ColumnNasir Naqvi

لگ پتہ گیا ہے؟

تحریر : ناصر نقوی
عدالت عظمیٰ کے چیف قاضی فائز عیسیٰ کے واضح اعلان کہ 8فروری 2024ء ’’ پتھر پر لکیر‘‘ کے باوجود ابھی کچھ ذمہ داران الیکشن کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ انہوں نے شک شبے اور اس سلسلے میں منفی خبروں سے پرہیز کا مشورہ بھی دیا ہے۔ پھر بھی افواہیں پھیلانے والے کسی نہ کسی بہانے کوئی پھلجڑی چھوڑنے سے باز نہیں آ رہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن اور نگران وزیراعظم سمیت سب کی یقین دہانی یہی ہے کہ الیکشن بروقت ہی نہیں، صاف و شفاف بھی ہر قیمت پر ہوں گے۔ ہمارے ایک دوست جو ’’ بٹ برادری‘‘ سے تعلق رکھتے ہوئے بھی دانشوروں کی فہرست میں شامل ہیں، بڑے زبردست ’’ وی لاگر‘‘ ہیں ان کے فالورز کی تعداد بھی اچھی ہے اور ڈالرز کی’’ چھم چھما چھن ‘‘ بھی سنی جا سکتی ہے ان کا نام نامی گوہر فہیم بٹ ہے۔ وہ ایک عرصے سے دعویدار تھے کہ ’’ میاں جدوں آوے گا لگ پتہ جائے گا‘‘ پھر میاں چار برس لندن میں گزار کر کھلاڑیوں کی نعرہ بازی سننے کے بعد وطن واپس آ گیا۔ اسے ایسے ’’ ہاتھوں ہاتھ‘‘ لیا گیا کہ مخالفین کو لگ پتہ گیا کہ یہ میاں نہیں آیا یہ تو انوکھا لاڈلا ہے کیونکہ اسے ایئرپورٹ سے لاہور کی جلسہ گاہ تک جو سہولیات ملیں اس نے لوگوں کی نیندیں حرام کر دیں، اس کے چاہنے والے متوالے بھی آپے سے باہر ہو گئے۔ نعرے لگے ’’ میاں آ گیا، میاں چھا گیا‘‘۔ شیر اک واری فیر؟ سابق وزیراعظم شہباز شریف سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت جارحانہ بیانیے کا ’’ فیوز‘‘ نکال چکے تھے اس لیے انہوں نے نواز شریف کا ووٹ بینک استعمال کرنے اور متوالوں کو مسلم لیگ ن کے پرچم تلے اکٹھا کرنے کے لیے اعلان کر دیا کہ میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے آئے ہیں ان کے متوالوں اور رہنمائوں نے الیکشن سے پہلے ہی جیت بلکہ بھاری اکثریت سے کامیابی کے بلند بانگ دعوے شروع کر دءیے، بس پھر کیا تھا سب کو لگ پتہ گیا کہ میاں صاحب الیکشن لڑنے نہیں آئے، ان کا ’’ مک مکا‘‘ ہو گیا اور اقتدار ایک بار پھر نواز شریف کی جھولی میں ہی گرے گا، کہاں کہاں معاملہ طے پایا؟ یقین دہانیاں کیا کچھ ہوئیں؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں، لیکن ن لیگ کے متوالوں نے ادھم مچا دیا کہ اقتدار کا ’’ہما‘‘ ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کے سر پر بیٹھے گا۔ سیاسی بصیرت رکھنے والوں نے سوال اٹھا دئیے کہ ابھی نہ الیکشن مہم چلی اور نہ ہی منشور منظر عام پر آ سکا، ن لیگ پہلے ہی جیت گئی، بھلا کیسے؟ کسی نے دریافت کیا کہ ابھی وہ سزا یافتہ ہیں، مقدمات کے لیے عدالتوں کا چکران کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ جواب ملا ’’ بات ہو گئی ہے؟ کلین چٹ مل جائے گی، سارے مقدمات بوگس ہیں، اس لیے سب کو پتہ ہے کہ نواز شریف ہی چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے، پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت ہو گی؟‘‘ ’’ میاں دے نعرے وجن گے ‘‘ ’’ ایک واری فیر شیر‘‘ ۔۔۔۔ لہٰذا ’’ سب کو لگ پتہ گیا، کہ انتخابی مسائل وہ ہرگز نہیں جو دکھائی دے رہے ہیں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ’’ سلیکشن‘‘ ہی ہو گی؟ یہ خبر افواہ بن کر ذمہ داروں تک پہنچ گئی انہوں نے پیغام دے دیا ایسی کوئی بات نہیں، سب کو اپنی اپنی کر کے کھانی پڑے گی، خواب ادھورے رہ گئے، خواہشات اور ارمانوں پر اوس پڑی تو میاں صاحب ٹھنڈے ہو گئے، بات نکلی تو بہت دور تک پہنچی، ردعمل میں سیاسی جوان مدمقابل آ گیا، بلاول بھٹو زرداری نے پہلے ’’ لاڈلہ، نیا لاڈلہ، انوکھا لاڈلا‘‘ کی گردان لگا کر عوامی اجتماعات میں یہ تاثر مضبوط کر دیا کہ موجودہ دور کے لاڈلے میاں نوازشریف ہیں ۔ اس تکرار نے جب لوہاروں کا لوہا پگھلا دیا تو ایک دھواں دار تقریر میں یہ اعلان کر دیا کہ بہتر سالوں میں بزرگوں نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا، وہ ناکام ہیں، اس لیے بزرگ گھر بیٹھ جائیں یا مدرسوں میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ نئی نسل کو کچھ نیا کرنے دیں، دوسری جانب آصف علی زرداری نے اپنی مصلحت اور مفاہمت کی پالیسی میں ’’ بیلنس‘‘ کرنے کے لیے بلاول کو بچہ اور ناتجربہ کار کہتے ہوئے اشارہ دیا کہ اگر میں نے اسے روکا تو، ٹوکا تو وہ ناراض ہو کر گھر بیٹھ گیا تو میں کیا کروں گا؟ لیکن چھوٹے میاں ’’ سبحان اللہ‘‘ والا ہوا جیسے بلاول کو بات سمجھ آئی انہوں نے فلائٹ پکڑ ی اور دوبئی نکل گئے۔ ری ایکشن میں آصف زرداری صاحب بھی فوراً پہلی پرواز پر پیچھے چلے گئے، ’’ باپ بیٹا‘‘ کو پھوپھی فریال تالپور اور بختاور نے قابو کر لیا، پہلے یک تصویر منظر عام پر آئی جس کا مطلب تھا کہ ’’ پیئو پتر‘‘ لڑے نہیں، پھر دونوں واپس آ گئے، بہرکیف دونوں کو لگ پتہ گیا کہ’’ معاملات‘‘ ایسے نہیں چل سکتے، سیاسی میدان کو خالی چھوڑنے کا مطلب شریف برادران کو ’’ واک اوور‘‘ دینے کے مترادف ہو گا، اس ’’ لاڈلے میاں‘‘ کا تاثر برباد کرنے کے لیے ’’ پیپلز پارٹی‘‘ کے مرکزی رہنمائوں نے بھی تیر تلوار سیدھے کر لئے، مقصد سو فیصد سیاسی کہ اگر ’’ لاڈلہ‘‘ پکا ہو گیا تو نواز شریف ’’ پرو‘‘ اسٹیبلشمنٹ ثابت ہو کر کیا نقصان اٹھائیں گے متوالوں کی خواہش ہے کہ وہ لڑتے، جھگڑتے دکھائی دیں جو کہ موجودہ حالات میں ممکن نہیں، لیکن سیاسی محاذ پر انہیں زیر کرنے کے لیے ’’ لاڈلہ‘‘ کنفرم کرنے کے لیے بیانیہ موجود رہنا چاہیے، لہٰذا پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کنڈی نے ’’ بیان‘‘ جاری کر دیا کہ نواز شریف ’’ نیا لاڈلہ‘‘ بننے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں میرا انہیں مشورہ ہے کہ و ہ دوبارہ نظریاتی بن جائیں کیونکہ ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ’’ ایون فیلڈ‘‘ میں چھوڑ آئے ہیں۔ اس صورت حال میں تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے ریکارڈ ہولڈر نواز شریف پریشان ہو گئے کیونکہ سب کو لگ پتہ گیا کہ نواز شریف اب ماضی والے ضدی اور اپنی بات پر قائم رہنے والے نہیں کیونکہ ان کا نیا سیاسی جنم شہباز شریف صدر مسلم لیگ ن کی مفاہمتی پالیسی میں بدل چکا ہے یعنی وہ بھی ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے لیے بے ضرر ہو چکے ہیں انہیں صرف ابتدائی سہولیات سے سیاسی سرگرمیوں میں ( مسودہ کٹا ہوا ہے، مکمل نہیں ہے)
