Column

عدالتی اصلاحات اور موجودہ عدلیہ

تحریر : محمد راحیل معاویہ

گزشتہ دنوں منعقدہ عاصمہ جہانگیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مستقبل کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنی تقریر کا اختتام ایک شعر سے کیا تو ایک سیاسی جماعت کے کچھ لوگوں نے اس کو سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے رنگ دینے کی کوشش کی۔
انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر پڑھا:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو تم حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اس کے بعد گویا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے انہوں نے یہ بات موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لگائی ہو۔ تاثر یہ دیکھنے کو ملا کہ ان کا یہ بیان بھی خاصا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس میں انہوں نے عدلیہ کے اوپر کسی قسم کا کوئی دبائو برداشت نہ کرنے کا دوٹوک موقف اپنایا۔
The People’s Mandate,Safeguarding civil rights in South Asiaکے نعرے پر منعقدہ دو روزہ عاصمہ جہانگیر کنونشن کے سیشن ’’ شہری حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا کردار‘‘ میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ پر ندامت کا اظہار کیا اور اس کو بہتر بنانے کے لیے خاصی پرکشش تجاویز دیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے شروع میں ہی یہ درج ہے کہ ’’ عدلیہ آزاد ہوگی‘‘ اب یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ ہم عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کریں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس معاملے میں عدلیہ یکجا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کا اتفاق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی بابت آئین تین باتیں صاف طور پر کہتا ہے وہ یہ کہ: عدلیہ آزاد ہوگی، عدلیہ سستا انصاف فراہم کرے گی، عدلیہ آسان انصاف فراہم کرے گی۔ انہوں نے واضح کہا کہ وہ عدلیہ کی تاریخ پر فخر نہیں کر سکتے اور نہ اس کا دفاع کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں سیاہ باب ہیں لیکن ماضی میں اچھے فیصلے بھی موجود ہیں۔ کچھ فیصلے غلط اور برے بھی ہوسکتے ہیں لیکن 4000ججز میں سے روزانہ کام کرنے والے 3000ججز سارے کے سارے تو غلط نہیں ہوسکتے۔ وہ ڈلیور بھی کر رہے ہیں اور اچھا کام بھی کر رہے ہیں۔ 2023ء میں تقریباً 14لاکھ سے زائد کیس انہی ججز نے نمٹانے ہیں۔ یہ تو بالکل نہیں کہا جاسکتا کہ عدلیہ بالکل ہی مفلوج ہے لیکن البتہ ان میں ایسے فیصلے بھی ہیں کہ جو اچھے فیصلوں پر بعد میں حاوی ہوجاتے ہیں۔ عدالتی نظام کی سستی کو بھی انہوں نے کھلے دل سے قبول کیا اور کہا کہ واقعی ہمارا عدالتی نظام بہت سست ہے جس میں ضلعی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک کیس کو پہنچنے میں 20سال لگ جاتے ہیں۔ اس وقت بھی 24 لاکھ سے زائد کیس زیرالتواء ہیں جن میں ضلعی عدالتوں کی کارکردگی بہت ہی زیادہ بری ہے کیونکہ 20لاکھ سے زائد کیس تو صرف وہاں پر پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ضلعی عدالتوں سے رپورٹ مانگی جاتی ہے تو وہ ایکسل شیٹ پر کیسز کی تعداد اور نوعیت لکھ کر ارسال کر دیتے ہیں جس میں سے کیسز کی موجودہ صورتحال اور التواء میں رہنے کے جواز کی ہی سمجھ نہیں آتی۔ انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد لینے کا اعلان کیا اور بتایا کہ ہم ایسی ایپ بنانے جارہے ہیں کہ جس میں ہر ضلع میں درج کیسز کو تین رنگوں میں تقسیم کیا جائے گا اور واضح طور پر ان کیسز کی بابت جانا جاسکے گا کہ ان کی التواء کی وجہ کیا ہے اور یہ آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہر کیس کی Life historyاس میں درج ہوگی اور یہ آسانی سے جانا جاسکے گا کہ یہ کیس درج کب ہوا اور اس کے بعد کی سماعتوں میں کیا کیا ہوتا آیا ہے اور اب نمٹانے میں تاخیر کی وجہ کیا آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس کے لیے اب ہم واضح طور پر اقدامات لینے جارہے ہیں جس کے لیے اعلیٰ عدلیہ مکمل طور پر متفق ہے۔ انہوں نے انفرادیت کی بجائے سسٹم کو مضبوط کرنے کا بھی عندیہ دیا اور اس کی مثال میں انہوں نے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے خود کو طاقتور رکھنے کی بجائے اپنی طاقت کا کافی حصہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں سسٹم کے حوالے کر دیا ہے اور یہ ایک اچھا آغاز ہے جس میں اب یہ کوئی شخص طے نہیں کرے گا کہ کیس کہاں لگے گا اور اس کو کون سنے گا بلکہ یہ فیصلہ اب سسٹم کرے گا جس کا عدالتی نظام انصاف کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار کو بھی تبدیل کرنے کے حوالے سے بھی بات کی اور اس میں بھی اصلاحات لانے کی بات کی انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتوں کے لیے ججز کے امتحانات کے معاملے میں بہت زیادہ چیزیں درست کرنے جارہے ہیں کیونکہ ماضی میں بہت زیادہ ججز کی تعیناتی جعلی امتحانات کے ذریعے ہوئی ہے جس کا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کی تعیناتی کے عمل کو بھی مزید بہتر بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے ججز کے جاری اجلاس کی بابت بتایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ اعلی عدلیہ کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جو جج کام نہیں کر رہا اب اس کو اٹھا کر باہر پھینکا جائے گا اور کرپشن اور نااہلی پر زیرو ٹالرنس پالیسی ہوگی۔ اس میں بھی انہوں نے موجودہ چیف جسٹس کا واضح منشور بتایا کہ وہ اس معاملے میں بہت سنجیدگی سے اقدامات لینے جارہے ہیں۔ اس بابت انہوں نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو مخاطب کرکے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام کو 1940اور 1860کے قوانین کے ذریعے چلایا جا رہا ہے پوری دنیا میں عدلیہ کے لیے جدت کے ساتھ ساتھ جدید قوانین بنتے آئے ہیں لیکن ہم ہی کہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اس بابت ویسے کتنی شرمناک بات ہے کہ جن لوگوں کو ہم عوام فقط قانون سازی کے لیے بھیجتے ہیں وہ قومی اسمبلی کے ایک دن کے اجلاس میں تقریباً 6کروڑ روپیہ لگا کر بھی عوام کو جدید طرز پر قانون سازی کرکے دینے کی بجائے ابھی تک گلیوں، نالیوں اور کھمبوں کی سیاست سے باہر نہیں نکل رہے ہیں، ہم عوام کو بھی اپنے اپنے منتخب نمائندے سے ضرور سوال کرنا چاہیے کہ ہم نے آپ کو سسٹم کو بدلنے کے لیے بھیجا تھا آپ نے ہمارے لیے وہاں کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟
خیر اس کے بعد انہوں نے کیسز لگائے جانے کے عمل کو شفاف بنانے کی بابت تفصیل سے بات کی اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا کافی اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کی وجہ سے یہ عمل اب کافی شفاف ہوجائے گا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ہمارے ادارے میں مافیاز کا راج ہے اس لیے اس میں اب شخصیات کی بجائے سسٹم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ پوری دنیا میں 90فیصد تنازعات کا حل ADRسسٹم کے ذریعے نکالا جاتا ہے اور فقط 10 فیصد کیسز عدالتوں میں آتے ہیں جبکہ ہم نے اپنے پنجایت سسٹم اور جرگہ سسٹم کو بالکل مفلوج کر دیا ہے اس کے متبادل کے طور پر پاکستان بھر کے 138اضلاع میں مصالحاتی مراکز قائم کیے جائیں گے جہاں پر مل بیٹھ کر لوگوں کے تنازعات کا حل نکالا جاسکے گا۔ روزانہ 70ہزار نئے کیس رپورٹ ہوجاتے ہیں جنہیں 3000یا 4000ججز کے ذریعے حل کرنا بھی انہوں نے ناممکن عمل قرار دیا کیونکہ دنیا بھر میں 10لاکھ لوگوں کے لیے 90سے زائد جج موجود ہیں جبکہ ہمارے ہاں 10لاکھ کے لیے صرف 13جج دستیاب ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر میں صرف 10فیصد کیس ججز کے پاس لائے جاتے ہیں جبکہ یہاں تو 100فیصد کیس لائے جاتے ہیں۔ اس عالمی معیار کے مطابق ملک بھر میں 21000جج درکار ہیں جبکہ ہمارے پاس صرف 4000ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ عالمی جاری کردہ رپورٹ میں پاکستانی عدلیہ کا نمبر 142 واں ہے، جس کی وجہ سے پوری قوم کی طرف سے ہمیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے غلط مقدمہ بنانے پر سزا کے طور پر سارے اخراجات اس مقدمہ بنانے والے پر ڈالنے کی بھی تجویز دی اور ساتھ بتایا کہ یہ بہت ضروری ہے اور دنیا بھر میں رائج ہے کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کمرشل عدالتوں کا قیام، عدالتوں میں خواتین کی تعداد کو 50فیصد تک لانے کا عزم، ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال، ججز کی تعیناتی کا عمل شفاف، کرپشن و نااہلی پر زیرو ٹالرنس، نیا اور بہترین عدالتی نظام، آزاد عدلیہ اور متحد اور یکجا عدلیہ کے پیغام کے بعد انہوں نے یہ شعر پڑھا تھا لیکن ہمارے ہاں ہر بات کو نہ جانے کیوں سیاست کی نذر کر دینے کی عادت پڑ چکی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button