قیادت کے گرد نہ گھومتی، ہمارے ہاں جمہوریت نہیں شخصیات کا ہی ووٹ ہے۔ یہ سوچ تبدیل نہیں ہو سکی۔ نئے پاکستان کے نعرے
والوں نے بھی وہی طرز عمل اختیار رکھا جو دوسری سیاسی جماعتیں ماضی میں کرتی آئیں۔ نواز شریف کو بند کرنے سے لے کر جلا وطنی تک ن لیگ میں ان کا نعم البدل کوئی نہیں بن سکا۔ جیل کے چکروں اور سیاسی مقدمات نے طرز سیاست بدل دیا ہے، جیل سے زیادہ قانون کی عمل داری ہوتی تو شاید الیکشن کبھی سلیکشن نہ بنتے ۔ سینئر صحافی کے بقول: انٹرا پارٹی الیکشن میں چاہے بیرسٹر گوہر چیئرمین منتخب ہو جائیں، فیصلے عمران خان کے ہی ہوں گے اور ٹکٹیں بھی انہی کی مرضی کے لوگوں کو ملیں گی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں بھی یہی طرز عمل رہا۔ گزشتہ چند سال میں مسلم لیگ ن بھی نواز شریف سے ہی گائیڈ لائن لیتی رہی۔ تحریک انصاف کے کارکن بھی باقی جماعتوں کی طرح اپنی قیادت کے اشارے پر ہی ووٹ دیں گے اور چیئرمین شپ کی حمایت کریں گے۔ ووٹر کے رویے سے ثابت ہے کہ وہ شخصیت پر ٹھپا لگانا چاہتے ہیں، تحریک انصاف کی شہرت وہی رہے گی جو پہلے سے ہے، لیکن اہم ترین یہ ہے کہ حلقوں میں شہروں میں انتخابی مہم چلانے یا ٹکٹ لینے کے لیے رہنما موجود نہیں۔ سینئر نائب صدر علی ظفر نے اعلان کیا کہ پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے جا رہی ہے۔ قائم مقام صدر بیرسٹر گوہر علی خان ہوں گے۔ پارٹی بچانے کے لیے یہ اقدام انتہائی اہم تھا۔ خان مان بھی رہا ہے اور عمل بھی کر رہا ہے۔ بظاہر خان کا اب اپنا کوئی روڈ میپ نہیں رہا، حکمرانی کے دور میں جس نے جو کہا اس کے پیچھے چل پڑے اور جلسوں میں دہلیز پر انصاف کے نعروں لگاتے رہے۔ پاکستان جس کی آبادی 24کروڑ ہے، قوم کبھی بھی ایسی خارجہ پالیسی اور ایسے رویوں کو سپورٹ نہیں کرے گی جو ریاست پاکستان کے خلاف ہوں۔ دشمن اور بت کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ اس ریڈ لائن کو جس نے توڑنے کی کوشش کی وہ ناکام رہا۔ سلامتی اور امن کو قائم رکھنا اولین ترجیحات ہیں۔ انہی ترجیحات پر سیاست چلے ، اداروں کے خلاف بیانے والوں کا یہ بات سمجھ جانی چاہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button