Column

’’ تحریک تحفظ آئین‘‘ ریاست مخالف پروپیگنڈا 

تحریر : طارق خان ترین
13اپریل کو ضلع پشین اور چمن میں حزب اختلاف کی جانب سے ’’ تحریک تحفظ آئین‘‘ کے عنوان سے جلسے کئے گئے۔ ان جلسوں میں محمود خان اچکزئی، شیر افضل مروت، عمر ایوب اور اختر جان مینگل کے ساتھ چھ جماعتی قائدین بھی شامل رہے۔ جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی و دیگر قائدین کی تقاریر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف ایک خود ساختہ چارج شیٹ کے سوا کچھ نہ تھیں۔ بد قسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ جب الیکشن ہوتے ہے تو جن پارٹیوں کو عوام نے مینڈیٹ دیا وہ ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں پر خاموش، جبکہ ہارے ہوئے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ایسی پارٹیاں اور ان کے سربراہان نکل کر عوام میں شوشہ چھوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم آئین کے تحفظ کے لئے نکلے ہیں۔ کیا 73ء کا آئین ریاست اور ریاستی اداروں کا تحفظ نہیں کرتا؟ آئین کی چند شقوں کو جو ان جیسی جماعتوں کے حق میں ہوں تو انہیں اپنے بیانیہ کیلئے استعمال تو کیا جاتا ہے مگر آئین کے بہت سے معاملات کو جو ریاست کو اور ریاستی مشینری کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، کو احتجاج کی شکل میں پیروں تلے روندا جاتا ہے، مگر کوئی روکنے والا نہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ قومی اداروں پر کبھی تشبیہات تو کبھی تخمینوں کی شکل میں ملکی ساکھ کو دروغ گوئی، پروپیگنڈوں اور تہمتوں کے توسط سے چیلنج کرتے ہوئے علم بغاوت کے نعرے لگا دئیے جاتے ہیں۔ جس سے ملک کی ساکھ کو بری طرح سے نقصان پہنچتا ہے۔ حزب اختلاف کا جلسہ ایک فلاپ شو کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، ضلع پشین میں مجھے یاد ہے کہ جب تواتر کے ساتھ ہر سال پشتونخوا ملی عوامی پارٹی عید کے تیسرے یا پھر چوتھے روز جلسہ منعقد کرتی تھی تو ان جلسوں میں ایک جم غفیر دیکھنے کو ملتا تھا۔ تاج لالا سپورٹس سٹیڈیم جس میں 20سے 25ہزار لوگوں کی گنجائش ہے اس میں 13اپریل کے جلسے میں محض پانچ ہزار لوگوں نے ہی شرکت کی۔ حالانکہ اس مرتبہ تو پی کے میپ کے ساتھ پی ٹی آئی، بی این پی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین بھی موجود تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ جلسے میں موجود پانچ ہزار افراد میں سے آدھے لوگ غیر ملکی پناہ گزین تھے جنہیں 15اپریل کو ملک بدر کرنے کی آخری ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ معلوم ہوا کہ ان پناہ گزینوں کے جانے سے پی کے میپ کی سیاست ختم ہونے کے قریب تر ہے، جب ہی تو محمود خان اچکزئی دیگر جماعتوں کا سہارا لیکر ملکی اداروں پر دبائو ڈالنے کی کوشش میں ہے۔ ضلع پشین میں ناکامی کے بعد حزب اختلاف کی پارٹیوں نے پشین میں فلاپ شو کرنے کے بعد ضلع چمن کا رخ کیا جہاں پہلے سے دھرنے میں لوگ موجود تھے جو چمن بارڈر پر پاسپورٹ کے خلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہے۔ دھرنے شرکا کے باوجود وہاں بھی لوگوں کی تعداد 7سے 8ہزار بتائی گئی۔ جو کہ 6پارٹیوں کے لئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ہر طرف سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی عدم استحکام نے ہر عام آدمی کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا، کیا حزب اختلاف میں موجود کسی بھی پارٹی کے سربراہ نے عوامی مفاد میں بات کی؟ بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ، غربت، بے روزگاری، مہنگائی پر کسی لیڈر نے بات کی؟ کیا کسی لیڈر نے یہ تک کہا کہ بلوچستان سے کس طرح احساس محرومی کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکتا ہے؟ چلیں یہ بھی نہ صحیح کسی نام نہاد قوم پرست سربراہ نے بلوچستان میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا؟ کیا فلسطین پر اسرائیلی یلغار کے خلاف کوئی قرارداد ان جلسوں کے توسط سے پاس ہوئی، احتجاج تو دور کی بات؟ قارئین کرام، یہاں بلوچستان کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ بلوچ قوم پرست جب اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو چپ کا لبادہ اوڑھ کر تمام تر مراعات لیتے تو ہیں مگر لاپتہ افراد پر مجال ہے کہ کوئی ایک لفظ بھی منہ سے نکالے لیکن جب الیکشن میں عوام انہیں رد کرتے ہیں تو انہیں یہ مسئلہ یاد آجاتا ہے اور اس پر طرح طرح کے پراپیگنڈے ریاست کے خلاف شروع کر دیتے ہیں۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)

بلوچستان کے عوام غریب سے غریب تر جبکہ سیاستدان امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں، کیا عوام کو نہیں پتہ؟ یہی المیہ پشتون قوم پرستوں کا ہے جب اسمبلی میں بیٹھے تو سب ٹھیک، عوام رد کرے تو سب غلط۔ اس روش نے بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے مگر عوام اب جاگ چکے اور یہ ان کے جلسے جلوسوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔
ان چھ جماعتوں کی گٹھ جوڑ کے مقاصد کیا ہیں؟ ان پر بات کرنے سے پہلے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ریاست کو سیاست کے لئے قربان نہیں کیا جاسکتا البتہ سیاست کو ریاست کے لئے اگر قربان ہونا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، شیر افضل مروت اور عمر ایوب خان کا ریاست ؍ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ان کی سیاسی موقع پرستی اور ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ آئینی گفتگو اور ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر یہ رہنما سیاست میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور غیر ضروری طور پر مرکزی حکومت کی اتھارٹی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ مسترد شدہ رہنما سیاسی جگہ بنانا چاہتے ہیں، چاہے اس کی قیمت قومی استحکام کو تباہ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ مسترد شدہ جماعتوں کے قائدین بلوچستان کے حقوق کے تحفظ کا بہانہ بنا کر اپنے منفی سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری تنائو اچکزئی اور دیگر اسٹیبلشمنٹ مخالف افراد کو طاقت کے سٹرکچر میں موجود تقسیم بڑھانے کا ایک اور موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ بنیاد پرست سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی غلط سمجھی جانے والی مداخلت کے خلاف خود کو عدالتی آزادی کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہوئے صف بندی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ملک کی غیر مستحکم سیاسی اور معاشی صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پشین سے اپنے احتجاج کا آغاز کرنے والی اپوزیشن لانچنگ پیڈ کے طور پر بلوچستان کو استعمال کرنا چاہتی ہے جو پہلے ہی بلوچ قوم پرستوں کی قیادت میں احتجاج کا شکار ہے۔ بلوچستان کو پاکستان کا سب سے پسماندہ خطہ قرار دے کر اپوزیشن جماعتیں سیاسی مقاصد کے لیے عوام کے جذبات کا استحصال کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ مذکورہ سیاستدانوں کی منفی ایجنڈے پر مبنی سیاست متوازن رائے سازوں کی نظر میں واضح طور پر بے نقاب ہو چکی ہے اور وہ یہ اپنے منفی طرز سیاست سے مزید بے نقاب ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button