Editorial

ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ

ملک و قوم کے لیے جب کچھ کرنے کا جذبہ اور لگن ہو تو کامیابی ضرور مقدر بنتی ہے۔ گزشتہ سال عام انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ قوم کو مخلص قیادت میسر آئی تو اس نے اوّل روز سے ہی مسائل اور مشکلات کے خاتمے کے لیے کاوشوں کا آغاز کیا، محنت اور جدوجہد کے ثمرات ظاہر ہونے لگے۔ معیشت درست پٹری پر گامزن ہوئی اور میکرو اکنامک استحکام وطن عزیز حاصل کرچکا جب کہ اب پائیدار معاشی استحکام کی منزل کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ معیشت کے حوالے سے حالات روز بروز بہتر ہورہے ہیں۔ مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آچکی ہے۔ غریب عوام کی حقیقی اشک شوئی ممکن ہوسکی ہے۔ کچھ مہینوں کے دوران شرح سود میں دس فیصد کمی آئی ہے۔ اوور سیز پاکستانی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال رہے ہیں۔ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلاتِ زر میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ ماہ 4.1 ارب ڈالرز کی ترسیلات زر پاکستان آنے کا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ یہ امر انتہائی خوش کُن ہے۔ دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک نے مہنگائی میں اضافے کی بھی پیش گوئی کی ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہیں، مجھے اپنی ٹیم پر 98 فیصد اعتماد ہے، آئندہ ماہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوگا، اس کے بعد افراطِ زر مالی سال کے اختتام سے 7 فیصد تک رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان مالیاتی خواندگی ہفتہ 2025 کے سلسلے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گونگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق 2025 کے مالی سال میں اب تک ترسیلات زر میں 33 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جب کہ مارچ میں ترسیلات زر میں تاریخی اضافہ ہوا۔ توقع ہے کہ جون 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 14ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور ترسیلات زر کا مجموعی حجم 38 ارب ڈالر ہوگا۔ افراطِ زر (مہنگائی) کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی 2ہفتے تک جاری رہنے والی اسپرنگ میٹنگز کی وجہ سے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کی اگلی قسط موصول ہونے میں تاخیر ہوسکتی ہے جبکہ آئندہ ماہ سے افراط زر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاہم مالی سال کے اختتام پر افراطِ زر 5سے 7فیصد کے درمیان رہے گی۔ گورنر نے اپنی ٹیم پر 98فیصد اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام معاشی اقدامات ملک کو استحکام کی طرف لے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ فنانشل لٹریسی کو فروغ دینے کیلئے ایسے پروگراموں کا انعقاد خوش آئند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے، مانیٹری پالیسی کمیٹی کی توقع کے مطابق مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی اسسمنٹ آنے والی ہے، اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح نمو 3فیصد رہنے کا تخمینہ دیا ہے، مارچ 2025میں ہم نے 0.7فیصد کی کم ترین سطح پر افراطِ زر دیکھی تاہم آئندہ ماہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔ گورنر نے کہا کہ زرعی نمو کم رہنے کی وجہ سے معاشی ترقی کی شرح نمو 3فیصد رہے گی، زرعی شعبہ کی نمو گزشتہ سال کے برابر رہتی تو معاشی ترقی کی شرح نمو 4.2فیصد ہوتی، تمام بڑے صنعتی شعبوں میں نمو دیکھی جارہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے امریکی ٹیرف کے اثرات کے حوالے سے کہا کہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ پر تھوڑا اثر آسکتا ہے، تیل کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ ہوگا، مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت پر امریکی ٹیرف کا اثر محدود رہے گا۔ دوسری طرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں سال مارچ کے مہینے میں تاریخی مالیت کی ترسیلات وطن بھیج کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے جاری اعدادوشمار کے مطابق کسی ایک ماہ میں 4ارب ڈالر سے زائد مالیت کی ترسیلات زر کا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ مارچ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے 4.1ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ مارچ 2024 کے مقابلے میں ترسیلات زر 37.3 فیصد جب کہ فروری 2025سے 29.8فیصد زائد ہیں۔ رواں مالی سال جولائی تا مارچ مجموعی طور پر 28ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 21ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں۔ ترسیلاتِ زر میں یہ اضافہ تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے کی مانند ہے۔ اوورسیز پاکستانیز ملک سے دُور رہ کر بھی وطن کے لیے بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جنہیں کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان شاء اللہ اگلے وقتوں میں ترسیلاتِ زر میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ مہنگائی میں اضافہ وقتی ہوگا۔ موجودہ حکومت کے اقدامات ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہیں۔ اس نے غریب عوام کی حقیقی اشک شوئی کی ہے۔ آگے بھی عوام گرانی سے محفوظ رہیں گے۔ ملکی معیشت کے حوالے سے عالمی ادارے حوصلہ افزا رپورٹس جاری کررہے ہیں۔ کچھ ہی سال میں تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔
بچوں کا تحفظ، اقدامات ناگزیر
بچوں کو پھولوں کی مانند گردانا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ اس کائنات کے سارے رنگ اور گھروں کی رونقیں انہی معصوموں کے دم سے ہوتی ہیں۔ پھول ایسے بچے ہر لحاظ سے اچھے اور بہترین سلوک کے مستحق ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں بچوں کے حوالے سے صورت حال کسی طور مناسب نہیں، جہاں ان پر بدترین تشدد کی ڈھیروں مثالیں دِکھائی دیتی ہیں، وہیں ان معصوموں کو بعض بھیڑیے اپنی ہوس کا
نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ غربت کے باعث چائلڈ لیبر کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافے ہی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں بے شمار بچوں کے ہاتھوں میں قلم، کتاب کے بجائے اوزار ہیں اور کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں وہ اپنے گھروں کا معاشی بوجھ ڈھورہے ہیں۔ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ کام کی جگہوں پر ان کے ساتھ انتہائی حقارت آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان بچوں کو ذرا سی غلطی پر اُستاد کی بے رحمانہ مار بھی کھانی پڑتی ہے، مغلظات سے تو اُستادوں کی جانب سے ویسے ہی نوازا جاتا رہتا ہے۔ اکثر عام شہری بھی ایسے بچوں کے ساتھ جھڑک کر گفتگو کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ماضی میں معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ گزشتہ سال ساڑھے سات ہزار سے زائد بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سال 2024 میں بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے 7608 کیس رپورٹ ہوئے، روزانہ کی بنیاد اوسطاً 21 واقعات رپورٹ ہوئے، بچوں پر تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح اکثر کیٹیگریز میں 1 فیصد سے بھی کم رہی۔ سربراہ ایس ایس ڈی او سید کوثر عباس نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 2024 میں جنسی زیادتی کے 2954، اغوا کے 2437، جسمانی تشدد کے 683 واقعات رپورٹ ہوئے، بچوں کی سوداگری کے 586، چائلڈ لیبر کے 895 اور کم عمری کی شادی کے 53 کیس رپورٹ ہوئے۔ جسمانی و جنسی تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح صرف 1 فیصد، اغوا میں 0.2 فیصد، بچوں کی سوداگری میں سزا کی شرح 45 فیصد اور چائلڈ لیبر میں 37 فیصد رہی۔ کم عمری کی شادی کے کیسز میں کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ پنجاب میں بچوں پر تشدد کے 6083 کیس رپورٹ ہوئے، پنجاب میں جنسی زیادتی کے 2506 کیسز میں صرف 28 مجرموں کو سزا ملی، خیبر پختون خوا میں 1102 کیس رپورٹ ہوئے جب کہ جنسی و جسمانی تشدد میں کسی کو سزا نہیں ملی۔ سندھ میں 354 کیس رپورٹ ہوئے جب کہ سزا کی شرح صفر رہی، بلوچستان میں صرف 4 سزائیں ہوئیں۔ سید کوثر عباس نے کہا کہ بچوں پر تشدد کے اصل واقعات رپورٹ شدہ اعداد سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہے۔ بہت ہوچکا، معصوم پھولوں کو روندنے، مسلنے کے ڈھیروں واقعات ہوچکے، اب ہمارے معاشرے میں بچوں کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کے لیے راست کوششیں ضروری ہیں۔ حکومت سمیت تمام مکتب فکر کے افراد اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کا خاتمہ ہر صورت یقینی بنایا جائے۔میڈیا بھی اپنا فعال کردار ادا کرے۔

جواب دیں

Back to top button