Column

بیس سال بعد کا سیاست دان

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک کام ( کھیل ) انسانوں کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنا ہے۔ طاقتور ملک یا فرد یہ کام انتہائی آسانی سے بخوبی انجام دے سکتا ہے اور استعمال ہونے والے بھی خوشی خوشی استعمال ہو جاتے ہیں ۔
میری سوچ مستند ہو گئی جب سے میں نے پیر پگارا کے اس حوالے سے کہے گئے الفاظ کتاب ’’ ایک سیاست کئی کہانیوں ‘‘ میں پڑھے ۔ سینئر صحافی و مصنف رئوف کلاسرا صاحب کی کتاب سے لیا گیا اقتباس آپ سے بھی شیر کر رہا ہوں ’’ جناب یوسف رضا گیلانی صاحب محمد خان جونیجو کی حکومت میں نوجوان وزیر تھے۔ ان کو وزیر بنے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور پیر پگارا صاحب کی اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف سے نہیں بنتی تھی۔ اس وقت کے جنرل ضیاء کو بھی گلہ تھا کہ نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس لیے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے ۔ یہ بات جنرل ضیاء کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ جنرل ضیاء نے اپنے دل کی بات پیر پگارا کے سامنے رکھی۔ جنرل صاحب کا دکھڑا سن کر پیر صاحب نے فرمایا کہ سائیں آپ فکر نہ کریں۔ میاں نواز شریف ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگلے دن پیر پگاڑا صاحب نے جناب یوسف رضا گیلانی کو بلایا اور انہیں کہا کہ آپ پنجاب جائیں اور اپنے آپ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر ممبرز اسمبلی کے سامنے پیش کرنا شروع کریں۔ اپنے ساتھ چند بڑے سیاسی لوگوں کو شامل کریں۔ گیلانی صاحب نے پنجاب میں جا کر ڈیرے لگا لئے۔ وہ ان دنوں وزیر ریلوے تھے۔ ایئر پورٹ اور ریلوے سٹیشن آتے جاتے پنجاب اسمبلی کے درجنوں ممبرز نے ان کا استقبال کرنا شروع کر دیا۔ یہ خبر مارکیٹ میں پھیل چکی تھی کہ وفاقی حکومت یوسف رضا گیلانی کو نیا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔ بات زیادہ پھیل گئی تو بڑے بڑے لوگوں نے ان سے رابطے کرنا شروع کر دئیے۔ یوں بہت کم عرصہ میں یوسف رضا گیلانی صاحب نے ایم پی ایز کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ پیر پگاڑا صاحب کو پیغام پہنچایا گیا کہ جناب اب بتائیں کہ کس کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف بغاوت ہو چکی ہے۔ پیر صاحب سیاست کے پرانے گھاگ تھے، انھوں نے نوجوان گیلانی کو کہا انتظار کرو۔ گیلانی صاحب لاہور میں ہی تھے اور اپنے تیئں وزیر اعلیٰ کا نام سوچ رہے تھے ۔ پتہ چلا کہ میاں نواز شریف جنرل ضیاء سے ملنے اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں۔ میاں نواز شریف کو احساس ہو چکا تھا کہ ان کی وزارت اعلیٰ معافی تلافی کے بغیر نہیں بچے گی۔ جنرل ضیاء کے ساتھ اپنی وفاداری کا نیا حلف اٹھایا۔ جنرل ضیاء اور نواز شریف کی ملاقات ختم ہوئی تو جنرل صاحب نے ایک بیان جاری کیا کہ میاں نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی یہ بیان دیا کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ رہی سہی کسر پیر صاحب کے بیان نے پوری کر دی کہ نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھا جس کی میں نے سلائی کر دی ہے۔ کھیل ختم ہو گیا تھا۔ جوں ہی یہ خبر لاہور پہنچی سارے کے سارے ایم پی ایز خوفزدہ ہو گئے ان سب کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ استعمال ہو چکے ہیں۔ ان سے زیادہ احساس گیلانی صاحب کو ہوا کہ مجھے جنرل ضیاء ، وزیر اعظم جونیجو اور پگارا صاحب نے مل کر استعمال کیا ہے۔ بجھے دل کے ساتھ پیر صاحب سے ملنے گئے اور ان سے پوچھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ وہ مسکرائے اور بولے بچہ ! یہ سب سیاست ہے۔ نواز شریف جنرل ضیاء کو آنکھیں دیکھا رہا تھا، میں نے جنرل ضیاء کو کہا تھا کہ ہم ٹھیک کر دیں گے۔ اب ہم نے ایک ایسے بندے کا انتخاب کرنا تھا جس کو استعمال کر کے میاں نواز شریف کو سبق سکھایا جا سکتا۔ میری نظر تمہارے پر پڑی تم ابھی نوجوان ہو۔ تمہاری ابھی سیاست میں کوئی کریڈیبلٹی نہیں ہے۔ ملتان کے بڑے سیاسی گھرانے سے ہو۔ دوسرے تم میرے رشتہ دار ہو۔ شکر ہے میرا اندازہ غلط نہیں ہوا تم نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا کہ آپ نے مجھے استعمال کیا ہے۔ پیر صاحب مسکرائے اور بولے جی ہاں ! میں نے آپ نے کو استعمال کیا ہے ۔ ایک شکست خوردہ گیلانی نے سیاست کے گرو سے پوچھا کہ ایک سیاست دان کب تک اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے ؟ پیر پگارا صاحب نے کہا ’’ 20سال بعد‘‘۔
