Columnمحمد مبشر انوار

اب زراعت بھی

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
یوں تو یہی کہا جاتا ہے کہ حال میں جیتے ہوئے مستقبل کی فکر چھوڑ دو اور ماضی کو بالکل بھول جائو کہ جو ہونا تھا ہو چکا، جو بدل نہیں ہو سکتا لیکن حقیقتا ایسا ہے نہیں بلکہ اقوام کی زندگی میں حال کی فکر اور مستقبل کی منصوبہ بندی کسی بھی صورت ماضی سے سبق اٹھائے بغیر نہیں ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ وہی قومیں ترقی و عروج پر پہنچتی دکھائی دیتی ہیں جو اپنے ماضی سے کبھی تعلق ختم نہیں کرتی ،ماضی میں ہونے والی غلطیوں پر ہمیشہ نوحے نہیں پڑھتی بلکہ ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر،غلطیوں کا اعادہ نہ کرکے،مستقبل میں بلندیوں کو چھونے کی سعی کرتی رہتی ہیں،وہی ترقی و عروج کی شاہراہ پر بگٹٹ دوڑتی نظرآتی ہیں۔ان قوموں کے مزاج میں دو بنیادی عنصر ہمہ وقت دکھائی دیتے ہیں کہ وہ قومی امور میں انفرادی معاملات کو کبھی گڈمڈ کرتے کبھی دکھائی نہیں دیتے کہ جیسے ہی یہ رویہ نظر آتا ہے،قومیں ترقی کی شاہراہ سے اتر جاتی ہیں اور دوسرا ایسے معاشروں میں مجرمان کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے جرم کے عین مطابق قرار واقعی سزا دی جاتی ہے اور اگر مجرم سیاسی حیثیت کا حامل ہو تو پھر سزا بھی زیادہ اور سخت دی جاتی ہے تا کہ مستقبل میں کوئی اور ایسی حرکت نہ کرے اور حکمران سیدھے راستے پر رہیں۔ پاکستان اپنی ساخت کے اعتبار سے انتہائی زرخیز ملک ہے اور معرض وجود میں آتے ہی اسے ایک زرعی ملک قرار دیا گیا تھا کہ اس کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں زراعت سے منسلک تھی اور زراعت کو ہی اس کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتاتھا۔تاہم زرعی ملک ہونے کے باوجود،اپنے ابتدائی برسوں میں پاکستان کی صنعتی ترقی بھی مثالی رہی اور دنیا بھر میں اس کی مثالیں دی جاتی تھی کہ ایک نوخیز ریاست کس قدر تیزی و تندہی کے ساتھ،صنعتی میدان میں ،ترقی یافتہ ممالک کے برابر آنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان کو خطے میں تیزی کے ساتھ ابھرتا ہوا ایشین ٹائیگر سمجھا جاتا تھا،دنیا بھر میں اس کی مصنوعات کو معیار کے اعلی درجہ کی وجہ سے انتہائی پسندیدگی کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور اس کی مصنوعات کی مانگ عالمی دنیا میں موجود تھی۔ سیالکوٹ کے آلات طب و جراحی ہوں یا وزیرآباد میں تیار ہونے والا دوسرا سامان،گوجرانوالہ کے تیار شدہ پنکھے ہوں یا سلور کے برتن و پریشر ککر،ان کی مانگ دنیا بھر میں پائی جاتی تھی۔اسی طرح کئی ایک دوسری صنعتی مصنوعات تھی،جو پاکستان کے مختلف شہروں میں تیار ہوتی تھی اور دنیا بھر میں برآمد کی جاتی تھی،فیصل آباد و کراچی میں تیار ہونے والا کپڑا،اپنی خوبصورتی اور معیار کے باعث ساری دنیا میں مقبول تھا،بالخصوص بیڈشیٹس وغیرہ اپنی مثال آپ تھی۔ بدقسمتی سے اس صنعتی ترقی کے اولین دشمن ،اپنی ہوس کے باعث خود صنعتکار بنے تو دوسری کاری ضرب، سوشلزم کے شیدا بھٹو بن کر سامنے آئے کہ انہوں نے محنت کش کو اس کے حقوق کا درس تو بڑی خوبصورتی کے ساتھ دیا لیکن اس کے فرائض سے اس کو غافل کرکے اسے ہڈحرامی کی طرف دھکیل دیا۔