Ali HassanColumn

سیاسی جماعت یا موروثی جائیداد

تحریر :علی حسن
اے این پی کے صدر اسفند یار ولی کے بیٹے ایمل ولی اے این پی کے مرکزی صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ایمل خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کے پڑپوتے، علی خان کے پوتے، اسفند یار ولی کے بیٹے ہیں۔ شجرہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کو سیاسی جماعت سے کہیں زیادہ خاندانی جائیداد اور وراثت بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح جیسے زرعی زمین یا ناقابل منتقل جائیداد کے حصے بخرے کئے جاتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل خیبر پختونخوا کے صدر تھے لیکن پارٹی کے کسی رہنما نے ان کے مقابلہ میں کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے اور وہ اے این پی کے مرکزی صدر منتخب ہونے میں کامیاب رہے۔ اے این پی کی جنرل کونسل کا اجلاس چیف الیکشن کمشنر افتخار حسین کے زیر صدارت باچا خان مرکز میں ہوا تھا جس میں ایمل کو متفقہ طور پر مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ ایمل ولی کا نام ان کے رشتہ دار امیر حیدر ہوتی، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پارٹی صدارت کے لیے تجویز کیا تھا۔ اے این پی کو ولی خان کی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بغاوت کے الزام میں گرفتاری کے بعد سکیڑ دیا گیا تھا ۔ مقدمہ بغاوت میں پارٹی کی پوری قیادت کے گرفتاری کے بعد پارٹی پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے لوگ حاوی ہو گئے تھے۔ مقدمہ بغاوت کو جنرل ضیاء الحق نے ختم کیا تھا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری و دیگر بھی گرفتار ہوئے تھے لیکن مقدمہ خارج ہونے کے بعد رہائی کے بعد پارٹی بکھر گئی تھی۔ پارٹی عملا خیبر پختونخوا تک سکڑ گئی تھی۔ جس پرو لی خان، ان کی زوجہ بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی رہنمائوں کے گرفتاری کے بعد سردار شیر باز مزاری کے ساتھ مل کر نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی قائم کی تھی ( این ڈی پی ) لیکن ولی خان کی رہائی کے بعد این ڈی پی کو ختم کر دیا گیا تھا۔
ولی خان اور نسیم ولی نے ان بات پر توجہ ہی نہیں دی کہ نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) کے بطن سے پیدا ہونے والی سیاسی جماعت کا تاریخی پس منظر ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک تاریخی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ نیپ سابق مشرقی پاکستان کے ممتاز رہنما مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں قائم کی گئی تھی۔ پارٹی میں ڈھاکہ سے پشاور تک تمام زبانیں بولنے والے لوگ شامل تھے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان محمود الحق عثمانی جنرل سیکرٹری تھے۔ پنجاب میں پارٹی کی سربراہی قصور گردیزی کیا کرتے تھے۔ معروف وکیل محمود علی قصوری پنجاب میں سرگرم تھے۔ سندھ میں قیادت باقر شاہ کے سپرد تھی۔ حیدرآباد کی قیادت وسیم عثمانی کی ذمہ داری تھی۔ پارٹی اتنی منظم تھی کہ اس کی گرفت مارشل لاء ( جنرل یحییٰ خان کا نافذ کیا ہوا) میں گرفتاریوں وغیرہ کی وجہ سے پارٹی کو کمزور کر گیا۔ پارٹی کمزور ہوتی گئی اور پارٹی پر زیادہ تر پشتو بولنے والے افراد عہدوں پر مقرر ہوتے گئے۔ پارٹی کے استحکام کی تباہی بھٹو دور میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہونا بنا۔ بھٹو نے ایک ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ سے نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) پر پابندی عائد کر ا دی اور پارٹی بکھر گئی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنمائوں نے مقدمہ بغاوت سے رہائی کے بعد پارٹی میں دوبار سرگرم ہونے یا شمولیت اختیار کرنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔ بلوچستان میں ایک سے زیادہ پارٹیاں قائم ہوگئیں۔ پاکستانی سیاست کو دھچکے کے بعد دھچکے لگتے رہے۔ آج بلوچستان میں سردار عملا غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ سرکش قسم کے لوگ بندوق ہاتھ میں لے کر زندگی کو مذاق بنا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کی فضا میں بارود کی بدبو ہی بدبو پھیل گئی ہے۔ معدنیات سے بھرے ہوئے بلوچستان میں پیدا ہونے والی ایک طرح سے جنگجو صورتحال پر ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف یا عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام پر بظاہر کسی کو تشویش نہیں ہے۔ بلوچستان کی صورت حال سے واقف لو گ صوت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہیں۔ بعض تو کہتے ہیں کہ بند مٹھی میں ریت کی طرح وقت گزار رہا ہے۔
ولی خان نے توجہ نہیں دی کہ پورے پاکستان کی بااثر بڑی سیاسی جماعت کس بری طرح سکڑ رہی ہے۔ اسفند یار ولی نے بھی پارٹی کو اسی حال میں چھوڑ دیا۔ ایمل سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ حالانکہ انہیں پارٹی کو ملک بھی میں ایک بات پھر منظم کرنے کا عمل شروع کرنا چاہئے۔ خیبر پختونخوا کے کوئیں سے نکل کر پاکستانی دریا میں پھیل جانا چاہئے۔ اس وقت دائیں بازو کی سیاست کرنے والے لوگ کسی قیادت کے منتظر ہیں۔ موجودہ پارٹیوں سے مایوس اور متنفر ہونے والے انتظار گاہ میں موجود ہیں، کوئی کھڑا ہو اور انہیں راستہ دکھائے، رہنمائی کرے۔ پاکستان کی ضرورت ایسی سیاست قطعی نہیں ہے جس میں رشتہ دار حاوی ہوں۔ کیا پوری اسمبلی میں رشتہ داروں کا ہی نام چلے گا۔ کیا سیاسی جماعتوں میں قیادت کے رشتہ دار ہی اسمبلیوں کی مراعات سے مستفید ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ضروری ہے۔ تمام لسانی گروہ اور طبقات کے لوگ ہوں جہاں نیشنل عوامی پارٹی میں ابتداء میں ہوتا تھا۔ پارٹی کے ڈھانچہ میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نظر آنا چاہئے ۔ اسی صورت میں پاکستان میں جمہوریت پنپ سکی گی اور وہ ہی جمہوریت پاکستان کی بقا کی ضمانت دے سکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button