Column

چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک

تحریر : ڈاکٹر احمد علی غیاث
ابھی چند دن کی بات ہے کہ رویت ہلال کمیٹیوں نے دارالحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں بیٹھ چاند دیکھنی کی برسوں پرانی رسم ادا کی، پھر عشاء کی نماز کے آگے پیچھے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد نے اعلان کر ہی دیا کہ ملک کے بیشتر حصوں میں چاند نظر آہی گیا ہے۔ چاند نظر آنے، نہ آنے کی یہ رسم ہم برسوں سے مناتے آ رہے ہیں اور خبیر آزاد صاحب سے قبل مفتی منیب الرحمٰن اس کمیٹی کے سربراہ رہے اور ان کے دو دہائیوں سے زائد کے دور میں عید کا چاند نظر آنا یا نہ آنا ہمیشہ تنازعات میں رہا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن کے اس فیصلے کو ان کا ذاتی فیصلہ کہا جاتا رہا تاہم یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ ان کے تمام کے تمام فیصلوں میں ان کی پوری ٹیم بھی شامل ہوتی تھی، جن میں جید علماء کرام کے ساتھ ساتھ محکمہ موسمیات اور محکمہ فلکیات کے ماہرین بھی شامل رہے اور اب کی بار یہی ساری ٹیم مولانا خبیر آزاد کے ساتھ بھی تھی۔
میری طرح پاکستان کی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ محکمہ فلکیات کا شاید یہی کام ہے اس کی ایک زندہ مثال اکتوبر2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر اطلاعات نے جب یہ اطلاع دی کہ پاکستان 2022ء میں چاند پر اپنا مشن بھیجے گا تو پاکستان بھر کے عوام نے اس کا خوب مذاق اڑایا اور سوشل میڈیا میمز بنانے والوں کے لئے جیسے دعوت عام بن گیا اور پھر وہ ان لوگوں کو جملے کسنے کا خوب موقع مل گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان اس وقت اتنے قرضوں میں پھنسا ہے کہ قرضوں کی قسط بھی ادا کرنے کے لئے قرض لینا پڑتا ہے ۔ ہر حکومت کا ہر حکمران ملکوں ملکوں پھر کر قرض مان رہے ہوتے ہیں۔ یہ نااہل حکومتیں تو ایک موٹر وے بنانے کے بعد گزشتہ تیس سالوں میں کو قابل ذکر روڈ تک نہ بنا سکا کہ جس پر سکون سے اپنے وطن میں ہی آرام دہ اور ہموار سفر طے کر سکیں اور یہ حکومتیں کہاں چاند تک کا سفر کر سکتا ہے۔ 2022ء میں چین نے پاکستان سمیت آٹھ دیگر ممالک جن میں بنگلہ دیش، ایران، پیروں، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ کو چاند کے مدار میں مفت پہنچانے کی پیش کش کی سب ملکوں نے اپنے پراجیکٹ پیش کئے اور خوش قسمتی سے پاکستان کا پراجیکٹ پاس ہوگیا۔ دو سال کی محنت سے سیٹلائٹ ’’ آئی کیوب قمر‘‘ مکمل کرکے بآلاخر بھیج دیا۔
اب جب پاکستان کا خلائی مشن چین کے تعاون سے واقعی چلا گیا تو آپ مانیں یا مانیں میری طرح پوری قوم کو تو گویا سانپ سونگھ گیا ہے کچھ یہی حال ہمارے پڑوسی ملکوں کا بھی ہے ہمارے ازلی دشمن بھارت تو گویا سکتے میں چلا گیا ہے کہ جو لوگ برسوں سے چاند نظر آیا نہ آیا میں لگے ہوئے تھے وہ چاند پر جانے کے لئے اُڑان بھر چکے ہیں۔ جب کھوج لگائی گئی تو پتہ چلا کہ یہ سب تو ہمارے پیارے دوست ملک چین کے بھر پور تعاون اور بغیر کسی رقم کے خرچ کرنے سے ہوا ہے تو ان کے یہاں تو صف ماتم بچھ گئی۔ حالانکہ بھارت ہم سے پہلے ہی چاند پر بلکہ مریخ تک اپنے خلائی مشن بھیج چکا ہے اور اس ٹیکنالوجی میں پاکستان سے کہیں زیادہ اور طاقتور ہے بھارتیوں کے ذہن اس معاملہ میں کئی ملکوں سے بہتر ہیں مگر ان کی روایتی حسد کی وجہ سے پاکستان کے کسی بھی اچھے اقدام سے اسے جیسے چڑ سی ہوجاتی ہے۔
چاند پر جانے کی پاکستان کی خواہش کی کوشش یونہی اچانک نہیں بلکہ برس ہا برس کی ریاضت کا ثمر ہے پاکستان بننے کے چند برس بعد ہی اس پر کام شروع ہو چکا تھا۔1962ء میں پاکستانی سائنس دانوں نے پہلا موسمیاتی راکٹ ’’ رہبر اول‘‘ خلاء میں روانہ کیا تھا، اس مشن کی سربراہی پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے کی تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ کام شروع کرنے والا ملک ساٹھ سال میں کن کن تکلیف دہ مراحل سے گزرا اس کی ایک لمبی کہانی ہے اور اس کا سارا ماجرہ2021ء میں اس ٹیم اور پراجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق مصطفیٰ سب کو کھل کر بتا دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ سپارکو کی زیادہ تر توانائیاں دفاع کی طرف لگی رہیں تاہم آج ہمیں ذکر کرنا ہے اس مشن کے کامیاب ہونے کا۔ پاکستان نے اپنے پڑوسی اور دوست ملک چین کے تعاون سے کئی سیٹلائٹ لانچ کئے۔ ایک سیٹلائٹ کا لانچ کرنے پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے تاہم اب کی بار یہ ساری لاگت چین نے برداشت کی ہے لہٰذا ہمیں اس پر اپنی توانائیاں ضیاع کرنے کی بجائے اس مشن کے کامیاب ہونے کی دعا کرنی چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button