کینالز معاملہ، مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق

سیاست خدمت کا نام ہے۔ اگر یہ خلوص نیت کے ساتھ کی جائے تو اس سے عوام کی فلاح و بہبود کی راہیں نکلتی ہیں۔ اگر سیاست ذاتی مفادات کے گرد چکر لگانے پر مامور ہو تو اس سے شر ہی پھوٹتا اور خیر کی توقع رکھنا عبث ہوتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پچھلے کچھ سال کے دوران وطن عزیز کی سیاست میں اخلاق و تہذیب سمیت تمام اچھی اقدار رُخصت ہوچکی ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کے دور سے شروع ہونے والا اخلاق کی دھجیاں اُڑانے کا سفر تاحال جاری ہے۔ بعض سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالتے نظر آتے ہیں۔ مخالفین کو نامناسب القاب سے نوازنے سے نہیں چُوکتے۔ حتیٰ کہ خواتین تک سے متعلق انتہائی تہذیب کے دائرے سے باہر گفتگو کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں اور اُن کے رہنما اب بھی تہذیب و اخلاق کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور اختلافات کا اظہار بھی تہذیب میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سیاست میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ عرصۂ دراز سے کرتی چلی آرہی ہیں اور ان کا دم سیاست کے لیے غنیمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ دریائے سندھ سے 6نئی نہریں نکالنے کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات ہیں۔ پی پی کی سندھ حکومت اور صوبے کے عوام ان کینالز کی سختی کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اس مسئلے کو گفت و شنید سے حل کرنے کا ارادہ رکھتی اور سندھ کے تمام تحفظات دور کرنے کی متمنی ہے۔ اس لیے وفاق کی جانب سے اس معاملے کو افہام و تفہیم سے طے کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے اس امر کو خوش آئند ٹھہرایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاق اور سندھ کے درمیان متنازع کینالز کے معاملے پر سیاسی درجہ حرارت میں کمی آنے لگی۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، جس میں دونوں رہنمائوں نے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کرلیا۔ رانا ثناء اللہ نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت سندھ کے تحفظات دُور کرنے کے لیے مکمل طور پر سنجیدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور قائد مسلم لیگ ن نواز شریف نے ہدایت دی ہے کہ سندھ کے تمام تحفظات، خصوصاً کینالز کے حوالے سے، افہام و تفہیم سے دُور کیے جائیں۔ اس موقع پر شرجیل انعام میمن نے اس رابطے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کینالز کے معاملے پر ہر فورم پر اپنا موقف پیش کرچکی اور ہمیں پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کی طرف سے اس پر شدید تحفظات ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم کی خواہاں ہے اور وفاق سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ خدا نہ کرے کہ ہم حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں اور کوئی نیا سیاسی بحران کھڑا ہوجائے، ملک اس وقت کسی نئے بحران کا متحمل نہیں، حکومت کو بھی پیپلز پارٹی کی آواز سننی چاہیے، جب پیپلز پارٹی کے خلاف منفی بیانیہ بنے گا تو ہمیں بولنا پڑے گا؟ کائرہ نے کہا وزیراعظم اگر مشترکہ مفادات کونسل کی میٹنگ نہیں بلاتے تو سیاسی جماعتیں عوام کی طرف جائیں گی۔ مزید برآں وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کینالز کے معاملے پر ہونے والے احتجاج کے حوالے سے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کوئی صوبہ دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق احسن اقبال نے دریائے سندھ سے کینال نکالنے کے تنازع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بدگمانیاں پیدا کریں گے تو تکنیکی معاملات پر تنازعات پیدا ہوجائیں گے، انجینئرز کا فرض ہے کہ واٹر سیکیورٹی پر پلان تیار کریں۔ مزید برآں وزیر مملکت ریلوے بلال اظہر کیانی نے سندھ کے عوام کو یقین دلایا کہ ان کے حصے کے پانی کا ایک قطرہ کم نہیں ہونے دیں گے اور اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر نہروں کے معاملے پر سیاسی، تکنیکی اور پالیسی سطح پر بات چیت کریں گے۔ جہلم کی تحصیل دینہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلال اظہر کیانی نے کہا کہ میاں نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ کینالز تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق یقیناً خوش کُن امر ہے۔ اس پر دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کی توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ اُمید ہے کہ اس معاملے کا صائب حل نکلے گا، جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں بہتر ثابت ہوگا۔