دراصل ہڈ حرامی عام محنت کش میں نہ کل تھی اور نہ آج ہے،بلکہ حقوق کا درس دینے کی آڑ میں وہ لوگ جو محنت کشوں کی زبان بنے،انہیں اس کا ادراک ہی نہیں رہا کہ صنعتی پہیہ چلنا کتنا ضروری ہے اور محنت کشوں کے حقوق کے نام پر ،محنت سے فرار کتنا بڑا قومی جرم ہے،بات بہ بات کارخانے بند کرنا یا قوانین کے تحت مالکان /صنعتکاروں کو ہراساں کرنا،ان سے پیسے اینٹھنا ہی ان کا مطمع نظر بن گیا۔ رہی سہی کسر جنرل جیلانی کے کندھوں پر سوار ایک صنعتکار کے سیاسی میدان میں وارد ہونے سے پوری ہو گئی کہ ان کی صنعتکاری کی کہانیاں زبان زد عام ہیں اور خاندان کے اندر سے ہی اس صنعت کا پردہ کبھی چچاکے مزدور /محنت کش باپ کہہ کر بیان ہوتا ہے تو کہیں پوتی کے منہ سے ارب پتی دادا کا ذکرسن کر ،واضح ہے کہ یہ خاندان کتنا بڑا صنعتکار تھا۔ بہرکیف بھٹو کی پھانسی کے بعد،آمروں کی تعریف و توصیف کہیں یا خوشامد کہیں،اس خاندان کو سیاسی میدان میں اتارا گیا،زمین ہموار کی گئی کہ یہ چونکہ صنعت سے تعلق رکھتے ہیں،لہذا سوشلزم کے اثرات بد کا تدارک ان سے بہتر کوئی نہیں کر سکے گا،مزید برآںملک کو صنعتی انقلاب کی اشدضرورت ہے،لہذا انہیں موقع دیا جائے۔ موقع فراہم کرنے کے لئے،قومیت کا مکروہ نعرہ لگا کر ،وفاق کو زک پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی،لیکن انہیں موقع فراہم کر دیا گیا۔پہلے دور حکومت میں ،جس طرح صنعتی پالیسی کا اعلان کیا گیا،وہ انتہائی متاثر کن تھا اور اس دور میں ،قومی بینکوں سے قرضے لے کر نو آموز صنعتکاروں کو دئیے گئے، ملک کے طول و عرض میں ٹیکس فری زون قائم کرکے ،سرمایہ داروں کو صنعت کی طرف راغب کیا گیا،کئی ایک نے اس صنعت میں قسمت آزمائی کی،لیکن مطمع نظر بینکوں کی سرمایہ کاری کروا کر،بیرون ملک مشینری کی درآمد میں نہ صرف کمیشن کھانا مقصود رہا بلکہ اپنے کالے دھن کو بھی سفید کیا گیا۔آج اس دور میں لگائے گئے کسی ایک کارخانے یا مل کا ڈھونڈے سے بھی نشان نہیں ملتا حد تو یہ ہے کہ کئی ایک ایسے صنعتکار گھرانے کہ جو پاکستان بننے سے یہاں صنعت سے وابستہ رہے ،ان کے نشان بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں،پاکستان میں صنعت کے لئے موجود ماحول سے تنگ آ کر،اکثریت اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہی ہے۔بجلی کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں نے صنعت کو پنپنے کی بجائے،قبر تک پہنچا دیا ہے،امن و امان کی مخدوش صورتحال الگ،افسر شاہی کے نخرے و مطالبات نے صنعتکار کو یہاں سے ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔بارہا اس امر کااظہار کر چکا ہوں بلکہ اب یہ کھلی حقیقت ہے کہ صنعتکار سیاستدانوں نے ،سیاست کو تجارت بنا لیا کہ جب سیاست سے دولت کمائی جا سکتی ہے تو پھر صنعت میں دماغ کھپانے کی کیا ضرورت ہے بالخصوص پاکستان میں صنعت کو فروغ دینے سے کیا فائدہ،بہتر ہے کہ یہاں سے لوٹ مار کی جائے اور بیرون ملک سرمایہ کاری کی جائے۔لہذا یہاں صنعتکاری کو دن بدن مشکل بنا دیا گیا اور صنعتکاروں کو یہاں سے ہجرت کرنے کے لئے مجبور کیا جا چکا ہے،اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بیرونی سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری کرے جب انہیں یقین ہے کہ پاکستانی اشرافیہ،جس کی ذمہ داری ہے ان کا اپنا اعتماد اس ملک پر نہ ہونے کے برابر ہے ،ان کی اپنی سرمایہ کاری بیرون ملک ہے،تو پھر کوئی بیرونی سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟
