Column

ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا فیصلہ

تحریر : روہیل اکبر
حکومت نے ملک میں چار سال کے لیے تعلیمی ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے جو ایک انتہائی اچھا اقدام ہوگا کیونکہ کل جب ہم بچے تھے تو اس وقت ایک خوشحال پاکستان تھا بے شک پیسے کی کمی تھی لیکن پھر بھی اطمینان تھا گھروں میں سکون تھا اس وقت تعلیم بھی کم تھی اور سکول بھی دور دور تھے کالج اور یونیورسٹی جانا ایک خواب ہوا کرتا تھا خیر وقت گزرا اور ہم بچپن سے جوانی کی دہلیز پر پہنچے تو پاکستان کو لوٹنے والوں نے بھی انتہا کردی اور اب جب ہم جوانی کی دہلیز پار کر رہے ہیں تو ہمیں ایک لٹا پٹا پاکستان ملا ایسا پاکستان جہاں گھروں کے قریب سکول ہونے کے باوجود تقریبا پونے تین کروڑ بچے سکول نہیں جارہے بلکہ وہ اپنے گھر میں فاقہ کشی سے بچنے کے لیے والدین کا کسی نہ کسی کام میں ہاتھ بٹا رہے ہیں یا پھر کسی ہوٹل، ورکشاپ اور سٹور میں بطور چھوٹے کے کام کر رہے ہیں کل کو جب یہ بچے جوان ہونگے تو اس وقت ہم انہیں کونسا پاکستان دیکر جارہے ہونگے تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو پڑھے لکھے جاہلوں کی بھی کمی نہیں ہے اور جو ہیں ہی جاہل ان سے خیر کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالنے کے مترادف ہے ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ جو خود کو نمایاں اور منفرد کرنے کے لیے ہر وسائل استعمال کر جاتے ہیں لیکن اپنے مستقبل سے بے خبر بچوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہے وہ تو شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ ان حالات میں بھی بچوں کی تعلیم کے حوالہ سے ایک شخص کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے آج کے بچے اچھی تعلیم اور اچھے ذہن کے مالک ہونگے تب ہی پاکستان کسی کنارے لگے گا وہ جب چیف سیکرٹری گلگت بلتستان تھے تو انہوں نے وہاں کے بچوں کے لیے ناقابل فراموش کام کئے اور بڑوں کو بھی سبق دیا سرکاری گاڑیوں پر لکھوا دیا کہ یہ آپ کے پیسے سے چلتی ہیں اور اب خو ش قسمتی سے وہی شخص محی الدین وانی پاکستان کے ان بچوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے جو کل ہمارا روشن مستقبل بنیں گے انہی کی کوششوں سے وزیر اعظم چار سال کے لیے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے جارہے ہیں ویسے تو ہمیں اپنی ہر شعبے میں ہی ایمرجنسی لگا دینی چاہیے لیکن تعلیم کا حال سب سے برا ہے اسی سے آغاز ہوجائے تو آنے والے دور میں بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے پاکستان اس وقت 26.2 ملین سکول نہ جانے والے بچوں ( OOSC) اور62%کی کم شرح خواندگی سے دوچار ہے جبکہ تعلیم کے شعبے پر حکومت کے مجموعی گھریلو پیداوار ( جی ڈی پی) کے 1.7فیصد کے معمولی اخراجات تشویش کا باعث ہیں مختلف علاقوں کے اسکولوں میں بیت الخلا، صاف پانی اور بائونڈری وال جیسی ضروری سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں بہت سے سکول خاص طور پر دیہی علاقوں میں پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں حالیہ تعلیمی شماریات کی رپورٹ برائے 2021۔22نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں39%بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں پنجاب میں 11.73ملین، سندھ میں 7.63ملین، خیبر پختونخوا میں 3.63ملین، بلوچستان میں 3.13ملین، اور اسلام آباد میں 0.08ملین بچے ہیں بچوں میں تعلیم کے مشن کو لیکر چلنے والے سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی کا کہنا ہی کہ تعلیم کے شعبے کو بہتر بنانا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہے وزارت تعلیم، تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر، وزیراعظم اور وزیر تعلیم کی ہدایت کے مطابق ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے کیونکہ تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے ہنگامی حالات میں پھنسے ہوئے بچوں اور نوجوانوں کے