زمین میں دھنستا ہوا ملک

تحریر : سیدہ عنبرین
کرغزستان میں غیر ملکی طلباء پر حملے کی خبر سے پاکستان میں بھی ہزاروں گھرانوں میں تشویش کی لہر ہے، والدین ازحد پریشان ہیں، ان کی پریشانی بجا ہے، یہ پریشانی اس وقت دو چند ہو جاتی ہے جب اصل خبر کے ساتھ یہ خبر بھی ملتی ہے کہ کسی بھی ملک کے کسی بھی شہر میں پاکستانیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد وہ اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں، وہاں پاکستانی سفارتخانہ اور اس کا عملہ رابطے میں نہیں، خانہ پری کیلئے جو نمبر عوامی رابطے کیلئے مشتہر کئے گئے ہیں وہ خاموش ہیں۔
کرغزستان میں مختلف مسلم ممالک کے طلباء کے خلاف پہلے ایک مہم شروع کی گئی، پھر ان کے ہوسٹلز میں گھس کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ خبر میڈیا پر آنے کی بجائے کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں موجود طلباء نے اپنے اہلخانہ کو فون کر کے دی، جس کے بعد نہایت سست رفتاری سے کام شروع ہوا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق توڑ پھوڑ اور تشدد مقامی افراد کی طرف سے ہوا، جس کے بعد حکومت کرغزستان نے بتایا کہ یہ کچھ شرپسند عناصر تھے، جنہیں شناخت کر لیا گیا ،کچھ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، یہ وہی طرز عمل ہے جو ہمارے یہاں کسی بھی واقعے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ چند روز قبل جب مہنگائی بالخصوص بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے اور سرکاری افسران کی مراعات کو ختم کرنے کے مطالبے پر احتجاج شروع ہوا تو حسب روایت اس پرامن احتجاج کو کچلنے کیلئے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور پھر پولیس کی طرف فائرنگ کی گئی، عوامی ردعمل شدید ہوا، تین افراد جاں بحق ہو گئے تو ملک کی اہم ترین شخصیت نے بذات خود میڈیا پر آ کر حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ احتجاج میں کچھ شرپسند عناصر تھے، جنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، کئی روز گزر گئے شرپسند عناصر تو گرفتار کرنے، عدالت میں پیش کرنے کی کوئی خبر نہیں آئی، البتہ واقعے کے ٹھیک دوسرے روز آزاد کشمیر کیلئے ریلیف پیکیج کا اعلان ہو گیا۔ حکومت آزاد کشمیر کو 23ارب روپے ریلیز کر دیئے گئے، جاں بحق ہونے والوں کو شہید پیکیج دینے کا اعلان بھی کیا گیا لیکن سرکاری پیکیج کی تعریف کیا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، صرف حکومتی احکامات کے مطابق تشدد کرنے والے اس پیکیج کے حقدار ہیں یا جعلی بلوں کے خلاف احتجاج کرنے والے اور اس عمل میں جانیں لٹا دینے والے بھی بعد از مرگ اس کے حقدار سمجھے جائیں گے۔ حکومتی فیصلہ کچھ بھی ہو شہیدوں کا لہو رنگ لایا ہے، لیکن ہر روز اپنا حق لینے کیلئے متعدد جانوں کی قربانی کا چلن ختم ہونا چاہئے۔ زائد بل جاری کرنے والوں اور عدم ادائیگی پر بجلی کے کنکشن کاٹنے کیلئے سرگرم مافیا ارکان کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔
حکومتی اطلاعات اور اعداد و شمار کے مطابق کرغزستان میں 70ہزار افراد حصول تعلیم کے لئے موجود ہیں، جن میں سے 6ہزار طلباء و طالبات دارالحکومت بشکیک میں ہیں۔ ان کی بڑی تعداد میڈیکل کی تعلیم کیلئے وہاں مختلف میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخل ہے، یہ تمام طلبہ بھاری فیسیں ادا کر رہے ہیں، ان تمام طلباء کو پاکستان میں حاصل کردہ نمبروں کے بعد ایک بیہودہ اور مکارانہ انٹری ٹیسٹ میں کم نمبر آنے پر پاکستان بھر کے کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں مل سکا، جس پر ہر سال ہزاروں طلباء و طالبات پہلے سیلف فنانس سکیم کے تحت کسی پاکستانی میڈیکل کالج میں داخلے کی کوششیں کرتے ہیں، اس میں بھی ناکام رہیں تو پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کسی غیر ملک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کیلئے داخلہ مل سکے، مختلف قسم کی ڈگریوں کے حصول کیلئے غیر ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، کچھ لوگ فقط تعلیم حاصل کرنے کیلئے غیر ملکی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں، کچھ کے پیش نظر غیر ملکوں کی شہریت ترجیح اول اور ڈگری ترجیح دوم ہوتی ہے۔ اسی بہانے کسی غیر ملکی لڑکی یا لڑکے سے شادی بونس کا درجہ رکھتی ہے، لیکن اس میں بھی غیر ملک کی شہریت حاصل کرنا کوئی کبھی نہیں بھولتا۔