ہمارے ہاں سیاست میں کئی بیس سال گزار چکے ہیں، سیاسی رہنما کئی کئی بار اسمبلوں میں بیٹھنے کے لیے استعمال ہو چکے ہیں۔ اپنے ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے کئی کئی بار چلتی حکومتوں کو گول کرا چکے ہیں۔ ایسا عوامی تاثر دیا گیا کہ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ایسا فیصلہ لیا گیا جو کہ جمہوری تھا۔
مزید انتظار کیا جاتا تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔ ملکی معیشت تباہ ہو جاتی۔ ایسے بیانے کئی سالوں سے سیاست کا حصہ ہیں۔ ہر دفعہ کردار تبدیل ہوتے رہے، عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتے رہے ۔ جس ملک کے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہوں، وہاں اگلے دس سالوں میں انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا ہو گا۔ سیاسی قائدین اور ان کے بچے اس وقت اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ ملکی حالات کے تناظر میں سیاسی قائدین کے طرز سیاست سے ملکی معیشت کو نقصان کا سامنا ہے، ماضی کے تمام منصوبے عوام کے لیے زہر قتل ثابت ہوئے۔ ذاتی مفادات اور سیاسی حریف کے تحفظ کے لیے فیصلے ہوئے۔ سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ پر خود کو پوتر سمجھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا غیر سیاسی بیانیہ بھی عوام کی سمجھ میں نہیں آیا۔ باتوں اور قسموں سے ملک نہیں چلتے۔ اس وقت جس طرز پر حکومت بنی ہے اس کے بعد تو سیاسی جماعتوں کو کوئی گلہ نہیں رہنا چاہئے۔ اب بھی اگر ایک دوسرے کو استعمال کرنا ہی مقصود ٹھہرا تو یقینا پھر معاشی نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ ماضی میں حکومتوں کے ٹوٹنے اور بننے میں اندرونی اور بیرونی طاقتیں اثر انداز رہیں لیکن ہماری جمہوری حکومتوں کی طرف سے ان 76سالوں میں بیرونی اثر اندازی کوئی توڑ نہیں نکالا گیا۔ کشکول ہماری مجبوری رہا۔ منصوبوں کے اعلانات کی بھرمار ہے لیکن عملی پالیسی نظر نہیں آرہی ۔ اداروں کی کارکردگی انتہائی کمزور ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے زرعی شعبے کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ گندم کی خریداری کے لیے حکومت موسم میں نمی کا تناسب دیکھ رہی ہے۔ چینی سٹاک میں موجود ہے لیکن عوام مہنگے داموں خرید رہے ہیں۔ ہماری زرعی پالیسی کو بھی طاقتوروں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ خارجہ پالیسی بیرونی دبائو کا شکار ہے۔ جمہوری حکومتیں اس دبائو کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکیں۔ گزشتہ چند روز پہلے ایرانی صدر ہمارے ہاں تین روزہ دورے پر تھے۔ اسی اثنا میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے پریس بریفنگ کے دوران جب ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران طے پانے والی مفاہمت کی یادداشتوں سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری عمومی پالیسی ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ممکنہ پابندیوں سے آگاہ رہیں۔ اس طرز کے کئی سارے دبائو کا ہمیں سامنا ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس بھی دبائو کا شکار ہوا۔ دنیا کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر سیاسی و عسکری قیادت کو ملکر ملکی سلامتی اور معاشی اصطلاحات پر سختی سے عملدرآمد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button