نائب وزیراعظم کا دورہ افغانستان

پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی تمام ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چند ایک ملکوں کو چھوڑ کر وطن عزیز کے سب کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اس کا کردار پوری دُنیا کے سامنے عیاں ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے خاصے پُرانے تعلقات ہیں۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں برادر ملک کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ اُس کی اور اُس کے عوام کی بساط سے بڑھ کر مدد کی ہے۔ 1979ء میں جب سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا تو پاکستان نے اس کی دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے مدد کی۔ اُس کے عوام کے لیے اپنے دروازے کھولے اور لاکھوں افغان مہاجرین کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ انہیں تمام شعبہ جات میں بلاتعصب مواقع فراہم کیے۔ 40سال سے زائد عرصے تک ان کی میزبانی کی۔ اب 2023ء سے غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی اُن کے ملکوں کو باعزت واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور لاکھوں افغان باشندے اُن کے ملک واپس بھیجے جاچکے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا 20سال تک افغانستان میں موجود رہا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور وہاں کے امن میں بھی پاکستان کا کلیدی کردار رہا۔ جب سے طالبان کی عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کھچائو سا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کیا جارہا ہے، وہاں سے پاکستان میں دراندازی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جنہیں ہماری بہادر افواج نے انتہائی مستعدی کے ساتھ ناکام بنایا اور تمام خوارج کو جہنم واصل کیا ہے۔ جعفر ایکسپریس حملے میں دہشت گرد افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے افغان سرزمین کے استعمال پر وطن عزیز بارہا پڑوسی ملک کے سامنے معاملہ اُٹھا چکا ہے، لیکن افغان سرزمین کا شرپسندی کے لیے استعمال رُک نہیں سکا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی حل طلب معاملات ہیں، جن کے طے ہونے کا بہترین ذریعہ مذاکرات ہی قرار پاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ روز نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے افغانستان کا دورہ کیا ہے، جس میں مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ افغانستان کسی کو غلط سرگرمی کیلئے اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دے گا۔ افغان دارالحکومت کابل میں اسحاق ڈار کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کیلئے بات چیت ہوئی، ٹریک اینڈ ٹریڈ سسٹم سے افغان ٹرانزٹ گڈز میں تیزی آسکتی ہے، دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کافی وقت سے افغانستان کی طرف سے ٹرانزٹ گڈز پر انشورنس گارنٹی کی تجویز تھی، دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی وفود کا تبادلہ ضروری، طورخم بارڈر پر آئی ٹی سسٹم کو جلد فعال کیا جائے گا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں اضافہ ضروری ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ عبوری وزیر خارجہ سے مہاجرین سے متعلق 4اصولی فیصلے ہوئے، افغان مہاجرین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، خطے کی ترقی، بہتری اور امن و امان کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کسی کو غلط سرگرمی کیلئے اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دے گا، نہ ہی پاکستان اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرنے دے گا۔ نائب وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ افغان شہریوں کی فراخدلی سے میزبانی کی، افغان شہریوں کو اپنے اثاثہ جات واپس لے جانے کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں اگر کوئی شکایات موصول ہوں تو اس پر فوری ایکشن لیا جائے گا اور اس کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے ہدایات جاری کی جائیں گی اور اس کا نوٹیفکیشن 48گھنٹے میں جاری کیا جائے گا اور اس شکایت کو حل کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے افغانستان کو یہ درخواست کی ہے کہ ہمیں ملکر اس خطے کی بہتری اور امن و امان کے لیے ملکر قائم کرنا ہے اور اس کے لیے ہم افغانستان میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی کرنی کے لیے اپنی سرزمین کسی کو استعمال کرنے دیں گے۔ شرپسند عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں۔ انہوںنے کہا کہ افغان وزیر خارجہ کو پاکستان دوری کی دعوت دی ہے۔ اور پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے۔ اس سے قبل نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار گزشتہ روز ایک روزہ دورہ پر کابل پہنچے جہاں ان کی اعلیٰ افغان حکام سے ملاقاتیںہوئیں، اس موقع پر مشترکہ امن و ترقی کا عہد کیا گیا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی، جس میں دونوں رہنمائوں نے باہمی دلچسپی کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی روابط کو فروغ دینے پر بات چیت ہوئی اور فریقین نے مسلسل رابطے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس بات پر اتفاق کیا کہ دو برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے تبادلوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اسحاق ڈار کی افغان وزارت خارجہ آمد پر افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے ان کا استقبال کیا۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان اہم مذاکرات ہوئے، جس میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ہوا۔ ملاقات میں دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت کو مثبت ماحول میں جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کابل میں افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے تمام مسائل بالخصوص سیکیورٹی اور سرحدوں کی مینجمنٹ سے متعلق معاملات سے نمٹنے پر زور دیا۔ بعدازاں نائب وزیراعظم افغانستان کا دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا یہ دورہ انتہائی اہم نوعیت کا تھا، اس کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دونوں جانب سے تدبر و دوراندیشی سے بہتری کی راہ نکلے گی۔ اس دورے کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ معاملات کافی حد تک سُلجھیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی خطے کے لیے سودمند ثابت ہوگی۔
کانگو: کشتی میں آتشزدگی، 148افراد ہلاک
دُنیا میں ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایسا افسوس ناک واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر اموات سامنے آتی ہیں، اس پر پوری دُنیا میں افسوس کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ کشتی حادثے متواتر ہوتے رہتے اور اکثر غیر قانونی تارکین وطن کی کشتیوں کو یہ درپیش آتے ہیں۔ ایسی کشتیوں میں گنجائش سے زائد مسافر سوار کیے جاتے ہیں ۔ ان کشتیوں کو کئی کئی روز سمندروں میں کھڑا رکھا جاتا ہے، جو وزن سہار نہیں پاتیں اور ڈوب جاتی ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ دو سال کے دوران چند کشتی حادثات ایسے پیش آئے، جن میں سیکڑوں پاکستانیوں کو اپنی زندگی سے محروم ہونا پڑا۔ یونان کشتی حادثے کی تلخ یادیں آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ گزشتہ روز کانگو میں کشتی میں آتش زدگی کا ایسا افسوس ناک اور دردناک واقعہ رونما ہوا ہے، جس میں 148لوگ اپنی زندگی سے محروم ہوگئے ہیں۔ سیکڑوں افراد لاپتا بتائے جاتے ہیں۔ آتش زدگی کے بعد جو تیرنا جانتے تھے، اُنہوں نے دریا میں کودتے ہوئے تیر کر اپنی جان بچانے کے لیے کوشاں رہے اور جو تیراکی سے نابلد تھے، دریا میں کودنے کے بعد ڈوب گئے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کانگو کے شمال مغربی علاقے میں واقع دریائے کانگو میں لکڑی کی بنی کشتی میں آگ لگی، جس کے نتیجے میں کشتی ڈوب گئی اور 148افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ مقامی میڈیا نے بتایا کہ کشتی میں خواتین اور بچوں سمیت 500افراد سوار تھے اور دریائے کانگو میں ڈوب گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کانگو میں کشتیوں کے حادثات عام ہیں جہاں گائوں میں ٹرانسپورٹ کے لیے لکڑی کی بنی کشتیاں استعمال کی جاتی ہیں اور اکثر اس میں گنجائش سے زائد افراد سوار ہوتے ہیں۔ انتظامیہ نے بتایا کہ حادثے میں تاحال سیکڑوں افراد لاپتا ہیں جب کہ اس سے قبل ہلاکتوں کی تعداد بھی 50بتائی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایچ بی کانگولو نامی کشتی میں امبانڈاکا قصبے کے قریب دریا میں آگ لگی جو ماٹنکومو کی بندرگاہ سے بلومبا جارہی تھی، بین الاقوامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ 100افراد کو زندہ نکال لیا گیا ہے اور پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا ہے تاہم جھلسنے والوں کو مقامی اسپتالوں کو بھیج دیا گیا ہے۔ کمشنر کومپیٹنٹ لویوکو نے بتایا کہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ایک خاتون کشتی میں کھانا پکا رہی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ درجنوں مسافر بشمول خواتین اور بچے کشتی میں آگ لگنے کے بعد دریا میں چھلانگ لگانے سے ہلاک ہوگئے جو تیرنا نہیں جانتے تھے۔ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ دُنیا میں بسنے والا ہر دردمند دل اس پر اُداس ہے۔