Column

پاک ایران تعلقات میں وسعت کے امکانات

تحریر : اکبر چانڈیو
پاکستان اور ایران نہ صرف ہمسایہ ممالک ہیں بلکہ دونوں کی دوستی تاریخی اور مذہبی اعتبار سے تاحال مثالی ہے، مثلا ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے قیام پاکستان کے فورا بعد بطور ریاست اسے تسلیم کیا ، بظاہر ایران کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک حصہ کو انقلابی دور کہا جاسکتا ہے اور دوسرے کو اسلامی ، مگر اس سب کے باوجود ایرانی تاریخ کا حسن یہ ہے کہ دونوں ادوار میں تہران نے کبھی اپنی مذہبی شناخت کو پس پشت نہیں ڈالا، اس پس منظر میں ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کا دورہ پاکستان دونوں ممالک کے مخالفین کے لیے مخصوص پیغام سمجھتا جارہا ہے۔ مثلا ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دور ایسے موقعے پر کیا جب اسرائیل ایران کشیدگی عروج پر ہے ، اہم نقطہ یہ ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی پاکستان اور ایران دونوں ہی مذمت کر رہی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو ایک آنکھ نہ بھانے والے والے ایرانی صدر جب پاکستان تشریف لائے تو وزیر اعظم شبہاز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ان کی ملاقاتیں خاصی خوشگوار رہیں ، رواں برس پاکستان اور ایران میں کچھ تلخی اس وقت دیکھنے میں آئی جب ایران کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائی کا کہہ کر حملہ کیا گیا ، تہران کے اس اقدام کے بعد اسلام آباد کی جانب سے بھی کامیاب جوابی کاروائی کی گی جس کے بعد دونوں ملکوں نے بات چیت کے زریعہ باہمی مسائل حل کرنے پر اتفاق کرلیا ، ماہرین کے بعقول معاشی چیلجنز سے نمٹتے پاکستان کیلیے ایرانی صدر کا دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ، دوست ملک کے صدر کے دورے کی خاص بات یہ بھی رہی کہ دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے شہباز شریف کے دور میں ابراہیم ریئسی پہلے سربراہ مملکت قرار پائے جو اسلام آباد تشریف لائے ، ایرانی صدر کے دورے کے موقعے پر ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا ابراہیم ریئسی کے پاکستان آنے سے اسلام آباد پر امریکی دبائو آسکتا ہے، اس سوال کا جواب یوں ہے کہ پاکستان طویل عرصہ سے ایران کے حوالی
سے مغربی دبائو کا یہ کہہ کر مقابلہ کرتا چلا آرہا کہ ایران اس کا ہمسایہ ملک ہے اور وہ اس کے ساتھ قریبی دوستانہ اور معاشی تعلقات بڑھانے کا خواہمشند ہے، اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ شہباز شریف حکومت نے نہ صرف ایران اور اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے اصولی موقف کا اعادہ کیا بلکہ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی بھی تسلسل کے ساتھ مذمت کی، دوسری جانب مشرق وسطی کی صورت حال بارے وزیر اعظم پاکستان کا وہی موقف ہے جو نہ صرف او آئی سی کا ہے بلکہ درجنوں مغربی ممالک بھی مسئلہ فلسطین بارے اسلام آباد کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں، یقینا اسے پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کے طور دیکھا جانا چاہے کہ اسلام آباد نے اپنے دیرینہ بردار ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو وسعت دے رہا ہے، پاک ایران خصوصی اقتصادی زون کے قیام کے فیصلہ کو بھی دوررس اثرات کا حامل قرار دیا گیا ہے، معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ خصوصی اقتصادی زون سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو پے پناہ وسعت مل سکتی ہے، پاکستان اور ایران میں زراعت ، تجارت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع
امکانات موجود ہیں ، دونوں طرف سے تعلقات میں تاحال وسعت نہ دینے کی وجہ دراصل امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا دبائو بھی ہے، اس سچائی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف سمیت دیگر مغربی مالی اداروں کا کردار تاحال کلیدی نوعیت کا ہے، اسرائیل اور ایران تعلقات میں کشیدگی کے سبب مغربی قوتیں پاکستان سمیت ہر اس ملک کو دبائو میں رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہیں جو تہران کے ساتھ سفارتی یا پھر تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہشمند ہے، سالوں سے التواء کا شکار پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کی درپردہ وجوہات بھی یہی ہیں ، ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقعے پر بھی اس عزم کا بھی برملا اظہار کیا گیا کہ دونوں ملکوں کی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک لایا جائے گا، پاکستان اور ایران کا دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کاوشوں پر بھی اتفاق سامنے آیا ہے، دونوں ملکوں کا ماننا ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف ایسی مسلح تنظیمیں فعال ہیں جو پاکستان اور ایران کے دوستانہ تعلقات خراب کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ علاقائی اور عالمی سطح پر وہ کون سے ممالک ہیں جو پاک ایران تعلقات کو بڑھتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے، پاکستان میں چاہ بہار اور گودار میں تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق پایا جاتا ہے، اسلام آباد سمجھتا ہے کہ سی پیک کا منصوبہ اس صورت میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اہداف مکمل کر سکتا ہے اگر گودار اور چاہ بہار میں قریبی روابط کو فروغ ملے، خارجہ ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کے خاتمے کا براہ راست اسلام آباد اور تہران کے تعلقات بڑھنے کا سبب بن سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کی طرح امن، بھائی چارے اور خوشحالی کی ہر اس ملک کی ضرورت ہے جو کراہ ارض پر شر کی بجائے خیر پھیلانے پر یقین رکھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button