Column

9مئی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا

تحریر : ظہیر الدین بابر
نو مئی کے واقعات نے بجا طور پر قومی سیاست پر ایسے منفی اثرات مرتب کیے ہیں جو یقینا طویل عرصے تک بطور قوم ہمارا پچھا کرتے رہیں گے، کمیروں کی موجودگی میں ایک خاص سیاسی جماعت اور اس کے رہنمائوں کی جانب سے قومی اداروں کے خلاف جو پرتشدد کارروائیاں کی گئیں اس نے عملا قومی سیاست کا رخ ہی بدل کرر کھ دیا، دوسری جانب ایک سال گزرنے کے باوجود 9مئی کے واقعات میں ملوث کسی بھی عام و خاص کے خلاف ایسی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی جسے بجا طور پر مثال کیلئے پیش کیا جائے، یہاں یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو جلائو گھیرائو، تھوڑ پھوڑ ، شہداء کی یادگار کی بے حرمتی، کور کمانڈر ہائوس حملے میں ملوث افراد کو سخت سزائوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ، مذکورہ سانحہ کا حجم اور اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے ایسے قانونی اور سیاسی نقائص کو ہنگامی بنیادوں پر دور کرنے کی ضرورت ہے جو مجرموں کے خلاف ٹھوس کاروائی کرنے میں رکاوٹ بن چکے ، بطور قوم ہمیں خود سے یہ سوال بھی پوچھنا ہوگا کہ نظام انصاف میں موجود خرابیوں کو کب اور کیسے دور کیا جاسکتا ہے، اس سچائی سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں کہ ہمارے ہاں دیوانی ہی نہیں فوجداری مقدمات بھی سال ہا سال سے عدالتوں میں زیر سماعت رہتے ہیں، کچھ ناقدین کے بقول شائد بطور پاکستانی اس خرابی کو دل و جان سے تسلیم کر چکے کہ ارض وطن میں فوری اور سستے انصاف کا حصول ممکن نہیں، یقینا یہ رجحان ہماری مجموعی قومی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، عصر حاضر ہی نہیں ماضی کی کسی بھی ریاست کے عروج و زوال میں نظام انصاف نے کلیدی کردار ادا کیا، حضرت علیؓ کے اس قول سے ہم بدستور سیکھنے پر آمادہ نہیں کہ سماج کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے نا انصافی پر نہیں۔
یقینا وقت آگیا ہے کہ قومی تاریخ میں ایک اور بدنما داغ کی شکل اختیار کر جانے والے 9مئی کی یوں غیر جانبدارنہ انداز میں تحقیقات کی جائے جس کے نتیجے میں بے گناہ اور قصور وار دونوں کا فرق واضح ہوجائے، پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے کی تحقیق کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جبکہ دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ موقف سامنے آچکا کہ اگر جوڈیشل کمیشن قائم کرنا ہے تو اس پھر 2014ء کے دھرنے کو بھی دیکھنا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ 2016ء میں سرکاری وسائل کے ساتھ وفاق پر دھاوا بولا گیا، کس نے آئی ایم ایف کو خطوط لکھے ، کون تھا جس نے بیرون ملک لابنگ کی کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے دیا جائے۔ یقینا کسی بھی تاریخی واقعے کے حوالے سے ایک سے زائد آراء کا سامنے آنا حیران کن نہیں مگر جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ نو مئی کی تحقیقات میں مزید تاخیر قومی سطح پر انتشار اور تقسیم کا باعث بن سکتی ہے ، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان ہمارا وطن ہے، مسلح افواج ہمارے ہی بھائیوں اور بیٹوں پر مشتمل ہے، اس سوال کا جواب دینا بھی مشکل نہیں کہ خطرات میں گھیرا پاکستان کسی طورپر متحمل نہیں ہوسکتا کہ فوج جیسا اہم ادارہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے، سیاست میں اختلافات کی اہمیت یا پھر موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر مخاصمت یا دشمنی جو سنگین نتائج مرتب کر سکتی ہے اس سے بھی صرف نظر کرنا ممکن نہیں، وطن عزیز کی سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نظریات کی بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے ، ہمارے اہل سیاست میں بالغ نظری پیدا نہ ہونے کی ایک سے زائد وجوہات ہوسکتی ہیں مگر اس کا نتیجہ یوں نکلا کہ ہم قومی معاملات میں یکسو اور متحد نہیں ہوسکے ، حالیہ سالوں میں ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہے کہ سیاسی جماعتیں درپیش مسائل کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں، بڑھتی ہوئی آبادی، چیلنجز کا شکار معاشی صورت حال ، ہمسایہ ملکوں سے کئی معاملات میں اختلافات نے ہماری مشکلات دو چند کردی ہیں، یقینا شہباز شریف حکومت درپیش چیلنجز کی گہرائی ہی نہیں اس کے دوررس منفی اثرات سے بھی بخوبی آگاہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان تواتر کے ساتھ قومی مسائل حل کرنے کے لیے نہ صرف بات چیت کے لیے کوشاں ہیں بلکہ میثاق معیشت کی بھی شدید خواہشمند ہیں، مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت جانتی ہے کہ اگر قومی مسائل کا فوری طور پر حل تلاش نہ کیا گیا تو اس کا حجم کم ہونے کی بجائے بدستور بڑھتا رہے گا، یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کا سفر جاری و ساری ہے ، پاکستانیوں کی اکثریت نے 8فروری کے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں شریک ہوکر پھر ثابت کیا کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی امور سلطنت چلانے کے حق میں ہیں، پاکستان تحریک انصاف کو محاذ آرائی کی بجائے منتخب ایوانوں میں اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوگا ، اگر ہم تسلیم کر لیں کہ نو مئی کے واقعات میں پاکستان تحریک انصاف کا عمل دخل نہیں تو پھر لازم ہے کہ پی ٹی آئی کو جاری قانونی و عدالتی کاروائی کو متنازعہ بنانے سے ممکن حد تک احتراز برتنا چاہے بصورت دیگر اس کے بارے ’’ چور کی داڑھی میں تنکے‘‘ جیسی مثالیں پیش کی جاتی رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button