کرغزستان معاملہ اور ہمارا تعلیمی نظام
تحریر : مظہر کریم ملک
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار پڑھے لکھے افراد پر ہوتا ہے، پاکستان میں شرح خواندگی 58فیصد ہے جبکہ پنجاب میں شرح خواندگی 63فیصد ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کردی ہے، جس کے باعث سکول سے باہر بچوں کو سکول میں داخل کرانا ہے، لیکن سوال یہ ہے کیا ان بچوں کو سکول داخل کرانا ہی صرف کافی ہے ؟۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد پری میڈیکل طلباء ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پورے پاکستان میں تقریبا 16ہزار میڈیکل سیٹس ہیں، جن میں سے تقریبا 51فیصد سرکاری جبکہ 49فیصد پرائیوٹ کالجز /یونیورسٹیز شامل ہیں، پبلک سیکٹر میں کل ملا کر کم از کم میرٹ تقریبا 92فیصد بنتا ہے جبکہ پرائیوٹ کالجز میں رہ جانے والے بچے بھاری فیسوں کے عوض داخلے لیتے ہیں، جہاں میرٹ کچھ فیصد کم ہوتا ہے جن کے پاس بھاری فیسیں ادائیگی کی گنجائش ہوتی ہے وہ تو اپنے خواب پورے کرتے نظر آتے ہیں اور والدین اپنی زندگی کی تمام جمع پونچی اپنی اولاد پر خرچ کرتی نظر آتی ہے۔ میرے علم کے مطابق اس وقت کم از کم ایم بی بی ایس پر فیسوں کی ادائیگی 80لاکھ کے قریب ہے۔ باقی اخراجات علیحدہ ہیں والدین بہتر مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے بچے ڈاکٹر بن سکیں ، مقامی کالجز میں فیسوں کی گنجائش نہ ہونے کے باعث وہ قریبی ممالک جہاں پر بانسبت پاکستان بہت کم فیسیں ہیں وہاں مجبورا اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں تاکہ ان کے بچے بہتر مستقبل کے لیے اپنی خواہش کے مطابق اپنی ڈگر ی مکمل کر سکیں ، پاکستان میں سرکاری سطح پر بہت کم سیٹوں ، پرائیوٹ سیکٹر میں بھاری فیسوں کے باعث طلباء مجبورا دوسرے ممالک جاتے ہیں جہاں پر وہ کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک کرغزستان واقعہ پر آپ کے سامنے ہے جو پاکستانی طلباء کی تضحیک اپنے ملک میں کی جاتی ہے۔ باہر ممالک میں اس سے کئی زیادہ کی جاتی ہے، جس کی بنیادی وجہ دنیا میں ہمارا خراب امیج ہے اور اسی طرح کی صورتحال انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے طلباء کے ساتھ بھی ہے ،13مئی کو کرغزکے مقامی اور مصری طلباء کے درمیان لڑائی کے ایک واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مشتعل ہجوم نے بشکیک میں غیر ملکی طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا جن میں پاکستان ، بھارتی ، بنگلہ دیشی ، مصری طلباء شامل ہیں ایک اندازے کے مطابق اس وقت کرغزستان میں 15ہزار بھارتی ، 10سے12ہزار پاکستانی زیر تعلیم ہیں جن کی سیکیورٹی کی ذمہ داری وہاں کی حکومت کی ہے لیکن جو ہٹ دھرمی ، نا اہلی کرغزستان کی حکومت نے دکھائی اس کی مثال نہیں ملتی ، سوشل میڈیا پاکستانی طلباء پر تشدد کی ویڈیو وہاں پر مقیم پاکستانی طلباء کی با ر بار حکومت سے اپیل پر ، پاکستانی میڈیا کی اس اہم ایشو پر آواز اٹھانے پر حکومت پاکستان نے نوٹس لیا جبکہ وہاں پر موجود طلباء کی شکایات کے مطابق کرغزستان میں پاکستانی سفارتخانہ ، پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے موقع پر کوئی خاطر خواہ رسپانس نہیں دیا وہ اپنے ہوسٹلز میں محصور ہوکر رہ گئے اور کھانے پینے کی اشیاء لینے بھی باہر نہ جاسکے، تشدد کے واقعہ میں 5پاکستانی طالب علم زخمی ہوئے، وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے فوری طور پر ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزیر امیر مقام کو کرغزستان جانے کی ہدایت کی اور کرغزستان کے سفارتخانہ کے ناظم الامور کو ڈیمارش کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور گہری تشویش سے آگاہ کیا ، پاکستانی حکومت نے اپنے خرچے پر طلباء کو واپس لانے کا فیصلہ کیا، کچھ فلائٹس آبھی چکی ہیں جبکہ دیگر کا سلسلہ جاری ہے۔
کافی عرصہ بعد پنجاب میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو اس اہم وزارت کا قلمدان سونپا گیا، وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات خاں پہلے دن سے ہی پنجاب میں تعلیمی اصلاحات کے لیے کوشاں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہمارے بچے اس طرح باہر ممالک میں مجبورا جاتے رہیں گے، واپس آنے والے طلباء کو کیا پاکستان میں تعلیم مکمل کرنے کی کوئی پالیسی دی جائے گی یا ان طلباء کا پیسہ ، وقت دونوں ضائع ہوجائے گا یا یہ پھر کسی دوسرے ملک کی طرف التجائی نظروں سے دیکھیں گے ہمیں سوچنا ہوگا تعلیم کے میدان میں خصوصی توجہ دینی ہوگی بہتر مستقبل کے لیے بہتر پاکستان کے لیے۔