پاکستان کی تباہ شدہ اقتصادی حالت، افغانستان اور بنگلہ دیش کی کرنسی کے مقابل کوئی قیمت نہ رکھنے والی کرنسی کسی بھی غیر ملک میں اپنا کوئی مقام نہیں رکھتی، لہٰذا ان طلباء کے والدین کو خاصے مالی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان میں رزق حلال کمانے والا کسی بھی گریڈ کا افسر یا اہلکار اپنے بچوں کو غیر ممالک میں پڑھانے کا تصور نہیں کر سکتا، لیکن حرام کی کمائی رکھنے والے کاروباری خاندان اور متمول گھرانوں والے والدین کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں، وہ مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں، وہ خاندان بھر میں یہ بتاتے ہیں کہ ان کے بچے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کچھ تو یہ بتاتے ہیں کہ ان کے بچوں کو سکالر شپ آفر ہوا ہے، یوں وہ اپنی پھینی سی ناک کو اونچا کرتے ہیں، حالانکہ جن بچوں میں سکالر شپ حاصل کرنے کی قابلیت ہوتی ہے، انہیں پاکستان میں ہی کسی نہ کسی کالج میں داخلہ مل جاتا ہے۔ حکومت پاکستان اگر تمام میڈیکل کالجز میں دو شفٹیں شروع کر دے تو ہزاروں ایسے طلباء کو داخلہ مل سکتا ہے جو غیر ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے اخراجات نہیں دے سکتے، یوں ان کے اور ان کے والدین کے خواب تشنہ رہ جاتے ہیں۔
غیر ممالک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو نصاب و کتاب کے معاملے میں زبان کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، کم ترقی یافتہ ممالک میں امریکی یا یورپی ممالک سے پروفیسر حضرات کی خدمات حاصل نہیں کی جاتیں، علمی اعتبار سے وہ یوں بمشکل ٹوٹل ہی پورا کرتے ہیں، لہٰذا وہ کتنی معیاری تعلیم دیتے ہیں اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، ان غیر ممالک سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے والے طلباء کو کسی معیاری اور سٹینڈرڈ کے ہسپتال میں نوکری نہیں ملتی، یہ اگر واپس آ جائیں تو دو نمبر پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار کے آلہ کار بنتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہم نے ان ہسپتالوں میں بلا کسی بیماری کے صرف اپنے وہم کے علاج کے سلسلے میں داخل ہونے پر لاکھوں روپے کے بل ادا کرتے دیکھا۔ کمرشل ازم ساری دنیا میں ہے، اصول اب کہیں نہیں رہے، کبھی ہمارے ملک میں 90فیصد زچگیاں نارمل ڈلیوری ہوتی تھیں، آج انہی ڈاکٹروں ہسپتال کے لالچی مالکان کی ہوس زر کو پورا کرنے کیلئے ہر ڈلیوری ’’ سیزرین‘‘ ہے۔ ہر نوجوان لڑکی کی صحت سے ’’ سیزرین‘‘ کے نام پر کھلواڑ جاری ہے، کوئی نوٹس لینے والا ہے نہ کوئی ازخود نوٹس لینے والا۔
کرغزستان کے معاملے پر ہمارے نومولود سابق وزیر خزانہ متحرک ہوئے ہیں، وہ تمام عمر دو جمع دو پانچ کر کے دکھاتے ہیں، انہیں صرف سفارتی زبان سیکھنے میں کئی برس لگیں گے، اس وقت ہماری خارجہ پالیسی کی شکل کیا سے کیا ہو جائے گی، کچھ کہا نہیں جا سکتا، وہ اپنی اس حوالے سے کی گئی پریس کانفرنس میں بہت پرجوش نظر آئے، لیکن سوال و جواب کے ساتھ ساتھ عمل میں ہوش کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ نئے وزرائے خارجہ کو جناب صاحبزادہ یعقوب علی خان اور آغا شاہی جیسے کامیاب ترین وزرائے خارجہ کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہئے اور ہر معاملے میں صرف کیفر کردار نہیں کردار کا مظاہرہ کرنا چاہئے، نظام تعلیم پر جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہہ چکے ہیں ملک آہستہ آہستہ زمین میں دھنس رہا ہے۔