Columnمحمد مبشر انوار

عدلیہ کا نباض

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خطاب کا اختتام ’’ مٹ جائے گی مخلوق خدا تو انصاف کروگے۔۔۔ منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے‘‘ پر کیا اور اس سے قبل جو چند جملے انہوں نے کہے، وہ ان کے خطاب کا مغز کہے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر نظام عدل کمزور ہو گا تو ریاستی ادارے کمزور ہوں گے اور اگر نظام عدل مضبوط ہو گا تو ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے، اللہ کرے کہ ریاستی ادارے اس پیغام کو کماحقہ سمجھ سکیں اور نظام عدل کی مضبوطی کو ترجیح دیں۔ انصاف کب فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے جو کاوشیں آپ کر رہے ہیں وہ یقینی طور پر قابل ستائش و قابل تحسین ہیں لیکن آپ کا زیادہ مرکز و محور بظاہر عدالتوں میں موجود مقدمات کے حوالے سے دکھائی دیتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انصاف کا قتل ہر سطح پر ہو رہا ہے، بالخصوص عدالت سے باہر اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں یا بااثر سیاسی و سماجی شخصیات جس طرح قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، ان کا احساس چند ایک مثالوں سے واضح ہے۔ ماضی میں ایک خاتون اپنے بیٹے کے بااثر قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے صرف اس وجہ سے پیچھے ہٹ گئی کہ اسے اپنی دیگر جوان بیٹیوں کی عزت عزیز تھی، اور یہ بات اس نے عدالت عظمی کے احاطے میں کھڑے ہو کر کی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس عدالت سے بڑی عدالت بھی موجود ہے، جہاں سے اسے انصاف مل کر رہے گا۔ دوسری طرف سیاسی اشرافیہ ہے کہ ببانگ دہل اقرار کرتی ہے کہ اگر میرے اثاثے میری آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا، یا میں نے جعلی کھاتوں میں اپنا لوٹ کا مال رکھا ہے تو اسے ثابت استغاثہ کرے ،اداروں کی بددیانتی اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ کرپشن کے مقدمات کی پیروی کرنے سے ہی منکر ہو جائیں اور عدالتوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار یوں کریں کہ ان کے پاس ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد ہی نہیں، مفرور ملزمان کے بائیو میٹرکس کی خاطر ایئر پورٹ پر مشینری لے جائی جائے اور انہیں بھرپور پروٹوکول فراہم کیا جائے۔ ایسی کئی ایک مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کہ مدعی/مظلوم صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانبداری و بااثر ملزمان کی سطوت کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، انصاف کی فراہمی اسی صورت یقینی بنائی جا سکتی ہے یا کہی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں لے جانے کی فریاد نہ کرے۔ تسلیم کہ صد فیصد انصاف کی فراہمی ہمارے معاشری میں فی الوقت ممکن نہیں کہ یہاں تو خود منصف اس وقت انصاف کے حصول میں کوشاں ہیں، لیکن کم ازکم اتنا تو کریں کہ شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر اعتماد تو ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ کی خدمت میں بصد احترام عرض ہے کہ انصاف کی فراہمی فقط اعلی عدالتوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کا آغاز تو انتہائی نچلی سطح سے ہوتا ہے،ایک پٹواری،ایک تھانیدارسے شروع ہونے والا معاملہ کتنے مراحل طے کرتا ہوا کئی سال گزرنے کے بعد اعلی عدالتوں تک پہنچتا ہے جہاں اکثربنیادی غلط قدم کے باعث معاملہ پھر انہی محکموں کو ریمانڈ کر دیا جاتا ہے،اور مظلوم نئے سرے سے دادرسی کے حصول میں نکل پڑتا ہے۔ایسے معاملات جہاں فقط پولیس کی صحیح تفتیش سے فوری حل ہو سکتا ہے،ملی بھگت گے باعث،برسوں لگ جاتے ہیں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ ہر جگہ اور ہر سطح پر دیکھا جا سکتا ہے،کہ کیسے عوام کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے جبکہ لٹیرے کس طرح ان محکموں کے دفاتر میں معززین و شرفاء کا روپ دھارے تمکنت کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مظلوم ہیں اور سائل ظالم ہے ،جس نے ان کے خلاف بلاوجہ درخواست دائر کر رکھی ہے،یہ تاثر اس اہلکار کی وجہ سے ہے،جو ایک ظالم کو عزت و شرف صرف اس کی سیاس و سماجی حیثیت کی وجہ سے دیتا ہے وگرنہ اگر انصاف کرنا چاہے تو فقط چند دنوں میں مظلوم کات حق اسے دلوا سکتا ہے۔ برادرم رئوف کلاسرا اکثر اپنی تحاریر اور ٹاک شوز میں برملا اس حقیقت سے پردہ اٹھا چکے ہیں کہ نیب کے زیر تفتیش بڑے بڑے اور بااثر شخصیات کیوں اور کیسے باعزت بری ہوئی یا کیسے ان کے مقدمات آج تک حکم امتناع رکھے ہوئے ہیں کہ نیب کے وہ اہلکار ،جن کے ذمہ ان کی تفتیش تھی،بعد از مدت ملازمت انہی حضرات کے شراکت دار بن چکے ہیں۔تو کیا ملزمان/مجرمان /ظالموں کے ساتھ شراکت داری کا حق صرف نیب اہلکاروں کا حق ہے یا ہر محکمہ کے اہلکار کو حصہ بقدر جثہ اس کا حق حاصل ہے؟