Editorial

وزیراعظم شہباز شریف کا افغانستان سے راست مطالبہ

1979ء میں سوویت یونین اور پھر 2001ء میں امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ 1979ء میں سوویت حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان کی ہر ممکن مدد کی، وہاں کے باشندوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے، لاکھوں افغانیوں نے پاکستان کی راہ لی، افغانستان کی ہر طرح سے مدد کی، اُس کے لاکھوں باشندوں کو پناہ دی۔ اُن کو تمام شعبہ جات میں بھرپور مواقع فراہم کیے گئے۔ 43سال تک ان کی میزبانی کے فرائض سرانجام دئیے۔ افغان باشندوں نے یہاں اپنی اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں۔ تعلیم حاصل کی، کاروبار کیے۔ افغانیوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ پاکستان اور اس کے عوام نے افغانستان اور اس کے باشندوں کے لیے محسن کا کردار بخوبی نبھایا۔ سال 2023ء میں جب ملکی وسائل ان محدود تھے، گرانی آسمان پر پہنچی ہوئی تھی، ملک تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا تھا تو اُس وقت کی نگراں حکومت نے افغانستان سمیت تمام ملکوں کے غیر قانونی مقیم باشندوں کو اُن کے ملکوں کو باعزت واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اب تک لاکھوں افغانی اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا۔ افغانستان کے امن کے لیے وطن عزیز نے بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ لیکن جب سے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے اور وہاں عبوری طالبان حکومت قائم ہوئی ہے، تب سے مسلسل افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ وطن عزیز اس حوالے سے بارہا احتجاج ریکارڈ کرا چکا، افغانستان کی توجہ اس جانب مبذول کروا چکا، لیکن پڑوسی ملک کی طرف سے اس پر کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ افغانستان سے بارہا دراندازیاں ہوچکی ہیں، جنہیں ہماری بہادر افواج ہر بار ناکام بنا دیتی ہیں۔ افغان سرزمین ٹی ٹی پی سمیت مختلف دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے جب کہ پڑوسی اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں اور افغانستان سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیمیں افغانستان سے آپریٹ کر رہی ہیں، افغان حکومت دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالے، افغانستان برادر اور ہمسایہ ملک ہے، اب یہ افغانستان پر منحصر ہے کہ ہمسائے کے طور پر رہتا ہے یا تنازعات کے ساتھ۔ لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو ہم نے متعدد بار یہ پیغام دیا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق وہ کسی طور پر بھی افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن بدقسمتی سے ٹی ٹی پی، آئی ایس کے پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں وہاں سے آپریٹ کرتی ہیں اور پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو انہوں نے شہید کیا ہے، ہم نے افغان عبوری حکومت کو کئی بار اس حوالے سے پیغام بھی بھیجا، پاک فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، افغانستان کو میرا ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ فی الفور ان دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالے اور اپنی دھرتی کو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے کی قطعاً اجازت نہ دے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دورۂ بیلاروس اچھا رہا، بیلاروس کی زراعت کے شعبے میں مہارت سے فائدہ اٹھائیں گے، بیلاروس میں بننے والے زرعی مشینری کے جوائنٹ وینچرز پاکستان میں بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو معدنیات کے خزانے عطا کیے ہیں، بیلاروس میں مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے مشینری بنانے والی فیکٹری کا بھی دورہ کیا، اس شعبے میں بھی ان شاء اللہ تعاون بڑھائیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ لاکھ ہنرمند پاکستانی نوجوانوں کو بیلاروس میں روزگار کی فراہمی کے لیے بیلاروس سے ہماری مفاہمت ہوئی ہے جو ہم ان شاء اللہ بالکل میرٹ پر بھیجیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسپیڈ جو تھی وہ بھی پاکستان اسپیڈ تھی جو اَب سپر پاکستان اسپیڈ ہے، نواز شریف کی ہی قیادت میں ہم قوم کی خدمت کر رہے ہیں، ترقی کرتا ہوا، خوش حالی کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا پاکستان ان شاء اللہ ہماری منزل ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ افغانستان کو وزیراعظم پاکستان کے مطالبے پر عمل کرنا چاہیے۔ افغانستان دہشت گردوں کو لگام ڈالتے ہوئے اپنی سرزمین کسی بھی طور پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ امن کے لیے سنجیدگی دِکھائے۔ اُس کی جانب سے غیر ذمے دارانہ رویہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان اُس کا محسن ہے۔ اس ضمن میں لیت و لعل ہرگز معقول نہ ہوگا۔ خطے کے امن کے لیے افغانستان کو اپنا صائب کردار ادا کرنا ہوگا۔ بیلاروس کے کامیاب دورے سے متعلق بھی وزیراعظم نے لب کشائی کی۔ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ہنرمند بیلاروس جاکر خدمات سرانجام دیں گے تو اس سے خاصا معقول زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ ملک کی معیشت کا درست سمت کا تعین موجودہ حکومت کر چکی ہے۔ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن ہے، چند ہی سال میں اس کا شمار دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔
پولیو کو شکست دی جائے
پولیو وائرس پوری دُنیا کے لیے ایک سنگین چیلنج تھا، جس پر راست کوششوں کے ذریعے دُنیا بھر کے ممالک نے قابو پالیا، پاکستان اور افغانستان ہی دُنیا میں ایسے ملک رہ
گئے، جہاں آج بھی پولیو وائرس کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ پچھلے سال جہاں درجنوں بچے پولیو سے متاثر ہوئے، امسال کے آغاز سے بھی ہر کچھ دنوں بعد کوئی نہ کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے۔ پولیو ایک خطرناک وائرس ہے، جو بچوں کو زندگی بھر کی معذوری سے دوچار کردیتا ہے۔ وطن عزیز میں پولیو کے خلاف جنگ سالہا سال سے جاری ہے، لیکن اس میں فتح نصیب نہیں ہورہی۔ گو مسلسل جاری رہنے والی پولیو سے بچائو کی مہمات کے نتیجے میں پولیو کیسز میں خاطرخواہ کمی ضرور آئی ہے، مگر اس سے مکمل نجات کی منزل اب بھی دُور ہے۔ ماضی میں پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین سے متعلق مختلف پروپیگنڈے گھڑے گئے۔ اسے بچوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔ شرپسندوں کی جانب سے پولیو ٹیموں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ کئی کارکنان اور سیکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ اب بھی والدین ان پروپیگنڈوں کا شکار اور اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلوانے سے اجتناب کرتے نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال سے اس حوالے سے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار اور انکشاف کیا ہے کہ ملک میں 85ہزار افراد نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں، اگر پولیو کی وجہ سے بچہ معذور ہوگیا تو پوری دُنیا میں اس کا علاج نہیں، کینسر کا علاج ہے لیکن پولیو کا علاج نہیں۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پوری دُنیا سے پولیو ختم ہوگیا، پاکستان اور افغانستان میں ختم نہیں ہوا، پاکستان میں ایک اور پولیو مہم کا آغاز 21 اپریل سے ہونے جارہا ہے۔ پولیو کے خاتمے کے لیے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، احتیاطی تدابیر سے بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ ہم سب نے مل کر انسدادِ پولیو مہم کو سو فیصد کامیاب بنانا ہے۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ پولیو ویکسین کا کوئی نقصان نہیں۔ پاکستان کے 85 ہزار لوگوں نے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے منع کردیا۔ وزیر صحت نے انکشاف کیا کہ صرف کراچی میں 34 ہزار افراد نے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے منع کردیا۔ 27 ہزار افراد جنہوں نے پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا، وہ کراچی کے ضلع شرقی سے ہیں۔ بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین نہ پلانے والے والدین مجرم ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 21 سے 27 اپریل تک انسدادِ پولیو مہم چلائی جائے گی۔4 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ پولیو سے بچائو کی ویکسین پلوانے سے انکار یقیناً تشویش ناک امر ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ ایسی روش اختیار کرکے بعض والدین اپنے بچوں کو پولیو کے خطرات میں ڈال رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے بالکل درست فرمایا، پولیو لاعلاج ہے۔ حالانکہ سب اس پر متفق ہیں کہ پولیو سے بچائو کی ویکسین کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ یہ اطفال کو پولیو کے خطرے سے تحفظ دیتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائے۔ تمام والدین کو اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلوانے پر آمادہ کیا جائے۔ پولیو کو ہر صورت شکست دی جائے کہ اس کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔

جواب دیں

Back to top button