Editorial

سرکاری اداروں کے نقصان کا حجم 10کھرب روپے ہونے کا انکشاف

پاکستان ویسے تو کافی سال سے مشکل دور سے گزر رہا ہے، معیشت کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں، ملک اور قوم کو بے پناہ مسائل لاحق ہیں، لیکن پچھلے 6سال سے اس میں خاصی شدّت محسوس کی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستانی روپے کو پستیوں کی گہرائیوں میں دھکیلا گیا۔ اس کا انتہائی منفی اثر غریبوں پر پڑا کہ ہر شے کی قیمت تین، چار گنا بڑھ گئی۔ مہنگائی کا بدترین طوفان قوم پر مسلط کیا گیا۔ جو گرانی سن 2035۔40 کے دور میں آتی، وہ2018 سے 2022کے دوران غریبوں پر نازل کردی گئی، آمدن وہی رہی، لیکن اخراجات بے پناہ بڑھ گئے۔ دوسری جانب 2018کے وسط کے بعد سے ملک میں کاروبار دشمن اقدامات کا آغاز کیا گیا، ترقی اور خوش حالی کے پہیے کو جام کیا گیا، صنعتوں کو گزند پہنچائی گئی، سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار انتہائی سست کردی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے بڑے ادارے اپنے آپریشنز کو سمیٹنے پر مجبور ہوئے، لاکھوں لوگوں کو نوکریوں سے بے دخل کیا گیا، اس کے علاوہ لوگوں کے برسہا برس کے جمے جمائے چھوٹے کاروبار بھی تباہ ہو گئے۔ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ ترقی کا سفر رُک کر رہ گیا۔ یہ ملکی معیشت کا نازک ترین دور تھا جب اُسے تاریخی ضرب لگائی گئی۔ ملکی مشکلات کی کھائی میں دھکیلنے کے لیے جہاں 2018سے 2022تک مذموم کوششیں ابھی ملک و قوم کو لاحق بنیادی مسائل کی جڑ ہیں، وہیں کئی عشروں سے اہم قومی اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی بھی مسائل کو لامتناہی حدوں تک پہنچانے کی اہم وجہ قرار پاتی ہے۔ ماضی کے کئی نفع بخش ادارے آج ملکی خزانے پر بدترین بوجھ ہیں، یہ ہر سال بدترین خسارے سے دوچار ہوتے ہیں، ان کا نظم و نسق چلانے کے لیے ہر برس حکومت کو بھاری بھر کم رقوم صَرف کرنا پڑتی ہیں، لیکن ان میں بہتری کی ہلکی سی بھی رمق نظر نہیں آتی۔ ان میں اوپر سے لے کر نیچے تک بدترین کرپشن کے سلسلے ہیں۔ ان میں سُدھار لانے کے لیے بارہا جتن کیے گئے، لیکن کبھی کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔ رواں سال سرکاری اداروں کے نقصان کا حجم دس کھرب روپے ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ رواں سال سرکاری اداروں کے نقصان کا حجم دس کھرب روپے ہے، ٹیکس بیس نہ بڑھائی تو آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام لینا پڑے گا۔ وزیر خزانہ اور پاکستانی سفیر مسعود خان نے پاکستانی وفد کے دورۂ امریکا کے حوالے سے واشنگٹن میں پریس بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مشن مئی کے وسط تک پاکستان پہنچے گا، آئی ایم ایف کی شرائط پر فیصلہ مئی میں ہوگا، ایف بی آر نظام ڈیجیٹلائزیشن کررہے ہیں، بڑے سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات کریں گے، سعودی عرب بھی پاکستان میں 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، مشکلات اور چیلنجز کے باوجود ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس نظام میں لیکیج اور خسارے کو کنٹرول کرنا ہے، ٹیکس نظام کی بہتری سے محصولات میں اضافہ ہوگا، اداروں کی نج کاری پر کام جاری ہے، انہوں نے ایس اینڈ پی گلوبل اور فچ ریٹنگز کے نمائندوں سے ملاقات کی اور ٹیکس، توانائی، نج کاری کے ترجیحی شعبوں میں جاری اصلاحات پر روشنی ڈالی۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان سے متعلق امریکی رویے میں خوش گوار تبدیلی آئی ہے، امریکا نے تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے، ہم چینی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی اداروں سے بات چیت مثبت رہی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کی سمت بالکل واضح ہے، حالیہ دنوں میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی، واشنگٹن میں دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کے حکام سے ملاقاتیں انتہائی حوصلہ افزا رہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی اچھی خبریں ملیں گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ اصلاحات کے ذریعے ٹیکس نظام میں بہتری لائی جارہی ہے، بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مزید اقدامات بھی کرنا ہوں گے، ریسورسز ہیں لیکن ان کو فزیبلٹیز میں تبدیل کرنا ہے، یعنی اگر آپ کسی چیز میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس بارے میں مکمل معلومات ہوں۔ سرکاری اداروں کے نقصان کا حجم دس کھرب روپے ہونا تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو سنجیدہ اقدامات یقینی بنانے چاہئیں کہ اس خسارے پر ناصرف قابو پانے میں مدد مل سکے بلکہ ادارے بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ ان اداروں سے کرپشن کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ ان میں شفافیت کو رواج دیا جائے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کیے جائیں تو یہ پھر سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ٹیکس نظام میں بہتری کے حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بالکل صحیح فرمایا۔ اگر ٹیکس وصولی کا نظام صحیح خطوط پر فعال ہو اور ہر فرد ذمے داری کے ساتھ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرے تو صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری اور ملکی ترقی و خوش حالی کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ وزیر خزانہ نے اس حوالے سے اظہار خیال بھی کیا ہے۔ حالات میں بہتری کے واضح اشارے دِکھائی دے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ برسوں میں صورت حال بہتر ہوگی۔ کئی ممالک پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ معیشت کا پہیہ پھر سے چلنا شروع ہوگیا ہے۔ صنعتوں کی پیداوار بڑھتی دِکھائی دے رہی ہے۔ وسائل کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔ برآمد بڑھ رہی ہیں جب کہ درآمدات میں کمی آرہی ہے۔ یقیناً آئندہ چند سال میں ملک اور قوم خوش حالی کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔
اسرائیلی حملوں میں مزید 20بچے شہید
درندہ صفت اسرائیل ساڑھے سات ماہ سے جاری اپنے پے درپے حملوں میں 34ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے اور دُنیا کے نام نہاد مہذب
ممالک اب بھی اُسے مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم قرار دیتے نہیں تھک رہے۔ فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کرنے میں ذرا بھی تامل کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے۔ پوری دُنیا اسرائیل سے حملے روکنے کے مطالبات کررہی ہے۔ اقوام متحدہ میں اس حوالے سے قرارداد منظور ہوچکی ہے۔ عالمی عدالت انصاف تین ماہ قبل اسرائیل کو حملے روکنے کا حکم دے چکی، لیکن ڈھیٹ، ہٹ دھرم اور بے شرم ملک اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سفّاک ترین ملک نے معصوم بچوں کو بھی نہ بخشا۔ فلسطین میں اسرائیلی حملوں کے شہدا میں بہت بڑی تعداد معصوم اطفال کی ہے۔ خواتین بھی خاصی بڑی تعداد میں شہید ہوئی ہیں۔ غزہ کا انفرا اسٹرکچر برباد کر دیا گیا ہے۔ ہر سُو عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ان کے تلے نہ جانے کتنے لوگ زندہ ہیں اور کتنے زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے، کوئی شمار نہیں۔ ہر طرف ماتم ہی ماتم ہے۔ کہیں والدین اپنے بچوں کی اموات پر غم و اندوہ کی کیفیات میں مبتلا ہیں تو کہیں اولادیں اپنے ماں، باپ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجانے کا غم مناتے نظر آرہے ہیں۔ تاریخ انسانی کا بدترین المیہ جنم لے چکا ہے۔ غذائی قلت دو درجن سے زائد اطفال کی زندگی ختم کرچکی۔ خوراک کا بدترین بحران ہے۔ امدادی سامان کو فلسطین تک پہنچانے کی راہ میں بھی روڑے اٹکانے کے سلسلے ہیں۔ اسرائیلی مظالم پر ہلاکو اور چنگیز خان کی روحیں بھی شرمسار ہوں گی کہ یہ ہم سے بھی بازی لے گیا۔ اسرائیل کے حملوں میں زیادہ تر بچے شہید ہوئے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ تھما نہیں، گزشتہ روز بھی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 20اطفال اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری میں 14بچے شہید ہوگئے، جن میں سے 13ایک ہی خاندان کے بچے تھے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کی غزہ میں گزشتہ 24گھنٹے سے جاری بمباری میں 14بچے شہید ہوگئے جب کہ مغربی کنارے میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران ایک درجن سے زائد افراد شہید ہوگئے، جن میں 6بچے شامل ہیں۔ دوسری طرف خان یونس کے نصر میڈیکل کمپلیکس میں اجتماعی قبر سے 200کے قریب لاشیں برآمد کی گئی ہیں جہاں 6ماہ تک اسرائیلی فوج نے قبضہ کر رکھا تھا جب کہ علاقے میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق خان یونس کے نصر میڈیکل کمپلیکس میں ہفتے کو متعدد لاشیں برآمد ہوئی تھیں اور اتوار کو مزید لاشیں نکالی گئی ہیں اور اب تک مجموعی طور پر اجتماعی قبر سے 180لاشیں نکالی جاچکی ہیں اور کارکن مزید کھدائی کررہے ہیں۔ ناجائز ریاست اس وقت دُنیا کا ظالم ترین ملک ہے۔ خود کو مہذب گرداننے والے کا انسانیت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایسے ظالم جب اپنے ظلم کی انتہا کردیتے ہیں تو ان کا انجام قریب آجاتا ہے۔ اسرائیل بھی مٹنے والا ہے۔ خدا کی مدد و نصرت فلسطینیوں کے شاملِ حال ہوگی۔ جیت اُن کا مقدر بنے گی۔ فلسطین خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر جلد سامنے آئے گا۔ اسرائیل کا کوئی نام لیوا نہ ہوگا اور یہ ظالم اور سفّاک ترین ریاست جلد دُنیا کے نقشے سے مٹ جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button