Editorial

بھارت کی نام نہاد ترقی اور زمینی حقائق

بھارت دُنیا کی سفّاک ترین ریاست ہے، جس کے سر پر خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کا جنون سمایا ہوا ہے۔ خطے کے کسی ملک سے اس کی نہیں بنتی۔ پاکستان اور چین سے تو باقاعدہ جنگیں لڑ چکا اور اس کے سورما فوجی دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوچکے۔ بنگلہ دیش، ایران، نیپال اور مالدیپ وغیرہ سے بھی اس کے اچھے تعلقات نہیں۔ ان سے بھی آئے روز تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جنگی خبط ان حدوں کو چُھو رہا ہے کہ بھارت پچھلے کئی سال سے اپنے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ کرتا چلا آرہا ہے۔ حالانکہ بھارت میں کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کروڑوں لوگ سڑکوں پر سوتے ہیں۔ کروڑوں بھارتی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔ غربت و افلاس کے سلسلے ہیں۔ بھوک کا برہنہ ناچ ہے، کروڑوں بھارتی رات کو بھوکے سوتے ہیں، اُن کی زندگیاں پس ماندگی کی انتہائوں کو چھوتی دِکھائی دیتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے ملک کی غریب آبادی کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی، لیکن بھارت تو دُنیا فتح کرنے کا متمنی ہے، اس لیے دفاعی بجٹ مسلسل ہولناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں دس سال سے برسراقتدار رہنے والے مودی اور اس کے ساتھیوں کے دماغ پر نام نہاد ملکی ترقی اور خوش حالی کا بھوت چڑھا ہوا ہے، اس لیے یہ جعلی ترقی اور خوش حالی کے دعوے بڑے طمطراق سے کرتے نظر آرہے ہیں۔ انتخابی مہم میں جتنا جھوٹ بھارت میں بولا جاتا ہے، دُنیا کے کسی خطے میں دیکھنے میں نہیں آتا، انتہاپسند جماعت بی جے پی کے سیاست دان حقیقت کو چھپا کر اپنے عوام اور دُنیا کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ پچھلے دنوں بھارت کے وزیر دفاع نے اپنے ملک کی جھوٹی ترقی کا ڈھول پیٹنے کی کوشش کی، جس میں وہ بُری طرح ناکام رہے اور اُن کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ مقبوضہ جموں و کشمیر فاروق عبداللہ نے ہی اُن کے لتے لے لیے اور اپنے بیان کے ذریعے بھارت پر لرزہ طاری کر دیا۔بھارت کی جانب سے گزشتہ دنوں ہرزہ سرائی کی گئی تھی، آزاد کشمیر سے متعلق بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہمارا ہے اور رہے گا، انڈیا میں ہونے والی ترقی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ خود بھارت میں شامل ہوجانے کا مطالبہ کردیں گے۔ بی جے پی کے نامزد امیدوار کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا کی طاقت بڑھ رہی ہے، دُنیا بھر میں بھارت کے وقار میں اضافہ ہورہا اور معیشت بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ اب ہمارے بہن بھائی خود بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا مطالبہ کردیں گے۔ بھارت کے وزیر دفاع کی خوش فہمی جلد ہوا ہوجائے گی۔ انتخابات میں اُن سے بھارتی عوام پچھلے دس سال کے دوران کی گئی بدترین ناانصافیوں کا بدلہ خود لے لیں گے۔ اقلیتیں بھی بی جے پی کے ساتھ انتقام میں پیچھے نہیں رہیں گی کہ مودی حکومت نے اُن پر انتہاپسند ہندوئوں کو مسلط رکھا، جو اُن کے حقوق کو اپنے پیروں تلے روندتے رہے اور اُن پر ناجائز اور غیر قانونی فیصلے طاقت کے زور پر مسلط کرتے رہے۔ اُن کے حقوق کی بدترین پامالی کی گئی۔ دوسری جانب بھارت پچھلے 76سال سے ناجائز اور غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے۔ سوا لاکھ کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر دُنیا کی سب سے بڑی جیل تصور کیا جاتا ہے، جہاں درندہ صفت بھارتی فوج کے مظالم کے باعث کتنی ہی خواتین بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں، کتنی کی مائوں کی گودیں اُجاڑی جاچکی ہیں، کتنی ہی بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے بھائی اور باپ کا سایہ چھینا جاچکا ہے، کوئی شمار نہیں۔ بھارتی مظالم میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان شروع سے ہی مقبوضہ جموں وکشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتا چلا آیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے تسلط سے نجات دلانے کے ضمن میں اُس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گزشتہ روز بھی پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں ناصرف آواز بلند کی بلکہ بھارتی وزیر دفاع کے اشتعال انگیز بیان کا منہ توڑ جواب بھی دیا ہے۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں مظالم رُکوائے، آزاد کشمیر سے متعلق بھارتی رہنمائوں کے اشتعال انگیز بیانات اور بلاجواز دعووں کا نوٹس بھی لیا جائے۔ او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال سمیت سیاسی اور سیکیورٹی ماحول کا جائزہ لیا گیا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت منظم طریقے سے کشمیری عوام کو بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم کررہا ہے۔ بھارتی حکام نے اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارتی رہنمائوں کے بیانات علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ عالمی برادری آزاد کشمیر سے متعلق بھارتی رہنمائوں کے اشتعال انگیز بیانات اور بلاجواز دعوئوں کا بھی نوٹس لے۔ عالمی برادری کو غیر جانبدارانہ رہتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے تصفیے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اُنہیں بھارت کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں سے روکنے کے لیے اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ کہاں ہیں وہ مہذب دُنیا، جو جانوروں کے حقوق پر بے چین ہوجاتی ہے، اُسے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم کیوں نظر نہیںآ رہے۔ بہت ہوچکا۔ اب عالمی برادری اپنی دوغلی روش ترک کرے اور حق کا ساتھ دیتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ میں 76سال قبل منظور کردہ قراردادوں کے مطابق اس دیرینہ مسئلے کا حل نکالا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد انہیں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوگا۔
تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق
جلد فیصلہ لیا جائے
تعلیمی میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی قومیں ہی ترقی اور خوش حالی کی معراج پر پہنچتی ہیں، تعلیم کی زبوں حالی کے ساتھ کوئی بھی ملک کامیاب کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ افسوس وطن عزیز میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی تعلیم کے شعبے پر وہ توجہ نہ دی جا سکی، جس کی ضرورت تھی۔ نتیجے کے طور پر وقت گزرنے کے ساتھ اس حوالے سے صورت حال انتہائی دگرگوں ہوگئی اور آج عالم یہ ہے کہ ملک میں تعلیم کا بیڑا غرق ہے۔ اس کے لیے ماضی سے تاحال سالانہ بجٹ میں انتہائی معمولی حصہ مختص کرکے ذمے داریاں ادا کی جاتی رہیں۔ تعلیمی نظام میں خرابیاں در خرابیاں در آتی چلی گئیں، ان پر توجہ نہ دی گئی۔ ترقی و خوش حالی کے سفر میں ہمارے پیچھے رہنے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ ہمارے ملک کے طول و عرض میں بے شمار ایسے بچے موجود ہیں جو اسکول جانے کی عمر میں ہاتھوں میں اوزار تھامے، کسی ہوٹل پر بیرے کی ذمے داری نبھاتے، کہیں اُستاد کی ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں کھاتے اپنے گھروں کا معاشی بوجھ ننھے سے کاندھوں پر ڈھوتے نظر آتے ہیں۔ گھر کے خراب معاشی حالات کھیلنے کودنے کی عمر میں انہیں وقت سے پہلے بڑا بنا دیتے ہیں۔ غربت کا عفریت بڑی تباہ کاریاں مچاتا ہے۔ والدین بھی لاپروائی دکھاتے ہیں اور حکومتی سطح پر بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، اسی لیے حالات وقت گزرنے کے ساتھ ابتر ترین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے کروڑوں بچے اسکول جانے کی عمر میں تعلیم سے دُور ہیں۔ ڈھاءی کروڑ سے زائد تعداد بنتی ہے۔ یہ امر ہمارے مستقبل کے معماروں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ موجودہ حکومت معیشت کی بحالی کے ساتھ مختلف میدانوں میں اصلاحات کا عزم رکھتی ہے۔ اس لیے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ پر غور کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا اسکولوں سے باہر بچوں کو تعلیمی اداروں میں واپس لانے کا مشن، وفاقی حکومت نے ملک بھر میں ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کرنے پر غور شروع کر دیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے نیشنل ایجوکیشن ایمرجنسی ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت کردی، جس کے بعد وفاقی وزارت تعلیم نے تعلیمی ایمرجنسی پر کام شروع کردیا۔ ٹاسک فورس میں وزرائے تعلیم، قومی و بین الاقوامی تعلیمی اداروں کے سربراہان کو شامل کیا جائے گا، ٹاسک فورس تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی نگرانی اور گائیڈ لائنز تشکیل دے گی، ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ آئندہ پانچ سال کے لیے ہوگا۔ ذرائع کے مطابق ایمرجنسی کے تحت 2کروڑ 60لاکھ بچوں کی سکولوں تک رسائی یقینی بنائی جائے گی، پاکستان میں اسکول جانے والی عمر کے 40فیصد سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، اسکولوں سے باہر بچوں میں 54فیصد تعداد بچیوں کی ہے۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر ہیں۔ حکومت کو تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے فی الفور فیصلہ لینا ہوگا۔ تعلیمی میدان میں بہتری کے لیے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کرنے ہوں گے۔ ڈھائی کروڑ سے زائد اسکول جانے سے محروم تمام بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہیں زیور تعلیم سے ضرور آراستہ کیا جائے، خواہ بچے ہوں یا بچیاں، کیونکہ دونوں سے ہی ملک کا سنہری مستقبل وابستہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button