بھارت: مسلمانوں کی دُکانیں جلانے کا افسوسناک واقعہ
مودی کو بھارت کی وزارت عظمیٰ پر قابض ہوئے 11سال ہوچکے ہیں، وہ اپنے انتہاپسندانہ نظریات کے باعث اکثریتی ہندوؤں کا چہیتا ہے اور یہ انتہاپسندانہ سوچ ہی اس کی اب تک انتخابات میں کامیابی کی وجہ ثابت ہوئی ہے۔ فسادات کو ہوا دینا مودی کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس کے 11سالہ دور میں بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم بنادیا گیا ہے۔ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ اُن کو حقوق بھی میسر نہیں جب کہ اُن کے ساتھ بدترین تعصب کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سِکھ، عیسائی، پارسی سمیت تمام اقلیتیں بھارت میں اپنا مشکل ترین دور گزار رہی ہیں۔ سِکھوں کے ساتھ تعصب کی انتہا کردی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خالصتان تحریک نے ان برسوں کے دوران خاصا زور پکڑا ہے۔ مسلمانوں سے تو انتہاپسند ہندوئوں کو اللہ واسطے کا بیر ہے۔ وہ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں۔ ہر شعبے میں مسلمانوں کو بدترین تعصب کا سامنا ہے۔ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان بچوں تک کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اُن کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ ملازمتوں کے مواقع بھی مسلمانوں کے لیے محدود ہیں۔ بھارت میں مسلمان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی زندگیاں اور عزتیں تک محفوظ نہیں۔ انتہاپسندوں کا جتھا الزام لگا کر مسلمانوں سے حقِ زیست چھینتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے ڈھیروں واقعات رونما ہوچکے ہیں جب کہ مسلمان لڑکیوں کے ساتھ عصمت دری کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمان بھارت میں کھل کر کاروبار بھی نہیں کرسکتے، اُن کے کاروبار پر جہاں سرکاری سطح پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں، وہیں انتہاپسند بھی اُن کے باعزت روزگار کمانے کی راہ میں آڑے آتے ہیں۔ گزشتہ روز بھارت میں انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی دُکانوں کو جلاڈالا ہے جب کہ انتظامیہ اس کی روک تھام میں یکسر ناکام رہی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی دُکانوں کو نذرآتش کردیا، جس کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی دُکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی، جس سے افراتفری پھیل گئی۔ ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملتے ہی پولیس ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی۔ صورت حال اس قدر سنگین تھی کہ قریبی تھانوں سے کمک طلب کی گئی۔ حالات بگڑتے ہی پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور بے قابو ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ ضلع کلکٹر سندیپ جی آر نے بتایا کہ علاقے میں ماحول کشیدہ رہا، پولیس کی بھاری نفری امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تھی۔ دریں اثناء بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔ ممتا بنرجی نے ایک کھلے خط میں کہا کہ مغربی بنگال کے لوگوں کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے تاکہ وہ ان کے جال میں نہ پھنسیں۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس، بی جے پی اتحاد کا مقصد فسادات بھڑکانا ہے، جس سے تمام کمیونٹیز متاثر ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کے روزگار کا ذرائع کو تباہ کردینا کسی طور مناسب نہیں۔ اب یہ مسلمان خاندان کیسے اپنے گھر کا معاشی نظام چلائیں گے۔ انتظامیہ نے آخر اس واقعے کی روک تھام میں کردار کیوں ادا نہیں کیا۔ ممتا بنرجی کا کہا بالکل درست ہے۔ بھارت کے عوام کو مودی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے مکروہ عزائم کو بھانپنا اور ان کا ردّ کرنا ہوگا۔ یہ بھارت کو انتہاپسندی کی اندھی کھائی میں دھکیل چکے ہیں۔ عوام کو اب ہوش مندی دِکھانی ہوگی۔ بھارت وہ ملک ہے، جہاں کے کروڑوں عوام بیت الخلا کی سہولتوں سے محروم ہیں، بے شمار بھارتی سڑکوں پر سوتے ہیں جب کہ مودی کی انتہاپسند حکومت ہر سال جنگی بجٹ دھڑلے سے بڑھائے جارہی ہے۔ بھارت کے عوام کو جاگنا ہوگا، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ امر بھارت کی تباہی کا باعث ثابت ہوگا۔