Editorial

ٹیکس آمدن ہر صورت بڑھائی جائے

ملک و قوم پر قرضوں کا بے پناہ بار ہے۔ حالانکہ وطن عزیز وسائل سے مالا مال ہے۔ مہذب دُنیا میں جن لوگوں پر ٹیکس واجب ہوتا ہے، وہ باقاعدگی کے ساتھ اس کی ادائیگی کرکے ذمے دار شہری حکومت کا ثبوت دیتے ہیں جب کہ وطن عزیز میں اس کے برعکس ہوتا ہے، یہاں ٹیکس چوری کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں، اس کے لیے پیسہ صَرف کیا جاتا ہے، کچھ فیصد لوگوں کی ٹیکس چوری کا خمیازہ ملک و قوم عرصۂ دراز سے بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی جانب سے برسہا برس سے ٹیکس نہ دینے کی ناپسندیدہ مشق جاری ہے، حکومت کو امور مملکت چلانے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ وہ ٹیکس کا بوجھ غریب عوام پر منتقل کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ٹیکس چوری کے تسلسل کے سبب قومی خزانے کو ہر سال بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ خوش کُن امر یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ابتدا سے ہی ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے کوشاں رہی ہیں اور اس ضمن میں ان کے اقدامات سب کے سامنے عیاں ہیں۔ اُنہیں ملک و قوم کی تمام تر مشکلات کا بخوبی ادراک ہے۔ مسائل گمبھیر ہیں، لیکن وزیراعظم اُن کے حل کے لیے خاصے پُرعزم اور کوشاں ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دور میں ٹیکس نظام میں اصلاحات کے سلسلے کو تواتر کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے، جس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی جانب سے بہت کم مدت میں ٹیکس ریٹرن فائل کیا گیا ہے۔ ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی ٹیکس نظام میں بہت سی اصلاحات اور اقدامات ناگزیر معلوم ہوتے ہیں۔ ٹیکس سے بچنے کے لیے لوگ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور یوں کھربوں روپے کے ٹیکس معاملات کے فیصلے پینڈنگ میں ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس کی نشان دہی بھی کی ہے اور کہا ہے کہ قرضوں سے نجات کے لیے قومی آمدن بڑھانا ہوگی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے قومی آمدن بڑھانا ہوگی، کارکردگی کے حوالے سے مختلف اداروں میں موجود سقم دُور کرنے ہوں گے، معاشرے اور اداروں کی بہتری کے لیے جزا اور سزا کے تصور کو اپنانا ہوگا، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے طویل سفر کا آغاز ہوچکا، سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں، انہیں ہر ممکن سہولتیں دیں گے، عدالتوں میں زیر التوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ایف بی آر کے دورے کے موقع پر ایک سال پہلے کیے گئے ایف بی آر کے نظام کو ڈیجیٹائز کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پور ی ٹیم نے مل کر کاوشیں کیں اور ان بے پناہ کوششوں کی بدولت اس سفر کا آغاز ہوچکا۔ یہ ایک لمبا سفر ہے اور راستے میں بڑی رکاوٹیں آئیں گی، جن کو اپنے غیر متزلزل عزم کے ساتھ دُور کرنا ہے اور پاکستان کے روشن اور خوشحال مستقبل کے لیے شبانہ روز کوششیں کرنی ہیں، پاکستان کو قرضوں سے نجات دلانی ہے، اس کا بوجھ آپ لوگوں کے کندھوں پر ہے۔ ہم آپ کے قابل ذہنوں کی بدولت یہ اہداف حاصل کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہمارے ٹیکس محصولات میں 27فیصد اضافہ قابل ستائش ہے۔ اس کے لیے چیئرمین ایف بی آر اور ان کی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک طویل سفر ہے اور محصولات میں اضافہ بظاہر خوش آئند ہے، لیکن مختلف ٹریبونلز یا دیگر عدالتوں میں کھربوں روپے کے مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں سے کئی مقدمات کئی دہائیوں سے چل رہے ہیں۔ ان کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔ وزیراعظم نے ایف بی آر کے افسروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک چبھتا سوال ہے کہ ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری جانب ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹمز، سیلز ٹیکس، جعلی رسیدوں کی دردناک کہانیاں ہم سن چکے ہیں۔ ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرنا ہے اور انہی چیلنجز کا ہماری حکومت کو سامنا ہے۔ ماضی میں جو ہوا ہمیں اس سے سبق حاصل کرکے تیزی سے ان خامیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ایک سال میں اس کے لیے بڑی تگ و دو کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیایہ صرف اس کمپنی کی خطا ہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک سال میں جو اچھا کام کیا گیا ہے اس پر ہم آپ کو دل کھول کر داد دیتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ آپ کو مزید اچھا کام کرنے کی توفیق دے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے قرض سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنے محصولات بڑھانا ہوں گے۔ اس کے بغیر قرض بڑھتا چلا جائے گا اور آئی ایم ایف سے کبھی چھٹکارا نہیں ملے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا بالکل برحق ہے۔ ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس چوری کے تمام تر راستے مسدود کیے جانے چاہئیں۔ کوئی نادہندہ بچ نہ سکے۔ اس میں شبہ نہیں کہ چند فیصد ٹیکس نادہندگان اگر ذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ازخود باقاعدگی سے ٹیکس ادائیگی کی مشق کو اپنالیں تو بہت سے مصائب کا خاتمہ ممکن ہے۔ ان کی جانب سے مسلسل ٹیکس ادائیگی سے ملک پر قرضوں کا بوجھ ختم ہوجائے گا۔ ملک کو اپنے قرضے رول اوور کرانے کی ضرورت ہی درپیش نہیں آئے گی۔ عوام پر بوجھ کم ہوگا۔ وہ خوش حال ہوں گے۔ ملک مزید تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
پنجاب: ساڑھے 12لاکھ خاندانوں کو راشن کارڈ دینے کا بڑا اعلان
عوام کے مصائب اور مشکلات کا ادراک رکھنے والے اور اُن کے دردوں کا مداوا کرنے والے ہی اچھے اور بہترین حکمراں گردانے جاتے ہیں۔ ایسے حکمراں غریبوں کی دادرسی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ اُنہیں ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں۔ عوام میں بھی ایسے حکمرانوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو منصب سنبھالے ایک سال اور چند ہفتے ہوئے ہیں، اس مدت میں وہ اپنے صوبے کے عوام کے دل جیتنے میں خاصی حد تک سرخرو نظر آتی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ پورے صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس پر اُن کے مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہیں۔ عوام کی بہتری کے لیے وہ خاصا فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ کئی پروگرامز متعارف کرائے ہیں۔ بجلی کی مد میں غریب عوام کو بڑا ریلیف اُن کی جانب سے دیا گیا تھا۔ سولر سسٹم کی مفت فراہمی ممکن بنائی گئی۔ اب اُن کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا راشن کارڈ پروگرام متعارف کرانے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے تمام سرکاری عمارتوں میں اسپیشل افراد کے لیے خصوصی ریمپ بنوانے کا حکم دے دیا۔ خصوصی افراد کے لیے معاون آلات کی فراہمی کے پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا کہ اسپیشل افراد کے لیے عمارتوں میں ریمپ نہ بنوانا ان کا احترام نہ کرنے کے مترادف ہے۔ میں اپیل کرتی ہوں کہ کوئی بھی خصوصی افراد کی معذوری کا مذاق نہ بنائے اور نہ انہیں اس حوالے سے کوئی نام دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یکم مئی کو پاکستان کا سب سے بڑا راشن کارڈ پروگرام لانچ کریں گے۔ ساڑھے 12لاکھ خاندانوں کو 10ہزار روپے دئیے جائیں گے۔ مریم نواز نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پانچ ماہ میں 30ہزار گھر اپنی چھت، اپنا گھر پروجیکٹ سے بن رہے۔ ملکی تاریخ میں کوئی بھی حکومت عوام کے لیے تین ہزار گھر بھی نہیں بناسکی۔ انہوں نے کہا کہ سال کے آخر تک ایک لاکھ گھر بنانے کا ہدف حاصل کریں گے۔ جن کے پاس زمین نہیں، ان کو تین مرلے کے مفت پلاٹ ملیں گے۔ ہر اس شخص تک پہنچنا چاہتی ہوں جو ریاست کا انتظار کررہا ہے۔ اسپیشل افراد کے لیے خصوصی ریمپ بنانے کا حکم قابل تحسین ہے۔ خصوصی افراد ہمارے معاشرے کا قابلِ قدر حصّہ ہیں۔ ان پر زیادہ سی توجہ سے انہیں معاشرے کا انتہائی کارآمد اور مفید شہری بنایا جاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا بالکل درست ہے۔ ملک کا سب سے بڑا راشن کارڈ پروگرام متعارف کرانے کا اعلان ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ ساڑھے 12لاکھ خاندانوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اُن کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی اسی قسم کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button