حقیقت یہی ہے کہ پورا نظام اسی قاعدے و قانون کے تحت چل رہا ہے ،بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں میں یہ روایت عام ہے کہ مظلوم کی بجائے ظالم کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مستقلا ایک ذریعہ آمدن تو استوار کر لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ظالم کو مزید ظلم کرنے کی چھٹی بھی مل جاتی ہے اوروہ زیادہ دھڑلے سے اپنے ظلم جاری رکھتا ہے۔ امن و امان و چادر و چاردیواری کے حوالے سے جو کارکردگی پولیس یا دیگر اداروں کی ہے،وہ ہمارے سامنے ہے کہ یہاں تو ہائیکورٹ کے سابق جج کا گھر محفوظ نہیں جو شاعر شرق کی بہو ہیں،عام آدمی کی کیا حالت ہو گی؟ پاکستانی معاشرے میں اس قدر لاقانونیت کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے،خود کو ہر قانون سے مبرا تصور کرتے ہیں،ان کے نزدیک وردی پہن لینے سے انہیں ہر قسم کا تحفظ حاصل ہو جاتا ہے اوروہ جو چاہیں کرنے پر قادر ہیں۔اس سوچ کو کیسے او کیونکر تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں دہائیاں لگی ہیں اور جو اہلکار اس وقت سروس میں موجود ہیں،ان کی وفاداریاں ریاست کے ساتھ قطعا دکھائی نہیں دیتی،مستثنیات الگ ہیں کہ وہ ہر وقت موجود رہتی ہیں لیکن ان کی مقدار معدودے چند سے زیادہ نہیں ہے۔جناب جسٹس سیدمنصور علی شاہ صاحب،بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی شہریوں کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی،تو دیار غیر میں رہتے ہوئے وطن عزیز کی معیشت کو اپنے خون پسینے کی کمائی بھیج کر رواں دواں رکھے ہوئے ،مظلوموں کی شنوائی کس طرح ممکن ہے؟ بہتیرے ایسے واقعات ہیں کہ دیارغیر میں مقیم پاکستانی ایسے لٹیروں کے ہاتھوں زندگی بھر کی جمع پونجی کہیں سبز باغ دکھانے پر یا کہیں مظلومیت کا رونا روتے ہوئے کسی کا ساتھ دینے کی پاداش میں ان لٹیروں کے ہاتھوں لٹوا چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان محکموں نے ان کی دادرسی کی ہو البتہ یہ ضرور ہے کہ ظالم کو تلاش کیا جاتا ہے،اس سے تسلیم کروایا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اسے مزید ظلم کے لئے کھلا چھوڑ دیا جاتاہے۔ایسے کئی ایک واقعات سے واقف ہوں،اپنی مقدور بھر کوششیں کرنے کے باوجود،یہ لٹے پھٹے تارکین وطن دوبارہ اپنے معاش میں جت جاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ نیک نیت افراد ہیں جو اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے یہاں موجود ہیں ،کسی بھی طرح محنت مزدوری کے بغیر نہیں رہ سکتے جبکہ ان میں چند ایک ایسے بھی ہیں،جو ان لٹیروں کی مانند اپنی زندگی ڈھال کر ،ظالموں کے جتھے میں جا شامل ہوتے ہیں اور اپنا انتقام پورا کرنے لگتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ ہمارا نظام ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ محترم جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب!عدالتی نظام میں بہتری لانے کی جستجو قابل ستائش ہے،آپ کے ارادوں،آپ کی نیت پر قطعا کوئی شک نہیں لیکن جب تک بنیاد سیدھی نہیں ہوگی،عمارت سیدھی نہیں بن سکتی۔ آپ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی سعی کررہے ہیں،اہلکاروں کی تربیت کر رہے ہیں،جو عدالتوں تک محدود ہے،ضرورت بنیاد کو ٹھیک کرنے کی ہے،جو بظاہر آپ کے دائرہ اختیار میں نہیںآتی لیکن جن کے دائرہ اختیار میں ہے،ان کے لئے یہی نظام فائدہ مند ہے وگرنہ اب تک اس میں بعینہ ویسے ہی تبدیل آ چکی ہوتی جیسے افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی جاتی ہے کہ کبھی کسی نااہل شخص کی سیاسی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے یا نیب کے شکنجے میں پھنسے ہوئے سیاسی شخصیات کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کی جاتی ہے،غریب عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی اشرافیہ یا اراکین اسمبلی نے قانون سازی کی ہے یا صرف عوام کی ہڈیوں سے خون نچوڑنے کے لئے اراکین اسمبلی قانون سازی کرتے ہیں؟بہرکیف ان حقائق کے باوجود میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آپ نہ صرف عدالتی نظام کی بہتری کے خواہاں ہیں بلکہ ملکی بہتری بھی اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے چاہتے ہیں ،لیکن جب تک بنیاد ٹھیک نہیں ہو گی،عمارت آپ کی سوچ اور خواہش کے باوجود خوبصورت نہیں بن سکتی،ممکنہ طور پر آپ کی تشخیص سے عدالتی نظام پر بوجھ کم ہو جائے،عدالت کی کارکردگی بہتر ہو جائے ،لیکن انصاف کی فراہمی کی آپ کی خواہش پایہ تکمیل تک اسی صورت پہنچ سکتی ہے اگر ہر گنہگار کو بلا امتیازقرار واقعی سزا اس نظام کے اند ررہتے ہوئے ملے،تاہم آپ کی ان کاوشوں پرمورخ تو یقیناآپ کو ’’ عدلیہ کا نباض‘‘ قرار دے گا لیکن مجھے لمحہ موجود میں اس کی بے انتہا خوشی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button