ColumnImtiaz Aasi

نئی روایت

تحریر : امتیاز عاصی
آزادی کے بعد انگریز کی غلامی سے نکلنے کے بعد اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست کے عوام کو امید تھی انصاف پر مبنی ریاست میں انہیں حصول انصاف میں مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا لیکن عوام کایہ خواب شرمند ہ تعبیر نہ ہو سکا ۔ قائد کی رحلت کے بعد عوام پر یہ حقیقت آشکار ہوئی وطن عزیز کا اقتدار سنبھالنے والوں نے ان کی زندگی اجیرن کر دی۔ کسی ریاست میں آزاد عدلیہ عوام کی آخری امید ہوتی ہے حکومت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے معاملے میں پارلیمان کو بااختیار بناکر عدلیہ پر پورا کنٹرول کرنے کی خواہاں ہے۔ درحقیقت حکومت لولی پاپ پروگرام کے تحت ججز کی مدت ملازمت بڑھانے کی آڑ میں چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت توسیع کرنا چاہتی ہے۔ تعجب ہے ججز تقرری کے لئے جوڈیشل کمیشن پہلے سے کام کر رہا ہے جس میں حکومتی نمائندے شامل ہوتے ہیں تاہم اس کے باوجود حکومت پارلیمانی کمیٹی کو زیادہ بااختیار بنا کر من پسند ججز کا تقرر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
عام طور پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان زیادہ سے زیادہ ایک دو سال فرائض کی انجام دہی کے بعد عہدوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں جس کے بعد سنیءر موسٹ جج صاحبان کو چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔ اس وقت جج صاحبان 65سال کی عمر پوری ہونے کے بعد اپنے منصب سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ سوال ہے کیا ریٹائرمنٹ کی یہ عمر کم ہے جو حکومت پیرانہ سالی کی عمر بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ درحقیقت سیاسی حکومتوں کو ملک اور عوام کی فکر نہیں ہوتی انہیں مفادات عزیز ہوتے ہیں جس کے لئے وہ ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا۔ عوام مسلم لیگ نون کے دور کا وہ سیاہ ترین سانحہ بھول نہیں پائے ہیں جس میں لیگی رہنمائوں اور کارکنوں نے ایک راست باز چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ آور ہونے کا ریکارڈ قائم کیا۔ انگریز سرکار نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے کم رکھی تھی جسے بڑھا کر سیاسی حکومتوں نے ساٹھ سال تک کر دیا۔ یہ بات حکومت کے علم ہے وہ آئین کی شق175اے میں تبھی ترمیم کر سکتی ہے جب ایوان میں اس مقصد کے لئے اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے فیصلے بعد اب تو بالکل امید نہیں رکھنی چاہیے حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت ہو گی۔ تاسف ہے حکومت اپنے گھر کو درست کرنے کی بجائے ججز تقرری معاملے میں پارلیمانی کمیٹی کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کی خواہش مند ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کا معاملہ تاحال تصفیہ طلب ہے۔ خفیہ ادارے وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں وزیراعظم شہباز شریف کو عدلیہ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی تاکہ جج صاحبان بلا خوف و خطر اپنے فرائض کی انجام دہی ادا کر سکیں۔ سوال ہے جب تمام فریق اس بات پر متفق ہیں عدلیہ میں ججوں کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہیے جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کو مزید بااختیار بنانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ ججوں کی تقرری کے وقت حکومت کی نمائندگی وزیر قانون کرتے ہیں جو کمیٹی کے اجلاس میں موجودہ ہوتے ہیں تو اس کے بعد آئین میں ترمیم کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ دراصل حکومت کا بڑا مقصد چیف جسٹس کے عہدے کی مدت بڑھانا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں دیگر ملکوں کا حوالہ دیا جہاں ججز کی تقرری میں عدلیہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ہمارا وفاقی وزیر قانون سے سوال ہے دنیا کے دوسرے ملکوں میں من پسند فیصلوں کے لئے ججوں پر کیا دبائو ڈالا جاتا ہے اور ان کے گھروں میں کیمرے نصب کئے جاتے ہیں؟ جیسا کہ وزیر قانون نے اجلاس کو بتایا ہے وزیراعظم نے انہیں ججوں کی تقرری کے سلسلے میں آئینی ترمیم کرنے کے لئے مجوزہ ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد عوام کو سمجھ لینا چاہیے حکومت ججوں کی تقرری کے ضمن میں خودمختار ہونے کی خواہاں ہے۔ وکلا سے عوام کو ہزارہا شکایات ہو سکتی ہیں تاہم وہ عدلیہ کی آزادی کے سلسلے میں کسی قسم کی قدغن قبول نہیں کریں گے۔ مشرف دور میں عدلیہ کی آزادی کے لئے جس جذبے سے وکلا نے تحریک چلا کر ججوں کو ایک آمر سے آزادی دلائی ملکی تاریخ میں ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ عجیب تماشا ہے جوڈیشل کمیشن میں حکومت ، وکلا اور عدلیہ سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کے باوجود آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں ہے ؟ آزاد عدلیہ عوام کی آخری امید ہوتی ہے اسے حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا تو عوام حصول انصاف کے لئے کہاں جائیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز سپریم جوڈیشل کونسل کو مراسلہ نہ لکھتے تو شائد حکومت کو جوڈیشل کونسل میں ردوبدل اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے آئین میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ججز کی تقرری میں شفافیت اور دیگر امور محض بہانہ ہیں جب کہ اس کے پس پردہ محرکات کچھ اور ہیں جن کا آنے والے وقت میں عوام کو علم ہو جائے گا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے سیاست دان اس ملک کے ساتھ جانے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جو آزادی سے اپنے فرائض کی انجام دہی کر سکے۔ ان حالات میں عوام کو نہ اپنے ووٹ سے من پسند حکومت اور نہ اداروں سے آزادی سے فیصلے کرنے کی امید کرنی چاہے۔ سیاست دانوں نے لوٹ کھوسٹ سے اندرون اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنا لیں اور عوام کو مہنگائی اور بے روز گاری کا تحفہ دیا۔ جس ملک میں کرپشن کی دولت سے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے والوں کے خلاف مقدمات ختم کر دیئے جائیں ایسے ملک میں ایک عام شہری کو انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن کی تنظیم نو کے مقاصد واضح ہیں اور چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کی ایک نئی روایت ڈالی جا رہی ہے۔ عوام کو پھر بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے عدلیہ کے ججوں کا بعض اداروں کی طرف سے دبائو کا معاملہ آخر کسی طرف تو لگے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button