لیے تعلیم کا مطلب نہ صرف سیکھنے کا تسلسل ہے بلکہ یہ معمول کا احساس اور ایک مختلف مستقبل کی کلید بھی فراہم کرتا ہے تعلیم کے ذریعے حاصل کردہ علم، ہنر اور مدد سے نسلیں بحرانوں سے بچ جاتی ہیں اور دنیا کو ایک پائیدار مستقبل کی طرف لے جاتی ہیں یہ خاص طور پر کمزور خاندانوں کے لیے کامیابی کی ضمانت اور کنجی ہے جن میں لڑکیاں، تارکین وطن، مہاجرین اور معذور افراد شامل ہیں اس حوالہ سے یونیسکو تعلیم کو بحرانی سیاق و سباق میں ایک فوری اور فوری بنیادی ضرورت سمجھتا ہے جیسے خوراک اور صحت کی خدمات جو انسانی ہمدردی کے ردعمل میں فراہم کی جانی چاہئیں۔ 1950 سے یونیسکو ہنگامی حالات میں تعلیم ( EiE) میں مصروف عمل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہنگامی حالات میں لوگوں کے تعلیم کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ اس وقت پاکستان سمیت اور بھی بہت سے ممالک ہیں جو تعلیمی ایمرجنسی کی طرف جارہے ہیں اور ان سب کو یونیسکو بھر پور سپورٹ بھی کرتا ہے بحران سے متاثرہ ممالک میں تعلیم کو درپیش کلیدی چیلنجوں میں سے ایک درست، قابل اعتماد اور بروقت اعداد و شمار کی کمی ہے جو کہ موثر تعلیمی ردعمل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے دستیاب اعداد و شمار کو اکثر جمع کرنے اور استعمال کرنے کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے جو انسانی اور ترقیاتی پروگرامنگ کے درمیان موجودہ غلط فہمیوں کی عکاسی کرتا ہے یونیسکو ادارہ جاتی
نظاموں میں بہتر کوآرڈینیشن، معیاری کاری اور
انضمام کے ذریعے ایمرجنسیز (EiE)ڈیٹا کی پیداوار، تجزیہ، تقسیم اور استعمال کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے اس کا مقصد انسانی ہمدردی اور ترقیاتی پروگرامنگ کے درمیان فرق کو ختم کرنا بھی ہے بحران سے پہلے اور بعد میں کوالٹی ڈیٹا تک بہتر مربوط اور بہتر رسائی انتہائی کمزور آبادیوں کی زیادہ شمولیت اور ہنگامی، آفات اور بحران سے متاثرہ آبادیوں کے لیے مساوی، معیاری اور زندگی بھر سیکھنے کی ضروریات کی بہتر فراہمی کا باعث بنتی ہے تعلیمی نظام کی تیاری اور لچک کا امتحان ہنگامی حالات اور بحرانوں میں لیا جاتا ہے۔ 2019ء میں بحران سے متاثرہ ممالک میں رہنے والے 127ملین پرائمری اور سیکنڈری سکول جانے والے بچے اور نوجوان سکول سے باہر تھے جو کہ اسکول سے باہر کی عالمی آبادی کے تقریباً نصف کے برابر ہے یونیسکو تعلیم کو بحرانی سیاق و سباق میں ایک فوری بنیادی ضرورت سمجھتا ہے جیسے خوراک اور صحت کی خدمات پر انسانی ہمدردی کے ردعمل میں فراہم کی جانی چاہئیں۔ 1950سے یونیسکو ہنگامی حالات میں تعلیم (EiE) میں مصروف عمل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہنگامی حالات میں لوگوں کے تعلیم کے حق میں کوئی رکاوٹ نہ آئے تعلیم بحرانوں میں گھرے بچوں کے لیے لائف لائن ہے جبکہ جنگیں، وبائی امراض اور قدرتی آفات کسی بچے کو نہیں بخشتی ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں کسی بھی وقت کے مقابلے آج زیادہ ممالک تنازعات کی لپیٹ میں ہیں اور ان ہنگامی حالات سے متاثرہ ممالک کے بچی اپنے پیاروں اور گھروں کو کھو دیتے ہیں اس وقت یونیسکو دنیا میں شدید انسانی بحرانوں میں سب سے آگے کام کرتا ہے جیسے کہ افغانستان اور یوکرین میں یونیسکو عراق اور شام جیسے طویل تنازعات اور بحران سے دوچار ممالک کو بھی مسلسل مدد فراہم کرتا ہے یونیسکو کا کام مختلف قسم کے ہنگامی حالات کا احاطہ کرکے تعلیم میں تباہی کے خطرے میں کمی کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جواب دینے کے لیے توسیع کرنا بھی ہے ہنگامی حالات میں تعلیم جسمانی، نفسیاتی، اور علمی تحفظ فراہم کرتی ہے جو زندگیوں کو برقرار اور بچا سکتی ہے آج بحران سے متاثرہ ملک میں رہنے والے بچوں اور نوجوانوں کی عالمی آبادی کا تقریباً نصف ہے جن میں پاکستان سرفہرست ہے اور اس بحران سے ہمیں محی الدین احمد وانی جیسا درد دل رکھنے والا شخص ہی نکال سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button