صنعتی پہیہ جن وجوہات کے باعث پاکستان میں تقریبا رک چکا ہے ،اس کے اثرات زراعت پر بھی نظر آ رہے ہیں کہ زراعت پر لاگت دن بدن بڑھتی جار ہی ہے،جبکہ حکومت اپنی اللے تللوں کی وجہ سے کسان کو اجناس کی صحیح قیمت بھی ادا نہ کرکے اس کا استحصال کررہی ہے۔آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے کسان کو پانی کی دستیابی نہیں ہوتی،جس کے لئے اسے اپنے رقبہ پر ٹیوب ویل لگانا پڑتا ہے،بجلی کی قیمتیں اس کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں،بیج ناقص اسے میسر ہوتا ہے،جس کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار مقابتا کم پیدا ہو رہی ہے،کھاد کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں،جس سے لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔لہذا جب کسان کی فصل تیار ہوتی ہے تو حکومت اس فصل کی اعلان کردہ قیمت خرید سے بھی کہیں کم پر اسے خریدنا چاہتی ہے،اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ عالمی منڈی میں فصل کی قیمت اس سے کہیں کم ہے لیکن موازنہ کرتے وقت یہ اشرافیہ دیگر عوامل کا موازنہ کرنے سے دیدہ دانستہ گریز کرتی ہے کہ ا س میں سارا قصور اور غلطی اسی اشرافیہ کی نکلتی ہے۔مشرقی پنجاب میں بھارتی حکومت نے کسانوں کو جو سہولیات دے رکھی ہیں،ہماری حکومتیں تو اس سے نصف دینے کو بھی تیار نہیں اور نہ ہی یوکرین یا روس میں جو سہولیات کسان کو میسر ہیں،ان عشر عشیر دینے کو تیار ہیں البتہ ملکی کسان کو رقم دینے کی بجائے وہ غیرملکی کاشتکاروں کو نوازنے کے لئے صرف اس لئے تیار دکھائی دیتے ہیں کہ اس میں بڑے کمیشن ان کی ذاتی تجوریوں میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ سکینڈل میں یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ نگران حکومت نے کیسے اور کیوں ،ملک میں بمپر فصل کی توقع کے باوجود،گندم درآمد کی،منظر پر اور پس منظر کن شخصیات نے اس سکینڈل سے فائدہ اٹھایا؟گو کہ انوارالحق کاکڑ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر گندم درآمدنہ کی جاتی تو ملک میں قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی اور عوام کی جیب سے پیسے نکالے جاتے،حقیقت تو یہی ہے کہ سکینڈل میں کمیشن کھایا جانیوالا کمیشن بھی عوام کا ہی پیسہ تھا۔پنجاب حکومت کسانوں سے اعلان کردہ قیمت خرید سے کہیں قیمت پر گندم خریدنا چاہتی ہے کہ اسے علم ہے بمپر پیداوار کے بعد،کسان لازمی اسے کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو گا لیکن آئندہ کے لئے کیا کسان کھیتوں میں اتنی محنت کرے گا؟خوراک میں خودکفالت ختم نہیں ہو جائے گی؟سونا اگلتی زمینیں،سیمنٹ سرئیی کی نذر نہیں ہو جائیں گی؟ کیا ان حکومتوں نے آج تک یہی اپنے ادوار میں نہیں کیا؟افسرشاہی جو ریاست کی بجائے شاہی خاندانوں کی ذاتی غلام دکھائی دیتی ہے،اس جرم میں شریک کار نہیں اور کیا اس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے؟ہمارے اجتماعی گناہوں کی سزا ہے کہ ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں کہ جن کو اس ملک پر ،اس کے نظام پر اعتبار نہیں ،اس کو چراگاہ سمجھتے ہوئے،اس کے تمام تر وسائل کو لوٹ کر،کھوکھلا کرکے یہاں سے رفوچکر ہونا چاہتے ہیں کہ ایک حکمران کی ،فرد واحد کے ایک چھوٹی سی صنعت قومیانے کی سزا،اس ملک اور قوم کے تمام تر وسائل نیست و نابود کرکے دی جار ہی ہے۔ صنعت و دیگر وسائل تو تباہ کئے جا چکے ،اب اس ملک کی زراعت کو بھی تباہ کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button