Editorial

زراعت کی بہتری کیلئے بڑا قدم

پاکستان زرعی ملک ہے اور زراعت کا شعبہ ملک کی کُل مجموعی آمدن میں 20فیصد کی صورت معقول حصّہ ڈالتا ہے ۔ ہمارے محنت کش کسان شبانہ روز کوششوں میں مصروف رہتے اور ملکی ترقی میں اپنی بساط کے مطابق حصّہ ڈالتے ہیں۔ ملک و قوم کے لیے ہاریوں کی خدمات ہر لحاظ سے قابل تحسین اور ناقابلِ فراموش ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے کچھ سال سے ملک میں زرعی پیداوار اور آمدن مسلسل گھٹ رہی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے ہاں زراعت کے نظام کا جدید اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ملک میں قدیم طریقۂ کاشت کاری اب تک استعمال ہورہا ہے، جس کی وجہ سے مسلسل فصلوں کی پیداوار ہر سال کم ہورہی ہے۔ دُنیا بھر میں کاشت کاری کے جدید طریقوں کو بروئے کار لاکر فصلوں کی پیداوار میں اضافے کیے جارہے ہیں جب کہ یہاں پیداوار ہر سال متاثر ہورہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اکثر شعبوں میں اصلاحات کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ وہ کئی بار زراعت کے شعبے میں انقلاب لانے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے۔ اس دوستی کو سمندر سے بھی گہرا اور ہمالیہ سے بھی بلند گردانا جاتا ہے۔ درحقیقت ایسا ہی ہے۔ چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ نبھاتا چلا آرہا ہے۔ پاکستان نے بھی اپنے دوست کو کبھی مایوس نہیں کیا ہے۔ چین نے پچھلے دو ڈھائی عشرے میں ہر شعبے میں عظیم کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اُس کی حیرت انگیز ترقی پر پوری دُنیا انگشت بدنداں ہے۔ چین اپنے دیرینہ دوست پاکستان کو بھی ترقی اور خوش حالی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چین سی پیک کی صورت وطن عزیز میں عظیم سرمایہ کاری کررہا ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کررہا ہے۔ اب زراعت کے شعبے میں اُس کی جانب سے بڑی معاونت کی جارہی ہے۔ پاکستان کے ہزار زرعی گریجویٹس کو اسکالرشپ پر چین میں تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس حوالے سے منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز پہلے مرحلے میں 300طلبہ کو چین بھیجنے کے سلسلے میں تقریب کا انعقاد ہوا، اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے زرعی شعبے کو تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے، اسی سلسلہ میں ایک ہزار زرعی گریجویٹس کو ٹریننگ پر چین بھیجا جارہا ہے جن کا میرٹ پر انتخاب کیا گیا ہے، پاکستان میں دیہی سطح پر چھوٹی صنعت کے فروغ اور ویلیو ایڈیشن کے لیے نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے دیں گے۔ نوجوانوں کو مواقع دے کر ملکی ترقی کی رفتار بڑھائیں گے۔ نوجوانوں کو آگے بڑھاکر ہی ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان سب کا سانجھا ہے، چاروں اکائیوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، ملکی ترقی کیلئے چاروں صوبوں کی یکساں ترقی لازم و ملزوم ہے، چین نے ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا، آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں بھی مدد کی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف شعبہ زراعت کی استعداد بڑھانے کے لیے 1000زرعی گریجویٹس کو اعلیٰ تربیت کے لیے اسکالرشپ پر چین بھیجنے کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں 300طلبا کو چین بھیجنے کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج اہم دن ہے، جب ہمارے نوجوان گریجویٹس دوست ملک چین میں جدید زرعی ٹیکنالوجی سے استفادے کے لیے جارہے ہیں اور توقع ہے کہ وہ واپس آکر اپنے اس تجربے سے ملکی زرعی ترقی میں کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے لیے چین میں اس سہولت کی فراہمی پر ہم چینی قیادت کے شکر گزار ہیں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی طلبہ چین اور پاکستان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے وزیر اور سیکریٹری آئی ٹی کی طالب علموں کی سلیکشن کے لیے پورٹل بنانے سمیت معاونت پر ان کا بھی شکریہ ادا کیا۔ زرعی گریجویٹس کی چین میں تربیت سے پاکستان میں زرعی انقلاب کی راہ ہموار ہوگی۔ اسے زراعت کی بہتری کے لیے بڑا قدم قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ لوگ تربیت کے بعد پاکستان میں زراعت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ زرعی پیداوار اور آمدن میں خاطرخواہ اضافے ہوں گے۔ کُل ملکی مجموعی آمدن میں زراعت کا حصّہ بڑھ خاصا بڑھے گا۔ اس سے معیشت کو مضبوط بنانے میں بڑی مدد ملے گی۔ زرعی پیداوار بڑھنے سے خودکفالت کی منزل کو پایا جاسکے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ پاکستان سب کا سانجھا ہے، اس کی ترقی اور خوش حالی کی لیے چاروں اکائیوں کو مل کر خدمات سرانجام دینی ہوں گی، چاروں صوبوں کو یکساں ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان ان شاء اللہ آئندہ وقتوں میں حیرت انگیز ترقی حاصل کرے گا۔ ملک کی 60فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو ملک کی قسمت بدل دینے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان بہت باصلاحیت ہیں۔ وزیراعظم نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے خاصے پُرعزم ہیں اور اس حوالے سے اُنہوں نے اپنے خیالات ظاہر بھی کیے ہیں۔ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ ان شاء اللہ کچھ ہی سال میں اس کا شمار دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔
کرونا علامات کا حامل وائرس
دسمبر 2019ء میں چین میں دُنیا کا اب تک کا سب سے خطرناک وائرس کرونا نمودار ہوا تھا، جس نے ہزاروں لوگوں کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے چین نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات یقینی بنائے تھے۔ یہ وائرس چین کے بعد دُنیا بھر میں پھیل گیا تھا۔ کروڑوں لوگ اس کی زد میں آئے۔ بے شمار اموات ہوئیں۔ فاصلوں میں بقا ٹھہری۔ پوری دُنیا میں لاک ڈائون لگے۔ دُنیا کی بڑی بڑی معیشتیں زمین بوس ہوگئیں۔ جیسے پوری دُنیا ہی بند ہوکر رہ گئی تھی۔ کتنے ہی لوگوں کو تنہائی میں اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھنے کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ امریکا، برطانیہ، بھارت، برازیل، اٹلی اور دیگر ممالک میں بڑی تباہ کاریاں مچی تھیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ پاکستان اس عالمی وبا میں زیادہ متاثر نہیں ہوا، کرونا سے اموات بھی ہوئیں، لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے، لیکن ان کی تعداد دُنیا کے دیگر ممالک کی نسبت خاصی کم تھی۔ کرونا وائرس اب بھی ہر ایک کے لیے خوف کی علامت ہے کہ دُنیا بھر کی اس کے ساتھ انتہائی تلخ یادیں جڑی ہیں۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کرونا سے ملتا جُلتا وائرس پھیلنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق لاہور میں کرونا وائرس کی علامات کے حامل مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی، فلو وائرس سے ہر گھر کے 3سے 4افراد متاثر ہورہے ہیں۔ پلومونولوجسٹ ڈاکٹر عرفان کا کہنا ہے کہ لاہور میں 35فیصد مریض فلو، نزلہ، زکام اور بخار کے رپورٹ ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں فلو سے متاثرہ مریضوں میں کووڈ 19کی علامات آرہی ہیں، جو ایک سے دوسرے مریض کو لگ رہا ہے۔ ڈاکٹر عرفان نے مزید کہا کہ فلو والے مریض ماسک لازمی پہنیں، مرض کے دوران اینٹی بائیوٹک کھانے کی ضرورت نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بخار اور اینٹی الرجک دوائی لیں اور آرام کریں، فلو 3سے 4دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ کرونا وائرس کی علامات کے حامل مریضوں کی تعداد بڑھنا تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہے۔ حکومت کو اس صورت حال کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ ہر طرح سے احتیاط کا دامن تھامے رکھیں، کیونکہ احتیاط کے ذریعے امراض سے خود کو بچانا ممکن ہے۔ ویسے بھی احتیاط کو افسوس سے بہتر گردانا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو اس وائرس کی علامات ہیں، اُن سے فاصلہ قائم رکھیں، شہری ماسک کا استعمال کریں۔ اس طرح اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button