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’ بٹ بہادر‘‘ کا دعویٰ ’’ میاں جب آئے گا لگ پتہ جائے گا‘‘چومکھی ہو چکا ہے، دوسروں نے بھانپ لیا تھا اس لیے ’’ نیا لاڈلہ، انوکھا لاڈلہ‘‘ کی رٹ لگا کر سیاسی مقاصد حاصل کر لیے، لیکن نواز شریف کو لگ پتہ گیا، جو تصویر انہیں پاکستان سے پہلے دکھائی گئی تھی وہ بالکل مختلف نکلی، شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے میں بتائے جا رہے ہیں لیکن تمام تر سہولیات کے ساتھ نواز شریف کو یہ سہولت حاصل نہیں، ملکی اور غیر ملکی دوستوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ آپ حقیقت میں نادان دوستوں کے نرغے میں ہیں۔ یہ سب کے سب اپنے آپ کو بچاتے اور مفادات کی غلامی میں انہیں پھنسا دیں گے لہٰذا عمران خان کو بھی ’’ لگ پتہ گیا ہے‘‘ کہ معاملہ کچھ ایسا ہے جس قدر ان پر مقدمات بن چکے ہیں ا ن کی جان بخشی نظر نہیں آ رہی، اس لیے خان اعظم نے ’’ یو ٹرن‘‘ لے کر اپنے لیے سہولیات یا نرمی کی راہ تلاش کر لی ہے۔ دو اہم پیغامات منظر عام پر آ چکے ہیں اول یہ کہ فی الحال انٹرا پارٹی الیکشن اور جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ ابھی وہ ’’ سزا یافتہ‘‘ اور نااہلی کا شکار ہیں۔ دوئم انہوں نے ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ اور فورسز کے خلاف سرگرم ’’ وی لاگرز‘‘ اور میڈیا کے افراد سے دور رہنے کی ہدایت کر دی ہے ان کو بھی ’’ لگ پتہ گیا ہے‘‘ جس انداز میں ان کے وکلاء اور ہمدرد نان ایشو کو ایشو اور حقیقی ایشو کو نظرانداز کر رہے ہیں اس سے بات نہیں بنے گی، ذرائع کا دعوی ہے کہ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے، کارروائی اور ہردلعزیزی کی کہانی سناتے یہ یاد دہائی بھی کرائی ہے کہ بھٹو صاحب کے قرابت دار انہیں وقتاً فوقتاً جذباتی کر کے نہ صرف ان کی بہادری اور دلبری کی تعریف کرتے تھے بلکہ ٹکرانے کا مشورہ دیتے تھے لہٰذا بھٹو صاحب اپنی شخصیت کے مطابق آمر مطلق سے ٹکرا گئے پھر پھانسی ان کا مقدر بنی اور اس سے سبق یہ ملا کہ ریاست سے ٹکرانے سے بہتر ہے اپنے جذبات پر قابو رکھ کر وقت اور حالات بدلنے کا انتظار کیا جائے ، جس طرح ’’ نواز شریف‘‘ وقت کا انتظار کرتے کرتے آج لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی لگ پتہ گیا ہے کہ حالات سے سمجھوتہ کرنا بھی کسی معرکہ آرائی سے کم نہیں، دوسری جانب آصف علی زرداری ایک انٹرویو میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ حالات میں الیکشن میں کوئی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔ میری سیاسی بصیرت کہتی ہے کہ آئندہ حکومت بھی اتحادی ہو گی، یہ بات بھی مسلم لیگیوں اور رہنمائوں کو ہضم نہیں ہو رہی، پھر بھی موجودہ لاڈلے نے دو تہائی اکثریت کی خواہش کر دی ’’ جوکہ لمحہ موجود‘‘ میں ملتی دکھائی نہیں دے رہی، لیکن ایک سیاپا ’’ استحکام پاکستان پارٹی‘‘ بھی بن چکی ہے۔ جس سے انتخابی اتحاد کی بات چیت کی گئی تھی انہوں نے پنجاب میں ہی نہیں مسلم لیگی قلعہ لاہور میں بھی ’’ سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی توقعات رکھی ہیں، اس صورت حال میں بھی مسلم لیگ ن اور قائدین ہی نہیں مسلم لیگیوں کے امیدواروں کو بھی فکر لاحق اس لیے ہے کہ شہر لاہور میں ایک بھی نشست ایسی نہیں جہاں کسی مسلم لیگی سے ٹکٹ چھینی جا سکے، یہاں خواجہ برادران، پرویز ملک خاندان اور کھوکھر برادری کی سیاسی جدوجہد کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ان شخصیات نے مشرف اور عمرانی دور میں قید و بند کی مشکلات بھی بہادری سے بھگتی ہیں۔ ’’ سیاسی میرٹ‘‘ ان ہی لوگوں کا بنتا ہے جبکہ خواجہ حسان، بلال یاسین جیسے لوگوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا مسلم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر بھی بے چینی پائی جا رہی ہے کیونکہ سب یہ جانتے ہیں کہ آئی پی پی سے اگر انتخابی اتحاد بنا تو چھری ان ہی میں سے کسی پر چلے گی یعنی لگ پتہ گیا ہے کہ سب اچھا نہیں، نواز شریف ’’ نیب‘‘ مقدمات کی اپیلوں پر بری ہو رہے ہیں اب صرف ’’ العزیزیہ‘‘ بچا ہے یا پھر’’ پانامہ‘‘ جس میں سے اقامہ نکال کر تاحیات نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا لیکن یہ مسئلہ کاغذات نامزدگی پر سر اٹھائے گا اس سے پہلے نہیں، نیب جج محمد بشیر نے ہی سزا سنائی تھی وہیں سے ’’ نیب‘‘ نے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے تو یہ انکشاف بھی کر دیا کہ کیس تو سپریم کورٹ نے دبائو سے بنوائے تھے، ورنہ ہمارے پاس کسی قسم کی دستاویزات یا ثبوت نہیں، جبکہ عمران خان انٹرا پارٹی الیکشن سے دستبردار ہوئے تو تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر ایک مرتبہ پھر ’’بلا‘‘ لینے کے لیے الیکشن کمیشن جانے کے دعویدار بن گئے ہیں۔ عمران خان نے مجبوراً پارٹی ’’ وکلائ‘‘ کے حوالے کر دی اور عارضی چیئرمین بیرسٹر گوہر خاں کو نامزد کر دیا۔ امید ہی کہ وہ بلا مقابلہ چیئرمین بن جائیں گے اور شائد انتخابی نشان ’’ بلا‘‘ بچانے کی یہ کوشش بھی کامیاب ہو جائے پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف سیاسی پارٹی نہیں عمران خان ’’ فین کلب‘‘ ہے جسے عمران خان کے بغیر کوئی نہیں چلا سکتا، جنہیں اس بات کا احساس نہیں انہیں بھی چند دنوں اور ہفتوں میں ’’ لگ پتہ جائے گا‘‘۔۔۔۔ شخصی اعتبار سے علی گوہر خان ایک بیلنس شخصیت کے مالک ہیں، اچھے ماہر قانون بھی ہیں لیکن حامد خان کی سینارٹی اور سینئر وائس چیئرمین شیر افضل مروت کی ساری بھاگ دوڑ ایک مرتبہ تو ’’ وڑ‘‘ گئی لہٰذا ہر کسی کو ’’ لگ پتہ گیا ہے‘‘ کہ ابھی عمران خان کی مشکلات میں کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں اور نہ ہی الیکشن سے پہلے انہیں رہائی ملے گی بلکہ گوہر خاں کا انتخاب اور اکبر ایس باہر کی موجودگی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button