Editorial

آپریشنز میں 11دہشتگرد ہلاک، 4گرفتار

پاکستان 2001سے لے کر 2015تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ سانحہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں اُس کا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ روزانہ ہی پاکستان کے مختلف حصّوں میں دہشت گردی کے مذموم واقعات رونما ہوتے تھے، جن میں درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ ڈیڑھ عشرے تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے نتیجے میں 80ہزار بے گناہ شہریوں کو اپنی زندگیوں سے محروم ہونا پڑا۔ ان میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران اور جوان بھی شامل تھے۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے خوف کھاتے تھے۔ اُنہیں اندیشے لاحق ہوتے تھے کہ شام کو صحیح سلامت گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں؟ شرپسند اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف تھے۔ عبادت گاہیں محفوظ تھیں نہ عوامی مقامات، تفریح گاہوں پر بھی شرپسند پہنچ کر قومی تاریخ میں سانحات کو بڑھاوا دیتے دِکھائی دئیے۔ سانحۂ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا گیا اور سیکیورٹی فورسز نے آپریشن ضرب عضب اور پھر آپریشن ردُالفساد کی بدولت خاصی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر مارا، اُن کے اڈوں کو برباد کیا، متعدد شرپسندوں کو گرفتار کیا گیا، دہشت گردوں کی سٹی گم کرکے رکھ دی گئی۔ ایسے میں جو دہشت گرد بچ گئے تھے، اُنہوں نے پاکستان سے فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ کاروباری افراد بھی شکر گزاری کرتے دِکھائی دیے۔ امن قائم ہونے کے باعث سرمایہ کاروں نے پھر سے پاکستان کا رُخ کیا۔ سات سال تک ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر رہی۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کی عبوری حکومت کے وہاں قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خاص نشانے پر ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے قافلوں پر متواتر حملے کیے جارہے ہیں، چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، تنصیبات پر حملے ہورہے ہیں۔ متعدد جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز پہلے بھی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹ چکی ہیں۔ اس بار بھی پوری تندہی اور طاقت سے دہشت گردوں سے برسرپیکار ہیں، دہشت گردوں کو چُن چُن کر جہنم واصل اور گرفتار کیا جارہا ہے۔ متعدد علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرایا جاچکا ہے۔ ان کے خلاف سیکیورٹی فورسز مصروفِ عمل ہیں، گزشتہ روز بھی مختلف آپریشنز میں 11دہشت گردوں کو اُن کے انجام تک پہنچادیا گیا جبکہ 4کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، اس کے ساتھ گزشتہ روز اغوا ہونے والے جج کی بحفاظت بازیابی بھی یقینی بنائی گئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں آپریشنز کے دوران 11دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 4کو گرفتار کرلیا، ادھر دکی میں مائنز کی حفاظت کے لیے قائم ایف سی کی چوکی اور کمک کے لیے جانے والی ایف سی کی گاڑی پر حملے کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید جبکہ 3زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع ٹانک میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں 4دہشت گرد ہلاک ہوئے، ہلاک دہشتگردوں کے قبضے سے اسلحہ اور گولا بارود بھی برآمد ہوا۔ ہلاک دہشت گرد علاقے میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔ ادھر ٹانک ہی میں دو روز قبل اغوا ہونے والے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاکر اللہ مروت کی بازیابی کے لیے کئے گئے آپریشنزکے دوران 6دہشت گرد مارے گئے۔ پولیس کے مطابق گزشتہ رات سیکیورٹی فورسز نے علاقہ کلاچی میں آپریشن کیا، آپریشن کے دوران جج کی بحفاظت بازیابی ممکن ہوئی۔ پولیس کے مطابق جج شاکر اللہ مروت اس وقت بالکل خیریت سے ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ مغوی کی بازیابی کیلئے ٹانک اور ڈی آئی خان کے سرحدی علاقوں میں آپریشنز کیے گئے۔ پولیس نے بتایا کہ جج شاکر اللہ مروت کی بازیابی کیلئے 2دن میں آپریشنز کے دوران 6دہشت گرد ہلاک ہوئے، کئی مطلوب دہشتگردوں کے خاکے تیار کیے گئے ۔دوسری طرف محکمہ انسداد دہشتگردی نے بشام میں چینی انجینئرزکی بس پر خودکُش حملے میں ملوث ٹی ٹی پی کے 4دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا۔ سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کے مطابق حملے کا مرکزی ملزم عادل شہباز ہے جس کا تعلق جلال آباد افغانستان سے ہے۔ عادل شہباز سمیت واقعے میں ملوث تمام ملزمان محمد شفیق قریشی، زاہد قریشی اور نذیر حسین مانسہرہ کے رہائشی ہیں۔ ادھر لکی مروت میں پولیس نے چوکی پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنادیا۔ پولیس کی جوابی کارروائی پر حملہ آور فرار ہوگئے۔ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا۔ بنوں میں سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) کے مطابق سی ٹی ڈی اور پولیس کی کارروائی میں انتہائی مطلوب دہشتگرد اسماعیل کو ہلاک کردیا گیا۔ ہلاک دہشت گرد کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر تھی۔ گزشتہ روز دکی کے علا قے ٹھیکیدار ندی زندہ پیر کے مقام پر مائنز کی حفاظت کے لیے قائم ایف سی کی چوکی پر مسلح افراد نے حملہ کیا، جس پر ایف سی نے جوابی کارروائی کی اور فوری کوئیک رسپانس فورس طلب کی، پولیس کے مطابق ایف سی کی کوئیک رسپانس فورس جونہی موقع پر پہنچی تو مسلح افراد نے گاڑی پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار سپاہی بلال موقع پر شہید ہوگیا جبکہ تین اہلکار زخمی ہوگئے۔ زخمی اہلکاروں میں سپاہی شہزاد ،لاس نائیک قیوم اور لاس نائیک عصمت اللہ شامل ہیں۔ ایف سی نے علاقے کا محاصرہ کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔11دہشت گردوں کی ہلاکت اور 4کی گرفتاری بڑی کامیابی ہے۔ دکی میں حملے میں جوان کی شہادت پر قوم بھی اُن کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ عوام سپاہی بلال کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ وہ اور اُن کی لواحقین ہر لحاظ سے قابل عزت و احترام ہیں۔ سرزمین پاک کے لیے ایسے بہادر سپوت قابلِ فخر ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ مختلف آپریشنز انتہائی تیزی کے ساتھ جاری ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں کرلیا جائے گا اور امن و امان کی فضا مکمل طور پر بحال ہوجائے گی۔
مزدوروں کا عالمی دن اوراُسکے تقاضے!
پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج محنت کشوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں ملک بھر میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا، جن میں مقررین مزدوروں کے حق میں جوشیلے خطابات کریں گے، حکومتی سطح پر بھی اُن کے حقوق کی باتیں ہوں گی اور پھر اُنہیں پورے ایک سال کے لیے فراموش کردیا جائے گا۔ ایسے میں سوال جنم لیتا ہے کہ محض ایک دن ہی کیوں مزدوروں کے حقوق کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں؟ اور پھر آخر پورے سال اُنہیں پوچھا تک نہیں جاتا۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان پروگراموں سے محنت کشوں کو کوئی فوائد پہنچتے ہیں نہ حقوق میسر آتے ہیں، البتہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کے استحصال کے سلسلے مزید دراز ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والا مزدور طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے۔ بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود اُنہیں اُجرت کے نام پر محض کچھ روپے تھما دئیے جاتے ہیںجو اُن کی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی کے جن نے فاقہ کشی کو محنت کشوں اور اُن کے بیوی بچّوں کا مقدر بنادیا ہے۔ بے روزگاری کا عفریت بھی ان کے سائبانوں کے لیے کوئی اچھا امر نہیں ہے۔ اُن کے بچّے تعلیم سے محروم ہیں۔ اُنہیں اور اُن کے بال بچّوں کو علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب نہیں۔ غرض بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں مزدوروں کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ ملکی ترقی کی بنیاد قرار پانے والے محنت کشوں کو دُنیا کے مہذب معاشروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اُن کی توقیر کی جاتی ہے جبکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں مزدوروں کی ناقدریوں کی داستان کافی طویل ہے۔ یہ اس طبقے کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ برسراقتدار آنے والے قریباً تمام ہی حکمرانوں نے اپنے اپنے ادوار میں لیبر پالیسیاں ضرور بنائیں لیکن کسی نے ان مزدور دوست پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ان کے نام پر سیاسی جماعتوں نے اپنی دُکانیں تو خوب چمکائیں، لیکن درحقیقت ان کے حقوق کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور طبقہ اپنے تمام تر حقوق سے یکسر محروم نظر آتا ہے۔ محنت کشوں کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ حد سے تجاوز کرچکا ہے، اب ان کو حقوق کی فراہمی کے لیے راست اقدامات کو ممکن بنایا جائے۔ آج محنت کشوں کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ حکومتی سطح پر دعوے اور وعدے بہت کیے جاچکے، اب اس سے بڑھ کر ان کے لیے عملی طور پر کام کیے جائیں۔ اُن کی تنخواہیں مناسب سطح پر لائی جائیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اس ضمن میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مزدوروں کو اُن کے حقوق کی فراہمی کے لیے نیک نیتی سے راست اقدامات کرلیے گئے تو اس سے ضرور اس طبقے کی اشک شوئی ہوسکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button